(Last Updated On: )
جديد دور ميں نيا حکمران کوئى سردار زادہ يا سورما نہيں ہوتا بلکہ يہ کام ايک سياسى پارٹى ہى سرانجام دے سکتى ہے۔
Gramsci.گرامچى
آگے چل کر مشہور اطالوى فلاسفر گرامچى کہتا ہے کہ کسى سياسى پارٹى کيلۓ تين بنيادى عنصراس کى نشونما کيلۓ زيادہ اہم ہوتے ہيں
#1 عوام جس کے ليۓ کوئى تخليقى ياتنظيمى صلايتوں کو کام لاکر ايک طاقتور سياسى دھانچہ تر تيب ديا جاۓ تاکہ وہ ان کى قوت کو مرکوز، مربوط اور پيوست رکھ سکے
#2 يکجا رکھنے والے راہنما اصول جو پارٹى کى جدوجہد کى بنياد استوار کرتے ہوں
#3 وہ دانشور جو پارٹى کے ناصرف طبعى و اخلاقى وجود کو برقرار رکھتا ہو بلکہ اس کى شب وروز پرورش پر کام کرتا ہو.
——————————————————-
عصر حاضر کی عملی پیچیدگیاں؛
پارٹى ممبران کا کردار اور پارٹی ممبرشپ کی تعریف مختلف ممالک میں مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ممالک میں ایک ووٹر رائے دہندگی کى رجسٹریشن کرتے وقت جماعت کی حمایت کرنے کی اطلاع دے دیتا ہے تو وہ خود بخود اس پارٹی کا ممبر سمجھا جاتا ہے جبکہ کچھ ممالک میں ممبرشپ فيس کی ادائیگی بذریعہ پارٹى مالی اعانت کے ہوتی ہے۔ بالواسطہ رکنیت کی مختلف اقسام بھى ہوتى ہيں جیسا کہ سسٹر ٹریڈ یونینوں میں ممبرشپ کو بھى پارٹی ممبرشپ سمجھا جاتا ہے۔ کثير تعداد میں ممبرشپ رکھنے والی جماعتوں کو انتخابی مہموں میں خاص طور پر تشہیر،رضاکارانہ معلومات جمع کرنا اور در در پر بحث مباحثہ کے ذریعے متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹنگ (اليکٹرانک پيغامات وٹس اپ، ٹويٹ، فيس بک، ايس آيم ايس، سوشل ميڈيا) کے ذریعے تازہ پيغام رسائی کرنی پڑتی ہے۔آج کل سوشل میڈیا ووٹر تک براہ راست رسائى کا ایک عام رجحان بن چکا ہے مگر اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ پارٹيوں کی رکنیت سازى میں واضح کمی کا رجحان ابھرا ہے۔ نئى جمہوری سیاسی جماعتیں اکثر اس طرح رکنیت پر نہیں چل رہى ہيں جیسے ماضى کى پارٹیوں ميں ہوتا تھا. الميہ یہ بھی ہے ۔سیاسی کاموں کی بڑھتی ہوئی پیشہ ورانہ صلاحیت ، عوامی فنڈز پر انحصار اور سوشل میڈیا کے تسلط کی وجہ سے ممبرشپ کی تعداد ميں کمى آ رہى ہے۔ نتیجا” سیاسی پارٹيوں کی رکنیت اور سیاسی سرگرمياں محدود ہوتی جارہی ہيں البتہ دوسرى طرف سوشل میڈیا ، بلاگنگ اور مشترکہ دلچسپی رکھنے والی آن لائن سہولتوں کے ذریعے براہ راست سیاسی مصروفیت از خود بڑھتى جا رہی ہيں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان يہ ہورہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ممبران کا ايک دوسرے سے موازنہ اور حتئی کہ صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔ موازنے کا ایک اہم ذریعہ فریقین کے اپنے مرتب کردہ حساب و کتاب سے ہوتا ہے۔جوکہ عموما” پارٹيوں ميں ڈيٹا غير تسلى بخش اور مبالغے کی حد تک مبہم ہوتا ہے اس ليے یہ اعداد و شمار ناقابل اعتبار تصور ہوتے ہیں .خاص طور پر جہاں پارٹیاں اپنی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتى ہیں یا جہاں مرکزی ریکارڈ رکھناغیر تسلى بخش یا پھر عاميانہ ہوتا ہے۔دوسرى اہم وجہ شايد يہ بھى ہےکہ سیاسی جماعتیں اکثر عوامی ریکارڈ کو سنمبھال کر رکھنے کى پابند بھى نہیں ہوتیں۔
کسی سیاسی پارٹی میں ممبروں کے کردار کا تجزیہ اس بنياد پر قابل ادراک ہوسکتا ہے کہ پارٹی تنظیموں کی مختلف اقسام کو جانچا جاۓ اور يہ بھى پرکھا جاۓ کہ وہ اپنے ممبروں کے کس کردار کو ميعار سمجھتى ہیں۔ تب پھر پارٹی تنظیموں کا ڈھانچہ اور معروف درجہ بندی ممکن ہوسکتى ہے.
