سیاسی صورتحال پر ایک نظر
عام انتخابات دو ہزار اٹھارہ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے،سیاسی فضا بھی اسی حوالے سے گرم ہورہی ہے۔ٹکٹم ٹکٹا کا مرحلہ تقریباختم ہو نے جارہا ہے،جن سیاسی پہلوانوں کو ٹکٹیں ملنی تھی ،وہ مل گئی،کچھ سیاسی لوگ اب بھی اپنی پسندیدہ جماعت سے ٹکٹ لینے کے لئے بے چین ہیں ۔تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی کھلاڑی کاغذات نامزدگی بھی داخل کرائے جارہے ہیں۔ اس وقت کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جو بیچاری ٹکٹ لے کر گھوم رہی ہیں ،لیکن ان کی ٹکٹیں لینے والا کوئی نہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں کچھ اس طرح کی سیاسی صورتحال کا شکار ہے کہ انہیں امیدوار کھڑے کرنے کے لئے سیاسی بندے نہیں مل پارہے،وہی پیپلز پارٹی جس کا ٹکٹ لینا کسی بھی انسان کے لئے خوش قسمتی تھی۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی ٹکٹیں سب سے فیورٹ سمجھی جارہی ہیں،جن لوگوں کو ان دو جماعتوں کی ٹکٹیں مل رہی ہیں ،وہ بہت خوش دیکھائی دے رہے ہیں۔کچھ سیاسی جماعتوں نے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے دیئے کہ جس پر دانشور حیرت زدہ ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ،پریشانی کی سی صورتحال یہ کہ کچھ پارٹیوں نے ایسے لوگوں کو ٹکٹیں دی ہیں جو ان کے نام نہاد نظریئے کے بھی خلاف ہیں ،اسی وجہ سے کنفیوژن ہیں اور سوالیہ نشان پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔پاکستان کی لبرل سیاسی جماعت اے این پی نے پی کے اکاون صوبائی اسمبلی کی سیٹ سے حمایت اللہ معیار صاحب کو ٹکٹ تھمادی ہے۔جی ہاں وہی حمایت اللہ معیار جو ہمیشہ مشال خان کے قاتلوں کے حمایتی رہے ہیں۔جب مشال خان کو یونیورسٹی میں قتل کیا گیا تھا تو اس وقت وہ ضلع مردان میں ضلعی ناظم کے عہدے پر فائز تھے۔جب مشال خان کو قتل کیا گیا تھا تو اس وقت ولی خان یونیورسٹی میں بربریت کا سماں تھا ،ساری دنیا قاتلوں پر تھوتھو کررہی تھی اور حمایت اللہ معیار صاحب قاتلوں کے ساتھ تھے اور ان کی حمایت میں نعرے بلند کررہے تھے۔دنیا جانتی ہے کہ مشال خان کو یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن نے نقاب کرنے کے جرم میں ایک سازش کے زریعے قتل کیا گیا تھا ۔بظاہر طالبعلوں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ظالمانہ انداز میں مشال کو قتل کیا تھا ۔لیکن قتل کا حقیقی منصوبہ یونیورسٹی کی اعلی انتظامیہ نے ترتیب دیا تھا اور حمایت اللہ معیار اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ تھے اور مشال خان قتل کیس پر دباو ڈال رہے تھے ۔مشال خان کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے کہا کہ یونیورسٹی میں طاقتور فرعون کرپشن میں ملوث ہیں ۔اسی وجہ سے مردان میں ولی خان یونیورسٹی کی مقتدر قوتوں نے انہیں قتل کرایا ۔ان فرعونی قوتوں کا سر غنہ حمایت اللہ معیار تھا ۔حمایت اللہ معیار کو اب اے این پی نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ سے نواز دیا ہے۔دانشور طبقہ اب یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اے این پی نے ایسا کیوں کیا؟وہ سیاسی جماعت جو اپنے آپ کو سیکولر،لبرل ،انسان دوست ،ترقی پسند اور روشن خیال کہتی ہے۔جو کہتی ہے کہ ان کی جماعت کا وہی نظریہ ہے جو باچا خان کا تھا ،اس نے حمایت اللہ معیار کو ٹکٹ کیسے دیا ،کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور یا نظریئے کی کوئی اہمیت یا اوقات نہیں ہوتی ؟کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ زاتی اور گروہی مفادات ہی اہم ہوتے ہیں نہ کہ سیاسی نظریہ ؟اے این پی کا چہرہ یہ ہے کہ اس کے پیروکار باچا خان بابا کے نظریئے پر عمل پیرا ہیں ،باچا خان کا نظریہ انسان دوستی ،عدم تشدد،امن ،بھائی چارہ اور محبت تھا ،لیکن حمایت اللہ معیار تو تشدد پسندی اور انتہاپسندی کے نظریئے کا پیروکار ہے ،پھر کیسے اسے ٹکٹ مل گیا؟وہ مشال خان جو باچا خان کے نظریات کا پیروکار تھا ،قتل کے بعد اس کے کمرے سے باچاخان کی تصویروں کے پوسٹرز ملے تھے ۔اسی باچا خان کی پارٹی نے حمایت اللہ معیار جیسے انتہا پسند کو کیوں ٹکٹ دے دیا؟کیا انتخابی سیاست میں پارٹی کے نظریئے کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیئے ؟