گذشتہ دنوں مشتاق احمدیوسفیؔ کےایک مضمون کےمشمولات، اردوکانفرنس میں ضیامحی الدین کےاسی مضمون سےایک اقتباس کی پڑھنت کےاندازاورحاضرین کےداددینےکےاطوارایک تنقیدکانشانہ بنےتھے
مضمون یوسفی صاحب کی خاکمِ بدہن کا’صبغےاینڈسنز۔سوداگران وناشرانِ کتب‘تھا تنقیدکی وجہ صبغےکی کتابوں کی دکان کےسامنےسےگزرتی بھرے بھرےپچھائےوالی اس قتالۂ عالم کایوسفیؔ ٹریڈمارکہ کھٹ مٹھا ذکرتھا ’چینی قمیص جس کےجسم پرایک چُست فقرےکی طرح کَسی ہوئی تھی‘ اوربھلا (یا برا) ہو اس کی چال کاجس کےباعث ہماری حسینہ’ہرگام پرایک قد آدم صلیب بناتی ہوئی آگےبڑھ رہی تھی‘۔
اب آپ اس پرضیا محی الدین کےنستعلیق لہجےکوتصورکرلیجیے۔ مزےکی بات یہ کہ یہاں صرف لکھنےاور پڑھنےوالے ہی طنزوتشنیع کےلپیٹےمیں نہیں آئےبلکہ ہردو سےمحظوظ ہوتےحاضرین بھی اور بات کچھ اور بڑھی تواپنے نظیرؔ اکبر آبادی بھی ایک بےمثال شعرپر کھری کھری سُن کراسی لائن میں ایک طرف کوکھڑے ہوگئے۔
آگا بھی کھُل رہا ہے، پیچھا بھی کُھل رہا ہے
یاں یوں بھی واہ واہ ہے اور ووں بھی واہ واہ ہے
نظیر نے تو اپنے ہی کسی رنگ اور ترنگ میں یہ شعر کہا ہوگا، کام تو دراصل یوسفیؔ کی تشبیہ نے خراب کیا کہ ہمارےیہاں کی خواتین پندرہ نمبر کے سمندر مشمولات کو دس نمبرکےکوزے میں یوں بند کرلیتی ہیں کہ نظیر کا اوپر بیان کیا شعر حسبِ حال ہوجاتاہے۔ نظیر بھی کہتے ہوں گے
پکڑے جاتے ہیں یوسفیؔ کے لکھے پر ناحق
جہاں بات آدمی نامہ کے نظیر اکبر آبادی تک پہنچی جاتی ہے وہیں خانِ خاناں نے بھی تو ایک دوہا کہا تھا۔ وہی جس میں ایک درزن اور ایک چھیل چھبیلی ناری کے مکالموں کی آنکھ مچولی ہے کہ درزن بےچاری تو روزچولی ڈھیلی اور ڈھیلی کرکےدیتی ہےمگر وہ موئی (چولی) ایک اور’بھلی سی‘ وجہ کےکارن تنگ اورتنگ ہوتی جاتی ہے
بارباردرجن گھر جھگڑت ٹھاڑھ
جوئی جوئی انگیا سیوت ہوئی سوئی کاڑھ
اورہم یہ سوچ رہےہیں کہ جہاں نظیراکبرآبادی کی خلاصی نہ ہوئی وہاں بےچارےعبدالرحیم خانِ خاناں ایک ’آن لائن ٹرولنگ‘ کی لپیٹ میں آکر اپنے اس ذومعنی دوہے سمیت دربدر کی ٹھوکریں کھاتےپھرتے۔
دیکھیے بات چلی تو یوسفی کی قتالۂ عالم کی چال سے ہوتی خانِ خاناں کے دوہے تک چلی گئی۔ مرشدی اگر حیات ہوتے تو ایک دلنشیں مسکراہٹ کےساتھ فی الفوراعترافِ جرم کرتےہوئے اسی سانس میں چسکےلیتےہوئے اپنا وہ واقعہ دوہرادیتے۔ جن دنوں صبح سویرے ساحلِ سمندر پر چہل قدمی انکا معمول تھا ایک خاتون قاری سے برسرِ راہ تعارف ہوا تو خاتون نے بے ساختہ کہا تھا، اچھا تو آپ مشتاق احمد یوسفیؔ ہیں، شکل سے تو آپ اتنے لُچے نہیں لگتے!
