سیاسی ٹاک 30 مئی
۔
پاکستان کی سیاست سے مایوس افراد کو میں ایک بار پھر یاد دلا دوں کہ ہر وہ ووٹ جو بیلٹ بکس میں نہیں جاتا وہ اصل میں ظالم کے حق میں کاسٹ ہو جاتا ہے۔
جب جب آپ کو لگے کی ملکی سیاست میں عام آدمی، شریف آدمی کی گنجائش نہیں رہی۔ اور سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں اور یہ کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، تب تب آپ کو یہ سوچنا ہے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں جن کو آپ کے ووٹ ڈالنے سے خطرہ ہے۔ وہ کونسے گروہ ہیں جو آپ کے ووٹ نہ ڈالنے سے طاقتور ہوتے ہیں؟
پاکستان ایک بار پھر الیکشن کرنے جا رہا ہے۔ سیاست کے پانی بہت گدلے ہیں۔ اس میں صاف دیکھنا ممکن نہیں۔ عام آدمی کے لیے سچائی تک پہنچا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ دھول اتنی اڑائی گئی ہے کہ سب کے چہرے ایک جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں اندازے کام آتے ہیں۔ مشورے کام آتے ہیں۔ نیت اچھی ہو تو برا عمل بھی اچھا ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کی نیت پاکستان کی بہتری کے لیے ووٹ ڈالنے کی ہے تو انشااللہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اس فیصلے میں شامل حال ہوگی۔
اگر آپ بہت زیادہ کنفیوزڈ ہوں تو اپنے کسی ایسے قریبی جاننے والے سے مشورہ کریں جس پر آپ اپنی زندگی کے کسی ذاتی مسئلے پر پورے اعتماد سے مشورہ کرسکتے ہوں۔ جس پر آپ اپنے پیسے، عزت اور خاندان کے بارے میں اعتماد کر سکتے ہوں۔ کیونکہ ووٹ کا فیصلہ بھی آپ کے خاندان، پیسے اور عزت و حفاظت سے متعلق فیصلہ ہے۔
ووٹ دینے کے عمل کو سمجھیں۔ جمہوریت میں ووٹ کا مطلب آپ کی رائے ہے جس کو آپ کا امیدوار اگلے پانچ سال ملک کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جتنا ممکن ہو جمہوریت کے عمل کو سمجھیں۔ کوشش کریں باقی دنیا میں جہاں لوگوں کی زندگیاں اچھی ہیں، وہاں کی جمہوریت کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کریں۔ اور پتہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ لوگ کس بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔
آپ کو پتہ چلے گا کہ جن جن ملکوں میں جمہوریت فائدہ مند ہے اور عام آدمی کی زندگی آسان ہے، وہاں لوگ ووٹ ایمانداری اور اہلیت کی بنیاد پر دیتے ہیں۔ اور جن جن ملکوں میں جمہوریت کے نام پر لوگوں کی زندگی اجیرن ہے اور کوئی ایک یا دو خاندان قابض ہیں، وہاں ذات برادری، تعلقات، جھوٹی نعرے بازی، لالچ، اور مقامی غنڈوں یا "بااثر افراد" کے پریشر پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔
کوشش کریں ان انتخابات میں آپ اچھے امیدوار کو ووٹ دیں، کسی ضد، نعرے، یا مقامی غنڈے کی دھونس پر نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