مشال خان کے قاتلوں کی حمایت کرنے پر اے این پی نے حمایت اللہ جیسے انسان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا تھا ،اس کے باوجود اسے ٹکٹ مل گیا؟اے این پی کی وہ شخصیات جو ہمیشہ ٹوئیٹر پر ٹوئیٹ فرماتی ہیں اور کہتی ہیں کہ عمران خان طالبان خان ہے ،اے این پی کے لیڈر افراسیاب خٹک ہمیشہ اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر عمران خان کے خلاف توئیٹ کرتے نہیں تھکتے اور کہتے ہیں یہ انتہا پسند مولوی ہے ،یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ایک کونسلر بھی مشال کے قتل میں ملوث تھا ،اب یہ لیڈر کیا جواب دیں گے ،ان کی پارٹی نے تو مشال خان کے قاتلوں کے سب سے بڑے سپورٹر کو ٹکٹ تھما دیا ہے؟یہ تو تھی اے این پی کے سیاسی نظریئے کی سچائی ،اب چلتے ہیں مسلم لیگ ن کے سابق لیجنڈ رہنما چوہدری نثار علی خان کی طرف جنہوں نے گزشتہ روز اعلان فرمادیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے طلب گار نہیں اور نہ ہی انہیں مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی ضرورت ہے ،چوہدری نثار نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مسلم لیگ ن سیاسی یتیموں میں ٹکٹیں بانٹ رہی ہے ،کہتے ہیں شریفوں سے تنتیس سال کا رشتہ تھا ،اس لئے وہ خاموش رہے ،منہ کھول دیا تو شریف برادران کسی کو منہ دیکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے ۔کہتے ہیں پی ٹی آئی میں بہت خرابیاں ہوسکتی ہیں لیکن مسلم لیگ ن میں پی ٹی آئی کی نسبت سو گنا زیادہ خرابیاں ہیں ،چوہدری صاحب سے اپیل ہے کہ وہ منہ کھول ہی دیں ،کب تک صرف دھمکیاں دیتے رہیں گے ۔اگر ن میں بہت خرابیاں ہیں تو چوہدری صاحب کی زمہ داری تھی کہ وہ پارٹی کو خیر باد کہہ دیتے ،لیکن ہمیشہ پارٹی سے چمٹے رہے؟چوہدری صاحب کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیا ہوتی ہے ۔ادھر ملی مسلم لیگ جس پر پابندی لگائی گئی تھی ،کیونکہ اس سیاسی جماعت کے جماعت الدعوی کے ساتھ روابط ہیں ،جماعت الدعوی کو عالمی دنیا ایک شدت پشند اور دہشت گرد جماعت کی فہرست میں شامل کرچکی ہے ۔اب ملی مسلم لیگ بھی کسی اور نام سے ملک بھر میں دو سو سیٹوں سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے کررہی ہے ،پاکستان میں سیاسی جگاڑ تو ہر مسئلے کا ہے ۔ہماری سیاست کی دنیا کے ایک اور شہزادے بھی ہیں جن کا نام پرویز مشرف ہے ،جی ہاں وہی مشرف بھائی جنہوں نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور سالوں تک غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے اس ملک پرحکومت کرتے رہے ،آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلا تو وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے ۔ان کے بارے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو احکامات دیئے کہ ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کیا جائے ،ساتھ مشرف صاحب کو ہدایت کی ہے کہ آپ تشریف لایئے ،مقدمات کا سامنا کیجیئے ،ائیر پورٹ سے سپریم کورٹ تک کوئی آپ کو گرفتار نہیں کرے گا ۔لاڈلا اب یہ کہہ رہا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ یہ بھی ضمانت دے کہ الیکشن تک انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی الیکشن کمپین میں اس کے لئے مشکلات کھڑی کی جائے گی ،ساتھ یہ بھی لاڈلے نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران وہ عدالت میں پیش بھی نہیں ہوں گے ۔مشرف صاحب کی ان باتوں سے تو یہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان آنا ہی نہیں چاہتے ۔مشرف نہیں آرہے لیکن چترال میں ان کے کا غذات نامزدگی داخل کرا دیئے گئے ہیں۔مشرف کی دلفریب اداوں اور شرائط سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بطور سیلیبریٹی پاکستان کا ٹور کرنا چاہتے ہیں،اسی لئے مرضی کا ماحول چاہتے ہیں ،مشرف صاحب آپ پاکستان میں مقدمات کا سامنا کرنے آرہے ہیں ،یہاں کسی قسم کا کنسرٹ شو کرنے نہیں آرہے کہ آپ کے لئے مرضی کا ماحول تخلیق کیا جائے ۔مشرف صاحب کا زہنی مسئلہ یہ کہ اب بھی وہ اپنے آپ کو چیف آف آرمی اسٹاف سمجھتے ہیں ،کاش انہیں کوئی بتادے کہ اب اس ملک میں ان کا کوئی سیاسی کردار نہیں رہا ۔ویسے سیاسی مبصرین کے مطابق وہ عدالتی جھانسے میں نہیں آنے والے ،اس لئے کبھی پاکستان نہیں آئیں گے ۔یہ تو تھی آج تک کی سیاسی صورتحال ،آگے دیکھتے ہیں کیا صورتحال پیدا ہوتی ہے ،اسی حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