ان دنوں آپ کچھ دیر کے لیے کھلی فضاء میں کھڑے ہوں تو آپ کے بالوں سے سرسراتی، گالوں کو چھو کر گذرتی سرد ہوائیں زمین کی اس “نیلی آنکھ” سے امڈ کر آئی ہیں جو کروڑوں سال سے آسمان کی جانب پلکیں اٹھائے کائنات کی وسعت کو حیرت سے تک رہی ہے۔
ہو سکتا ہے یہ جملہ پڑھ کر آپ کو لگے کہ شاید مجھ پر گذرے دسمبر یا بدلتے موسموں کا اثر ہو گیا ہے۔ لیکن تحریر مکمل پڑھنے کے بعد آپ جملے میں چھپی حقیقت بخوبی جان جائیں گے۔
لفظوں کے سہارے تصوراتی منظر کو تشکیل دیتے ہوئے چلتے ہیں ہمالیہ کے اس پار تاتاریوں کے دیس منگولیا سے بھی آگے سائیبیریا کے برفانی صحرا کی جانب۔۔۔۔۔ جس کے جنوب مشرقی کناروں پر واقع ہے جھیل بیکال۔۔۔۔۔
یہ دنیا کی قدیم ترین جھیل ہے۔ اڑھائی سے تین کروڑ سال پہلے جب زمین کے چہرے پر ایک آنکھ کی شباہتی صورت وجود میں آئی تب اور بہت سی جھیلیں بھی موجود تھیں۔ تاہم سب آہستہ آہستہ سوکھ کر ارضی خدوخال کا حصہ بنتی گئیں۔ لیکن بیکال نے اپنا وجود برقرار رکھا۔ اور آج یہ دنیا کی قدیم ترین جھیل کا اعزاز رکھتی ہے۔ جس کے پانیوں میں تین کروڑ پرانے سالمات شاید اب بھی کہیں موجود ہوں۔
یہ جھیل قدیم ترین ہی نہیں، دنیا کی گہری ترین جھیل کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ ایک مقام پر یہ ایک میل سے زائد یعنی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار فیٹ تک گہری ہے۔ تہ میں موجود دراڑوں کے باعث زیرِ زمین پانی بھی جھیل کے پانیوں کا حصہ بیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کروڑوں سال گذرنے کے باوجود سوکھنے نہیں پائی۔
اردگرد کی وادیوں سے آتے چھوٹے بڑے تقریباً تین سو سے زائد دریا بیکال کی آبیاری کرتے ہیں۔ لیکن یہ اتنی وسیع ہے کہ سب دریاؤں کا پانی اپنے اندر سمو کر بھی تشنہ ہے۔ اس کے دہانے سے صرف ایک دریا نکلتا ہے۔ قدامت اور گہرائی ہی نہیں حجم کے اعتبار سے بھی یہ دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے کل تازہ پانی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ صرف جھیل بیکال میں موجود ہے۔
ایک ہلال کی مانند کناروں سے مڑی ہوئی اس جھیل کی کل لمبائی چھ سو چھتیس کلومیٹر ہے۔ یہ اتنا فاصلہ ہے کہ اگر آپ جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے براستہ لاہور اسلام آباد کی جانب بذریعہ جی ٹی روڈ سفر کریں تو آپ کو تمام راستے ہر طرف نیلے شفاف پانی ہی نظر آئیں۔ آپ کا سفر ختم ہو جائے لیکن جھیل کی وسعت پھر بھی باقی رہ جائے۔ اس کی اوسط چوڑائی تقریباً پچاس کلومیٹر تک ہے۔ تاہم بعض مقامات پر اس کا پھیلاؤ تقریباً 80 کلومیٹر تک وسیع ہے۔ بیکال قدیم اور گہری ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی شفاف ترین جھیل بھی کہلائی جاتی ہے۔ اس کے پانی اتنے شفاف ہیں کہ پانی کی سطح سے نیچے ڈیڑھ سو فیٹ تک کے مناظر صاف نظر آتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ چودہ منزلہ عمارت کی چھت تک پانی ہی پانی ہے اور آپ چھت پر کھڑے ہو کر نیچے نگاہ ڈالیں تو آپ کو زمین پر موجود اشیاء بھی صاف نظر آئیں۔
جھیل کے گرداگرد بیکال کے سلسلہ ہائے کوہ اور ٹائیگا کا علاقہ ہے۔ یہ وہی ٹائیگا ہے جہاں اگافیا لائیکوف رہتی ہے۔ دنیا کی تنہا ترین عورت اور دنیا کی قدیم ترین جھیل کے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے۔ بات اور طرف نکل جائے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ میرے لکھے سلسلہ دشتِ تنہائی کی پہلی قسط پڑھ لیجیے۔ موضوع کی جانب واپس لوٹتے ہیں۔
