سید سبط حسن پاکستان کے مشہور بائیں بازو کے دانشور ، صحافی اور ادیب ہیں۔ ان کو پاکستان میں یساریت پسندی اور مارکسیت کے بنیاد گذاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا انجمن ترقی پسند مصنیفیں سے بھی قریبی تعلق رہا۔ سبط حسن 31 جولائی 1916 میں " امباری"، اعظم گڑھ، یوپی بھارت میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان کے ادبی وعلمی جرائد " نیا ادب، "پیام"، اور " نیشنل ہیرلڈ" کے مدیر بھی رہے۔ وہ ایک زہین اور ہنرمند مدیر بھی تھے۔ سید قاسم محمدر نے اپنے ایک مضمون "سید سبط حسن کیسے مدیر تھے؟ "، میں لکھا ہے ۔۔"“لیل و نہار” کی محفلِ ادارت کے دولہا سید سبط حسن تھے۔
فیض احمد فیض نام کے چیف ایڈیٹر تھے۔ ورنہ پوری ادارتی منصوبہ سازی اور عملی پروگرام سید صاحب نے بنایا تھا۔ ان کی پہلی ٹیم میں پانچ نائب مدیر شامل تھے۔ نصیر انور، ڈراما نویس، ریاض شاہد، ناول ’ہزار داستان‘ اور فلم ’زرقا‘ کے خالق۔ حسن عابدی، شاعر، صحافی۔ علی صاحب، ان کا پورا نام یاد نہیں۔ پچیس برس بعد ’نوائے وقت‘ کراچی کے شعبۂ حسابات میں ان سے ملاقات ہوئی اور راقم السطور۔۔۔۔۔۔۔ سید سبط حسن ہر چھوٹے بڑے مضمون کی اصلاح سرخ ہولڈر سے کرتے تھے۔ تمام کاموں پر سب سے زیادہ ترجیح مضمون کی اصلاح و نظر ثانی، انٹرو لکھنے، سرخی جمانے کو دیتے تھے۔ دو بڑے کام، ادیبوں اور شاعروں سے جھنجھلائی ہوئی ملاقاتیں، دفتر کے تینوں کمروں میں ’تباہی ہے صاحب تباہی‘ کا شور مچاتے ہوئے، پائپ منہ سے لگائے ہوئے، کھدر کا کرتا اور پاجامہ پکا استری شدہ ، زیب تن کیے ہوئے، ایک فاضل اور قابل کپتان کی طرح اپنی ٹیم کو سنجیدگی سے اپنے اپنے کام پر لگائے ہوئے، متحرک و فعال رہتے۔ سبط حسن کی شخصیت کے متعدد پہلو تھے،وہ ترقی پسند مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مارکسی مفکر، مورخ، صحافی اور سیاسی جماعت کے رکن بھی تھے،ان کے ادبی کارناموں میں ’’پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء‘‘، ’’نوید فکر‘‘، ’’مارکس اور مشرق‘‘، ’’انقلاب ایران‘‘ سمیت’’ لیل و نہار‘‘ اور’’ پاکستان ادب‘‘ نامی جریدہ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹوریل اتنے مشہور ہوا کرتے تھے کہ مارشل لا لگتے ہی پہلا حملہ لیل و نہار پر کیا گیا اور پروگریسو پیپرز لمیٹڈ سمیت اس سے وابستہ تمام لوگوں بشمول سبط حسن کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ ’لیل و نہار‘ کچھ بھی نہیں تھا، سبط حسن کی شخصیت کا مظہر تھا۔ ان سے بڑا اور سچا ایڈیٹر مجھے بعد میں کہیں نہ مل سکا۔" ۔۔۔۔ راقم السطور نے حموربی کا نام سب سے پہلے سبط حسن صاحب سے ہی سنا تھا۔ ان کا ایک مضمون غالبا لاھور کے ادبی جریدے " فنون"میں گل گامش اور حموربی کے حوالے سے چھپا تھا۔ جو میرے زہن میں تھا۔۔ میں نے سبط حسن صاحب سے حموربی کے متعلق جب دریافت کیا تو انھوں نے کوئی ایک گھنٹہ مجھے حموربی کے فلسفہ قانون ان کی سوانح کے علاوہ بابلی تہذیب کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ اور میں نے یہ گفتگو کے بعد جب سبط حسن صاحب سے کہا کہ مجھے تو حموربی کا فلسفہ قانون تو " دستوری یا قانون عمرانیات" کی ایک شاخ لگتا ہے۔ تو میری یہ بات سنکر وہ مسکراتے اور کہا " تم کچھ کچھ اس کو سمجھ گے ھو"۔ سبط صاحب میں یہ بات میں نے محسوس کی کی وہ بئی باتیں تحمل سے سنتے تھے، چاہیے انھیں اس سے جتنا بھی اختلاف ہو۔ اگر ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا اگر ان کو بتایا جائے تو وہ کھل کر اس ہر بات کرتے تھے۔ ان کے متعلق یہ بات بھی کی جاتی تھی کہ " وہ ڈرپوک سرخے ہیں" اور کھل کر بات نہیں کرتے ۔۔۔
