(Last Updated On: )
صدیق مجیبی کی غزلیہ شاعری میں کلاسیکی رچائو اور جدید جدید شعری احساس کا سنگم نظر آتا ہے:پروفیسر سراج اجملی
ممتاز و منفرد جدید غزلگو شاعر مرحوم صدیق مجیبی کی چھٹی برسی کے موقع پر ’مجلس ادب‘علی گڑھ کے زیر اہتمام صابرہ ریزیڈنسی،انوارالہدیٰ کمپائونڈ،علی گڑھ میں ایک مذاکرہ اور شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔جس میں نامور ادبا و شعرا نے شرکت کر جناب مجیبی کو خراج عقیدت پیش کیے۔مذاکرہ کا آغاز ڈاکٹر سرور ساجد کے تمہیدی کلمات سے ہوا جس میں انوں نے صدیق مجیبی کے تین اشعار کے حوالے سے اس ات کا اظہار کیا کہ صدیق مجیبی کی غزلوں میں ترقی پسندی،جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تینوں کے اثرات نظر آتے ہیں۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف شاعر عالم خورشید نے اس بات کا اظہار کیا کہ صدیق مجیبی کو میں نے برسوں بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا کہ ان کی غزلوں میںایک ارتقائی کیفیت نظر آتی ہے،جس میں ایک فقیر اور ملنگ کے ساتھ ساتھ دنیا دار شخص کی جھلک بھی موجود ہے۔مہمان خصوصی کلچرل ایجوکیشن سنٹر کے کورڈینیٹر پروفیسر سید سراج اجملی نے کہا کہ صدیق مجیبی کا پہلا تعارف مجھے معروف افسانہ نگار حسین الحق کے ذریعے ہوا۔جہاں تک صدیق مجیبی کی غزلوں کا تعلق ہے تو ان کے یہاں کلاسیکی رچائو کے ساتھ جدید شعری احساس بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔مروفیسر مولا بخش نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ صدیق مجیبی ایک مثلی استاد تھے۔ان کی غزلوں میں لاشعوری طور پر جو اساطیری استعارے در آئے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ اشعار کی معنویت میں تہہ داری پیدا کرتے ہیں بلکہ ابلاغ کی توسیع و ترفع میں خوبصورتی کا اضافہ کرتے ہیں۔ڈاکٹر زبیر شاداب نے کہا کہ صدیق مجیبی کی غزلوں کا جو کربلائی پس منظر ہے اس میں نیا پن یہ ہے کہ وہ اپن غزلوں کے اشعار میں صرف کربلا کے واقعہ کو بیان نہیں کرتے بلکہ راوی کی حیثیت سے اپنی انا کے خود بھی جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر معید رشیدی نے کہا کہ صدیق مجیبی کی شخصیت بڑی ہمہ جہت تھی،وہ اپنے چھوٹوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔بذلہ سنجی ان کی شخصیت کا خاص وصف تھا۔ان کی غزلوں کے نین نقوش بڑے تیکھے ہیں جس میں بیان کا سلیقہ بھی ہے اور نیا ترسیلی انداز بھی۔
اس موقعے پر منعقدہ شعری نشست میں شعراء کے پیش کردہ کلام میں سے منتخب اشعار قارئین کی دلچسپی کے مد نظر یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
اٹھائے سنگ کھڑے ہیں سبھی ثمر کے لیے-دعائے خیر بھی مانگے کوئی شجر کے لیے۔۔۔عالم خورشید
کون ظلمات مسلسل میں رہے گا زنجیر-کس پہ لہرائیے گا زلف دوتا میرے بعد ۔۔۔سراج اجملی
سمندر کی کہانی ساحل بیزار کہتا ہے-سنے کوئی تو مثل موج سر ساحل سے ٹکرائے۔۔۔مولا بخش
بس ایک شب کو تری چھت قبول کر لی ہے-یہ مت سمجھ کے امامت قبول کر لی ہے۔۔۔سرور ساجد
اپنے بھولے ہوئے محور کی طرف لوٹوں گا-گم شدہ تیر ہوں میں سر کی طرف لوٹوں گا۔۔۔زبیر شاداب
اک نظر دیھ مرے دل کی طرف جان مراد-آئینہ سینۂ صد چاک سے بہتر تو نہیں۔۔۔معید رشیدی
گر سچ ہے آہ دل کی جاتی ہے عرش تک-پھر کون رو رہا ہے ارض و سما کے بیچ۔۔۔انضمام الحق صائن
اپنے اندر جو تجھے ڈھونڈنے والے ہو جائیں-تیرے بیمار ترے ہجر میں اچھے ہو جائیں۔۔۔نوشاد احمد
اس موقعے پر نظامت کے فرائض سرور ساجد نے بحسن و خوبی انجام دیے۔حاضرین میں سیف رضا،عارش خان۔غضنفر علی خان،صدف امام،محمد تجمّل اور محمد ثاقب بور خاص موجود رہے۔
“