1 کارکنوں والى پارٹى: کیڈر/سياسى کارکنوں کو سیاسی پارٹی کی سب سے قدیم اور روایتی شکل سمجھا جاتا ہے،جو پارٹی اداروں کی تابعداری اور ڈھیلی ڈھالى سانجھےدارکی حیثیت ميں سرگرم عمل ہوتے ہیں ،جس کی زيادہ سے زیادہ ممبرشپ کے لئے کم سے کم کردار اور باقاعدہ فکر پر تنظیمی ڈھانچہ قائم ہوتا ہے۔
2. اشرافيہ پارٹى: اشرافيہ تنظیمیں بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے اندر بننے والی سیاسی اشرافیہ اور قائدانہ دھڑوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس ميں اصل مقصد اشرافيہ اور اقتدار پر قابض قوتوں سے مل کر حالات کو جوں کا توں رکھنا ہوتا ہے.
3 مليشيا پارٹى(مسلح پارٹياں) : نام نہاد ملیشیا پارٹیوں میں پارٹی کی رکنیت وسیع ہوسکتی ہے ، لیکن پارٹی رہنماؤں کے فیصلوں اور پالیسی عمل کو متاثر کرنے میں ان کا کوئی کردار ہوتا ہے اور ناہی ممبران ان جماعتوں میں کوئی حقیقی طاقت استعمال کرسکتے ہیں، جیسے کہ سیاسی رہنماؤں کو ان کے اقدامات کا جوابدہ رکھنا یا اگر ضروری ہو تو انہیں ہٹا دینا۔ ملیشیا پارٹیوں میں اوپر سے ليکر نيچے تک کمانڈ، ڈھانچہ اور کنٹرول کے مضبوط نظم کا غلبہ ہوتاہے۔ پارٹی کے حامی فوجی انداز ميں اندراج شدہ ہوتے ہیں ، پارٹی ،فوج اور سویلین بیوروکریسی کے کنٹرول کی طرز پر اپنی طاقت کو برقرار رکھتی ہے۔ پارٹی رہنما مقامی جماعت کے حامیوں کی حوصلہ افزائی اور عام آبادی پر قابو پانے کے لئے سرپرستی، بھتہ خورى،بدعنوانی اور اکثر دھمکیوں کا استعمال کرتى ہے۔ جبکہ ان کے برعکس بڑے پیمانے پر ممبرشپ کی جماعتیں ایک بڑی ممبرشپ اور تنظیم پر بھروسہ کرتی ہیں اور اسی وجہ سے پارٹی میں ممبروں کو زیادہ سے زیادہ دخل اندازی کا موقع بھی ديتى ہیں۔ اس طرح کى پارٹی میں شامل ہونے کے لئے معاشرے ميں موجود محرکات، مشترکہ نظریات اور پارٹی اہداف پر مضبوط موقف بنایا جاتا ہے۔ تاہم آجکل “سماجی اتحاد کی جماعتوں” کا بھى ايک سلسلہ چل نکلا ہے جس ميں ثقافتی اور فلاحی سرگرمیوں میں حصہ ڈال کر پارٹی رکن سازى کو بہتر لائحہ عمل تصور کياجاتا ہے . ماضى قريب ميں کچھ بڑے پیمانے پر ٹریڈ یونینوں اور علاقائی فلاحی تنظیموں جیسی ماورائے پارلیمانی سیاسی نظم سے بھى رکن سازى کو وابستہ کیاجاتا تھا اور اس کے ذریعے گروپ ممبرشپ حاصل کرنے کا ذريعہ بنايا جاتا تھا .