رہ گئی ہماری بات تو ہم پر تو ٹوئٹری بریگیڈ کا دُگنا عتاب نازل ہونا تھا کہ صاحبو ہم نہ صرف یوسفی کے اندازِ بیاں اور ضیا محی الدین کی صداکاری کے قتیل ہیں بلکہ اس سے دو ہاتھ آگے ایک بھرے بھرے پچھائے کے ساتھ ٹھمک ٹھمک کر چلنے کے متعلقہ لوازمات اور ہردو کی نمائش کرتے لاہوری تھیٹروں کے بھی رسیا رہے ہیں
جپھی گُھٹ کے جے پاویں اک واری (جی ہاں وہی ۔۔۔)
ہمارے چار یارانِ غار میں سے ایک کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ ہمارے لکھے خط (جی ہاں فدوی ایک زمانے میں یاروں کو خط بھی لکھتا رہا ہے) شاملِ نصاب کردیتے کہ طالبعلموں کو پتا چلتا کہ ایک انتہائی عامیانہ بات کو ایک (نا)معقول پیرائے میں کیسے بیان کرتے ہیں۔
آج ہمیں یہ واقعہ اس لیے بھی یاد آیا کہ گذشتہ سال سعادت حسن منٹوؔ کی برسی پرہم نے جب چند لفظ لکھے تھے تو یوسفی کے اسی مضمون ’صبغے اینڈ سنز ۔ سوداگران و ناشرانِ کتب‘ کا ذکر آیا تھا۔
بقول صبغے’ان صاحب کو کیا کہو گےجو نئے نئے اردو کے لیکچرر مقررہوئے ہیں۔ میرے واقف کار ہیں۔ اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو کالج سےپہلی تنخواہ وصول کرکے سیدھے یہاں آئے اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ لگے پوچھنے، صاحب! آپکے ہاں منٹو کی وہ کتاب بھی ہے، جس میں ’دھرن تختہ‘ کے معنے ہوں؟‘
ہمیں اس بات کاہمیشہ قلق رہےگاکہ جو عمرمنٹوؔکو’بغیرسمجھے‘ پڑھنےوالی تھی وہ خاندان کےبزرگوں سےچال چلن کاسرٹیفکیٹ ’اٹیسٹ‘ کروانےکی وضعداری کی نظر ہوگئی۔ جن دنوں کا ہم ذکر کررہے ہیں فیضؔ کی نسخہ ہائے وفا اور جونؔ ایلیا کی شاید پر نظروں کے زاویے تیکھےہوجایا کرتےتھےمنٹوؔ کےتونام پر ہی گرہستی تعزیرات کےضابطہ فوجداری ودیوانی نےحرکت میں آجاناتھا
فیضؔ صاحب لاکھ دارکی رومانوی منظرکشی کرتے رہیںتب زندگی سہانی اورجینےکی تمناجوان تھی
آپس کی بات ہےایک تنخواہ داراردولیکچررکی پھولی ہوئی سانسوں کےساتھ بھی منٹوکوپڑھنےکااپنامزہ ہےکہ منٹوؔ ہرزمانےکاکہانی کار ہے وہ لاہور کی ایک نسبتاًسردسویرتھی جب پچھلی رات کو اسلام آباد سے لاہور آئے سجادحیدر اور میں میانی صاحب کی بھول بھلیوں میں میجرملک اظہرشہیدکو کھوج رہے تھے کہ اس تلاش بسیارمیں ہم آغاحشرؔکاشمیری اور ساتھ ہی تھوڑا آگے منٹوؔ سے جا ٹکرائے منٹوؔ کی حالیہ لوحِ مزار بھی طنزوکنائے اور رمزواشارے میں کم تونہیں مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنا ایک اور کتبہ بھی تصنیف کررکھا تھا۔ اورصاحبو تارڑؔ صاحب کی زمین میں ’نقل کتبہ کتبہ باشد‘
یہاں سعادت حسن منٹوؔ دفن ہے اور اس کے ساتھ ہی کہانی کہنے کے وہ تمام رمزاور راز بھی دفن ہیں۔ منوں مٹی تلے آسودہ وہ ابھی تک اسی سوچ میں غلطاں ہے کہ دونوں میں سے کون بڑا کہانی کار ہے۔ خداوند کہ وہ
راویٔ رنگین بیان روایت کرتے ہیں کہ اوپر بیان کی گئی عبارت منٹوؔ کی پہلی لوحِ مزار تھی جو کچھ عرصہ تو رہی مگر پھر خوفِ فسادِخلق یا کسی اور وجہ سے موجودہ کتبے سے تبدیل کردی گئی۔ واللہ اعلم
ہم نے ایک عظیم کہانی کارکی برسی پر اسے یادکیا۔ اللہ منٹوؔ سے راضی ہو۔ آمین