یہ بات درست نہیں تھی۔ وہ ہر آدمی سے بالخصوص مارکسزم پر بات کرنا بہتر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ درست سے وہ اس معاملے میں نصف سکہ بند تھے اور نصف روشن خیال تھے۔ مثال کے طور پر ٹی ایس ایلیٹ، کلیم الدین احمد کی ادبی تنقید سے شدید اختلاف کرتے ہوئے ان کے بہے سی باتوں کے تعریف بھی کیا کرتے تھے۔ مگر وار کے ساتھ ساتھ ا ان کی دلچسپیان ادب سے قدرے کم ہوگی تھی اور ان کی زیادہ توجیہ، تاریخ، تہذیب، ثقافت، یساریت پسندی کی متوقع ازسرنو توجہیات، پاکستان میں روشن خیالی، نئی ںوآبادیات اور سامراج ، عہد حاضر کی عقل دشمن قوتیں اور سائنس و سیکولر ازم،ایران کے انقلاب کے بعد خطے کی نظریاتی فکریات اور عملیات ان کی سوچ کا محوربن گئی۔ زاہدہ حنا نے اپنے ایک مضمون میں سبط حسن کے بارے میں لکھا ہے ۔۔ اپنے جاگیردارانہ اور مذہبی پس منظر کے باوجود دوسرے بہت سے ادیب اور شاعر نوجوانوں کی طرح وہ بھی 1935 کی ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا گئے تو وہاں بھی ان کا قبلہ، انقلاب اکتوبر کی طرف راست رہا۔ اس روش کا نتیجہ امریکا میں چند دنوں کی جیل اور پھر امریکا سے دیس نکالا ہوا۔ پاکستان بن چکا تھا، وہ اپنے گھر جانا چاہتے تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی کا حکم تھا کہ نئے ملک کا رخ کرو اور وہاں خرد افروزی اور روشن خیالی پھیلاؤ۔ وہ پاکستان آئے اور یہاں کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی نے پاکستان میں ان کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنایا۔ جیل، پریشاں حالی اور ایوب دور کی سختیوں کی بھٹی سے وہ کندن بن کر نکلے۔" { " آخری فتح انسان کی ہوگی " ایکسپرس نیوز، 25 مئی 2016} محمود حسین سے بات چیت کرتے ہوئے انتطار حسین نے سبط حسن کے متعلق دلچسپ باتیں کیں۔ انتظار حسین بتاتے ہیں۔۔۔۔" انتظار حسین نے سبط حسن کو پہلی دفعہ اس وقت دیکھا، جب وہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ”امروز“ میں سب ایڈیٹر تھے۔ چراغ حسن حسرت ایڈیٹراورحمید ہاشمی نیوزایڈیٹر۔ ۔۔۔ ”امروزمیں لیٹ نائٹ ایک ڈیڑھ بجے کاپی جاتی تھی۔ ایک روز یہ ہوا کہ ساڑھے بارہ کے قریب ایک صاحب ہیٹ لگائے نمودار ہوئے، عینک لگی ہے، جاڑوں کا موسم۔ میرے بالکل برابر بیٹھ گئے۔ نیوزایڈیٹر اور ان کے سامنے مجھ سمیت تین سب ایڈیٹر بیٹھے تھے۔ مہمان کے لیے چائے آئی۔ کوئی بات نہیں ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ حمید ہاشمی کے ساتھ چلے گئے۔ کاپی جڑنے کے وقت حمید ہاشمی واپس آ گئے۔ جب باقی لوگ ادھر ادھر ہوگئے تو مجھ سے حمید ہاشمی نے پوچھا کہ پہچانا وہ کون صاحب تھے؟ میں نے کہا، مجھے کیا پتا۔ کہنے لگے، سبطے بھائی۔ میں نے کہا آپ تعارف ہی کرا دیتے۔ کہنے لگے، باؤلے ہوئے ہو، وہ انڈر گراؤنڈ ہیں۔ “