4. گروپ پارٹى/انتخابى پيشہ ور پارٹى :
آجکل مالی ضرورتوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور سیاسی جماعتوں کے لئے خدمات فراہم کرنے کا انحصار ریاستوں پر بڑھتا جارہا ہے اس ليۓ پارٹی تنظیم کارى کيلۓ ایک چوتھی قسم کى پارٹیاں ظاہر رہى ہوتى ہیں۔ اس طرح کى نام نہاد پوليٹيکل پارٹى کو ملغوبہ ’کارٹیل‘ پارٹی یا پھر “انتخابی پیشہ ور پارٹی” کہا جاتا ہے۔ ذاتی مقاصد اور شخصی بنیاد پر پارٹی کی اصل بنياد سکڑتی ہوئی عوامى مقبوليت کھوتى ہے جس کے نتيجے ميں پارٹى رکنیت دن بدن ختم ہوتى جاتى ہے. اس کے ممبروں اور انتخابی حلقوں ميں رابطوں ميں کمى آتى جاتى ہیں۔ وہ اپنے سیاسی پیغامات پھیلانے کے لئے رضاکار کارکنوں یا ممبروں پر انحصار چھوڑ ديتے ہيں۔ مگر اب بڑے پیمانے پر اليکٹرانک و سوشل میڈیا “انتخابی پیشہ ور پارٹیوں” کو اپنے دائرہ اثر ميں لے رہا ہے۔ چونکہ سیاستدان پیشہ ور ہو چکے ہیں اور شہری معاشرے کی بجائے حکومتی اور پارلیمانی شعبے پر توجہ مرکوزکرتے ہیں۔ نتيجا” سکڑتى رکنیت کے نتیجے ميں جمہوری جماعتوں میں گروتھ کمزور ہورہى ہے ، خاص کر پچھلی دو دہائیوں میں قائم کئی سياسى پارٹيوں میں ممبرشپ کی سطح پر خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ پیشرفت مختلف وجوہات کی بناء پر انتہائى تشویشناک ہے۔شہریوں کی سیاسی شرکت کو محدود کرنا سیاستدانوں اور ووٹروں کے درميان فاصلوں کو بڑھا رہا ہے اور معاشرتی اقدار تیزی سے بےگانگی کا شکار ہوتی جارہی ہیں جبکہ سیاسی سرگرمیاں عوام کو پارٹیوں اور سیاسی عمل سے جوڑا کرتى ہیں .ووٹر کی تعلیم ، سماجی سرگرمیاں اور آگاہی بڑھانے والی دیگر خدمات کے بارے میں رہنماؤں کا احتساب کمزور ہوتا جارہا ہے .جس سے قانونی کاموں کے عمل درآمدگى میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے کام کاج ميں سیاسی طریقہ کارکے حوالے سے غلط فہمياں پیدا ہورہى ہیں جس سے رياستى ڈھانچے سميت حکومتوں کى سروس ڈليورى کمزور پڑتى جا رہى ہے. پارٹی ممبروں کے ذریعے کم ہوتے ہوئے کنٹرول کی وجہ سے پارٹیوں کى مرکزیت مضبوط ہورہى ہے جبکہ پارٹی قائدین زيادہ بااختیار ہورہے ہيںُ .دوسری طرف پارٹی کی رکنیت میں کمی دراصل پارٹی کی سرگرمیوں میں کمی کے رجحان کا سبب بن رہی ہیں۔ ايسے ميں لگتا ہے پارٹيوں کے پرانے فعال ارکان اپنی نظریاتی وابستگی کی وجہ سے بجھے بجھے دل کے ساتھ پارٹیوں میں موجود رہتے ہيں۔ پارٹيوں کے اندر رکنیت میں کمی کے اثرات ابھی بھی قيادتوں کے اندر کوئى واضح توجہ حاصل نہيں کر پا رہے ہیں۔ کم ہوتے ہوئے کارکنوں اور طاقت کے بڑھتے ہوئے مرکزیت کے مابین عام آدمى کا رشتہ دن بہ دن کم ہو رہا ہے۔یہ ایک المیہ ہے۔سیاسی پارٹیوں اور ریاستوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔عوام کی شرکت کے بغیراطلاعات کے اس دور میں شکوک اور وسوسے جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی پوسٹ یا پھر ٹیمپرڈ وڈیو کلپ سے مشتعل ہجوم معمولی مدعوں پر روڈوں پر آجاتے ہیں۔مثبت اور تعمیری سرگرمیاں مشکوک بن جاتی ہیں۔ریاست کے ادارے اس طرح کے بے مقصد حالات کو کنٹرول کرنے پر وقت اور وسائل خرچ کردیتے ہیں۔