سیاسی پوسٹ غیر سیاسی واقعہ
ہائی اسکول کا میدان بہت وسیع تھا اور تب تک موبائل ٹیکنالوجی کے مقبول ہونے میں بیس سال باقی تھے۔ اس لیے سارے لڑکے گراؤنڈ میں ہی کھیلتے تھے۔ چھٹی ساتویں کلاس کے بچوں کا پسندیدہ کھیل ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا، چھونا، اور چھوئے جانے والے کو اپنے پیچھے بھاگنے پر لگا دینا ہوتا تھا۔ اسکول گراؤنڈ کے ایک کونے میں کینٹین ہوا کرتی تھی، جہاں نان کے ساتھ اسموسے اور چنے ملا کرتے تھے۔ نان، اسموسے اور چنے ایک ساتھ کھانے کی لاجک پر ڈسکس نہیں کرتے، یہ کمال کی چیز تھی۔
بریک میں میدان بھرا ہوتا تھا، اور کھیلتے کھیلتے کسی اجنبی لڑکے سے ٹکرا جانا اور پھر تو تو میں میں کا لڑائی میں بدل جانا معمولی بات ہوتی تھی۔ مکا لات کا آزادانہ استعمال تب تک "دہشتگردی" کے زمرے میں نہیں آیا تھا۔ ایسی ہی ایک بریک کا ذکر ہے، جانے کس بات پر کسی لڑکے سے میری جھڑپ ہوگئی۔ اتفاق سے میں اکیلا تھا، میرے دوست زرا فاصلے پر تھے۔ ایک دھمکی اس نے دی، ایک گیدڑ بھبکی میں نے ماری۔ ایک دھکا اس نے دیا، ایک دھکا میں نے۔ پھر کھلی جنگ شروع ہوئی، اس نے پے در پے مجھے دو تین گھونسے جڑ دیے۔ پہلوان تو میں تھا نہیں کہ غصہ نہ آتا۔ میں نے بھی جوابی مکوں کا دور شروع کیا۔ کہ اچانک کہیں سے میرے تین چار دوست غیب سے نمودار ہوئے اور بھاگ کر میرے ہاتھ بازو تھام لیے، کہ محمود یہ لڑائی چھوڑ دو۔ اسی وقت میں غنیم کو مزید موقع ملا، جیسے ہی میرے بازو میرے دوستوں کے قبضے میں آئے اس نے لگاتا تار تین پنچ میرے سر اور ماتھے پر جڑ دیے۔ لڑائی ختم ہونا تھی، ہو گئی، میرے دوست "لڑائی ختم" کروا کر فاتحانہ میرے اردگرد کھڑے تھے۔ اور شکر کر رہے تھے کہ وہ "بروقت" پہنچ گئے۔
ادھر میں خونخوار نظروں سے انکو گھور رہا تھا۔ گدھے کے کانو! (اصل عضو اور تھا) تم نے آ کر مجھے کیوں پکڑا؟ میں چلایا۔ میرے دوست حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس لیے پکڑا کہ لڑائی ختم ہو جائے۔ وہ یک زبان بولے۔ تب مجھے سمجھ میں آئی کی کتابی کیڑوں سے دوستی ، عملی زندگی میں بہت مہنگی پڑتی ہے۔ کتاب سے باہر انکو ککھ سمجھ نہیں آتی۔ میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا، اوئے احمقو! جب لڑائی چھڑانا ہی تھی، تو اسکے بازو پکڑتے تاکہ میں آخری پنچ مارنے کو آزاد ہوتا۔ مگر خیر جانے دو۔ تم یہ بتاؤ اشتیاق احمد کی نئی کتاب آئی؟
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی حالات میں پی ٹی آئی کے نظریاتی، غیر نظریاتی و "بلدیاتی" لوگوں کا حال مجھے اپنے انہی کتابی دوستوں جیسا ہی لگتا ہے۔ وہ نون لیگ کی گھٹیا مکے بازی کو روکنے کے لیے اپنے ہی دوست کا ہاتھ پاؤں باندھ دیتے ہیں اور مخالف کو چار اور لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ نون لیگ ایک پروپیگنڈہ پوسٹ عمران خان پر وائرل کرتی ہے، اور پی ٹی آئی والے جوابی وار کی بجائے صفائیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں نون لیگی میڈیا اگلی ویڈیو نکال لاتا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی میں سے اگر کوئی جوابی وار کرتا بھی ہے تو انکی اپنی صفوں میں سے دو چار اٹھ کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتے ہیں اور مخالف کو موقع دیتے ہیں کہ "لے بھئی کھل کے مار"
ایک مولوی صاحب کی بھینس کیچڑ میں پھنس گئی، مولوی صاحب پاس کھڑے ورد پڑھنے لگے، کہ بھینس کیچڑ سے نکل جائے۔ بھینس مزید دھنستی گئی۔ اتنے میں ایک کسان دیہاتی کا پاس سے گذر ہوا، اس نے یہ معاملہ دیکھا تو مولوی صاحب کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر بھینس کی کمر پر دیا گھما کر۔ بھینس نے جو زور لگایا تو کیچڑ سے باہر۔ دیہاتی کسان بولا، مولوی جی! ساریاں مجاں ورد نال نئیں من دیاں۔ (ساری بھینسیں ورد کی بات نہیں مانتیں)۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