سبط حسن کے جگری دوست اورممتاز مصور شاکر علی سے انتظار حسین کے قریبی مراسم تھے۔ ان کے گھر بھی ان کا جانا رہتا۔ وہاں ایک دفعہ شاعر زاہد ڈار نے سبط حسن کے بارے میں کچھ کہہ دیا تو شاکر علی کو تاؤ آ گیا اور انھوں نے اپنے دوست کے ناقد کو خوب جھاڑا۔ زاہد ڈار نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سبط حسن کو ڈرائنگ روم انقلابی کہا تھا جس پر شاکر علی بھڑک اٹھے۔ سبط حسن نے ایک مرتبہ شاکرعلی سے پوچھا یہ زاہد ڈار کیا کرتے ہیں؟ ان کے علم میں جب یہ آیا کہ موصوف کچھ بھی نہیں کرتے تواس سے ان کی شخصیت کا کچھ اچھا تاثر ان کے ذہن پر مرتب نہ ہوا۔ سبط حسن، کام، کام، کام کے فلسفے پریقین رکھنے والے،اس لیے زاہد ڈارانھیں کیسے بھا سکتے تھے؟ انتظار حسین کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ ان کی زاہد ڈار کے بارے میں رائے ہے:۔۔۔اس کے لیے حیات ذوق جمود کے سوا کچھ اور نہیں۔ علامہ اقبال کے فلسفہ عمل کی مکمل نفی۔ عمل تو ہم آپ سب کر رہے ہیں۔ ہم سب ہی زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ہانپ رہے ہیں مگر دوڑ رہے ہیں۔ ہمارے بیچ بس ایک زاہد ڈار ہے کہ مٹھس بیٹھا ہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اس تہذیبی ناداری کے زمانے میں یہ ایک دم غنیمت ہے۔ اچھے زمانوں میں ہماری تہذیب ایسے کرداروں سے مالا مال ہوا کرتی تھی۔۔۔۔وہ دیوانہ آدمی نہ سہی۔ فالتو آدمی تو بہرصورت ہے۔ اور اس کم بخت زمانے میں جس کا وظیفہ ہے، کام، کام، کام، اور پیسہ پیسہ پیسہ، ہمارے بیچ ایک فالتو آدمی کا موجود ہونا بہت غنیمت ہے۔ “
تاریخ۔ کمیونزیم، تہذیب و تمدن ، عمرانیات ، بشریات سیاسیات، سامراج/ نوآبادیات اور یورپ کا نشاۃ ثانیہ ان کے مرغوب موضوعات تھے۔1975 میں انھوں نے کراچی سے ادبی جریدہ " پاکستانی ادب" کااجرا کیا۔ اس زمانے میں سبطے صاحب نے مجھے امریکی نیگرو شاعری اور ہارلم نشاۃ ثانیہ کی طرف راغب کیا۔ اور اس موضوع پر مجھ سے انھوں نے کچھ مضامین اور تراجم کروائے۔ جو بعد میں" پاکستانی ادب" نیا دور" ( کراچی) ادب لطیف ( لاھور)، آئندہ (کراچی)، شب خون ( الہ آباد)، سیاق (جموں) میں بھی شائع ھوئے۔ مرزا ظفر الحسن مرحوم ( منتظم ،غالب لائبریری کراچی ) بتاتے تھے کہ "سبط حسن زمانہ طالب علمی میں بہت خوب صورت نوجوان ہوا کرتے تھے اور اکثر ڈراموں میں "ہیرو" کا کردار بھی ادا کرتے تھے"۔۔۔ ایک کانفرس میں شرکت کرنے کے لیے نئی دہلی گئے تھے۔ وہیں 20 اپریل 1986 میں ان کا انتقال ھوگیا۔ ان کی میت کراچی لائی گئی اور وہ کراچی کے سخی حسن قبرستان میں رزق خاک ہوئے۔ سبط حسن نے بارہ (12) کتابیں لکھی۔۔۔۔۔ 1۔ موسی سے مارکس تک ۔۔2۔ شہر نگاران ۔۔ 3 ماضی کے مزار۔۔ 4۔ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ۔۔5۔ انقلاب ایران۔۔ 6۔ نوید فکر 7۔ سخن در سخن ۔۔ 8۔ افکار تازہ۔۔9۔ ادب اور روشن خیالی ۔۔10 ۔ دی بیٹل آف آئیڈیا ان پاکستان ۔۔11۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی ۔۔12 مارکس اور مشرق ۔۔۔
ان کی کتاب سے ایک اقتباس ملاخطہ کریں:
بابلی تہذیب کو فنا ہوئے دو ہزار برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے لیکن سچائ کی آنکھوں سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ اہل مشرق ہوں یا اہل مغرب، یہودی ہوں یا عیسائ، پارسی ہوں یا مسلمان سب کے سب عقیدوں اور رسم و رواج کا رشتہ بابلی تہذیب ہی سے ملتا ہے۔
(ماضی کے مزار)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