گرمیوں میں جھیل کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تقریباً 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ تاہم یہ گرمیاں محض دو سے تین ماہ پر ہی محیط ہوتی ہیں۔ عموماً جولائی سے ستمبر تک کے مہینوں میں جھیل ایک خوبصورت اور وسیع و عریض ساحل کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ لیکن موسم بدلتے ہی درجہ حرارت کم ہوتا ہے اور جھیل ایک صحرا کا روپ دھار لیتی ہے۔ برف سے لق و دق وسیع و عریض برفانی صحرا۔۔۔۔۔ پانی کی سطح کئی فیٹ تک ٹھوس برف کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ برف اتنی سخت ہوتی ہے کہ منوں وزنی گاڑیاں اس پر آسانی سے گذر جاتی ہیں۔ معلوم ہی نہیں پڑتا کہ جہاں آپ کے قدم پڑ رہے ہیں نیچے کہیں پانیوں کے دھارے اب موجود ہیں جن میں زندگی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سرد موسم میں جھیل کی فضاؤں پر بھی سرد ہواؤں کا راج ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایک جانب درجہ حرارت منفی 40 درجے سینٹی گریڈ تک گِر جاتا ہے۔ تو دوسری جانب ہوا کا دباؤ ایک ہزار ملی بارز سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں پورے علاقے میں خشک اور سرد ہواؤں کا ایک معکوس گردباد یعنی اینٹی سائیکلون وجود میں آتا ہے جسے ہم سائبیرین ہواؤں یا سائبیرین ہائی کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
جھیل بیکال اور اردگرد کے علاقوں سے اٹھنے والی یہ سرد ہوائیں جب پھیلتی ہیں تو قریبی منگولیا کی سرحدوں کو پار کر کے چین سے ہوتی ہوئی جنوبی ایشیاء کے ساحلوں تک وسیع ہو جاتی ہیں۔ ان کی شدت اور ٹھنڈک اتنی ہوتی ہے کہ زمین کے شمالی نصف کُرّے کا تقریباً پورا علاقہ سردی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ ہر طرف خنکی کا راج ہوتا ہے۔ ان ہواؤں کا راج عموماً ستمبر سے اپریل تک رہتا ہے۔ اس دوران شدت میں کمی پیشی ہوتی رہتی ہے۔
سرد موسم میں گرم چائے کی چسکیاں لیتے تحریر پڑھتے اگر آپ یہاں تک آن پہنچے ہیں تو تحریر کو مزید طویل کرنے میں قباحت نہیں۔ بتاتا چلوں کہ جھیل بیکال کی وسعت، قدامت، اور اثر پذیری کے باعث اسے اقوامِ متحدہ کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ آپ خواہ اپنی میز پر دنیا کے نقشے کو پھیلا کر دیکھیں یا خلاء میں جا کر زمین کا نظارہ کریں۔ ہلالی شکل کی اس خوبصورت جھیل کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی وجہ ہے کہ اسے سائبیریا کی “نیلی آنکھ” بھی کہا جاتا ہے۔ حسن، آنکھ اور نیلے رنگ کا آپس میں کیا تعلق ہے یہ اہلِ ذوق ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ امجد اسلام امجد نے بھی کیا خوب حسرت بھرا اظہار کیا ہے۔۔۔۔۔
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں ایک شام کہیں آباد تو ہو
اس جھیل کنارے پل دو پل
ایک خواب کا نیلا پھول کھلے
اب تک آپ پہلے جملے میں چھپی حقیقت کو بخوبی جان گئے ہوں گے۔ علمی نوعیت کی تحریر کو ادبی رنگ دینے کے لیے کچھ اضافی الفاظ کی آمیزش ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم، سب سے گہری، اور حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی جھیل کے پانیوں سے امڈتی ہواؤں اور آپ کے گرداگرد بدلتے موسموں کے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے۔ آپ بھلے اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے، لیکن آپ ان دنوں اپنے گالوں کو چھو کر گذرتی، بالوں سے سرسراتی ہواؤں میں۔۔۔۔ اُس نادیدہ تعلق کی ڈور کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں، جو آپ کے اور دنیا کی قدیم ترین جھیل کے درمیان قائم ہے۔ بقول شاعر
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس جھیل میں پراسراریت کیا ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو کچھ ڈاکومنٹریز دیکھنا ہوں گی۔ سرد موسم میں “آب باری” کا مزا لیجیے۔ اور نیچے دیے لنکس کی مدد سے جھیل بیکال کے بارے میں مزید جانیے۔ اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیے۔
از قلم
(ندیم رزاق کھوہارا)
جھیل بیکال کا نظارہ کرنے کے لیے خطوط ہائے ارض و طول بلد:
53.5587° N, 108.1650° E
جھیل بیکال کے متعلق این ایچ کے ڈاکومنٹری دیکھنے کے لیے لنک
بیکال کی مختصر اور جامع معلومات نیشنل جیوگرافک لنک
جھیل بیکال کے متعلق مفصل مضمون پڑھنے کے لیے لنک
#تعلقکیڈور
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...