الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن کرائے جانے کا عندیہ دیا جانے کے بعد آنے والے دنوں میں سیاسی منظرنامے پر تیزی آنے کا امکان ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کی تیاری کے لئے اپنی صفیں درست کرتی آئیں گی، نئے سیاسی اتحاد بنتے نظر آئیں گے، سیاسی پرندے بھی ایک شاخ سے اُڑ کر دوسری شاخ پر بیٹھتے نظر آئیں گے۔ اگلے چند مہینوں میں موسم تو سرد ہوتا جائے گا لیکن سیاسی موسم بتدریج گرم ہوتا جائے گا۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک چیز تو واضح ہو چکی ہے کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کے لئے شائد کوئی بہت اچھی خبریں نہ ہوں، عمران خان کا نااہل ہونا اور جیل میں قید ہونا تحریک انصاف کے لئے ایک بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔ تحریک انصاف کی صف دوم کی قیادت بھی یا تو جیلوں میں بند ہے یا روپوش ہے، اس کے علاوہ تحریک انصاف کے بہت سارے لوگ یا تو تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں یا سیاست سے ہی توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ بظاہر جو کام عمران خان اور تحریک انصاف کے مخالفین نہ کر سکے وہ عمران خان اور تحریک انصاف نے نو مئی کو ملٹری تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرکے خود ہی کر دیا۔ نو مئی کے واقعات نے تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا خمیازہ تحریک انصاف کو بہرحال بھگتنا پڑے گا۔ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف بطور ایک سیاسی جماعت تو موجود ہو گی، کچھ سیٹیں بھی ضرور حاصل کر سکیں گے لیکن تحریک انصاف کوئی بڑا رول ادا کرنے کے قابل شائد نہ ہو سکے۔ تحریک انصاف کی مستقبل کی سیاست پر ابھی تک ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
آئندہ انتخابات کے لئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی دو بڑے کھلاڑی ہوں گے اس لئے دونوں جماعتوں کے درمیان شروع ہو جانے والی سیاسی تکرار آنے والے دنوں میں مزید تیز ہو گی۔ دانشمندانہ طرز عمل بہرحال یہی ہو گا کہ اس سیاسی تکرار اور بیان بازی کو صرف سیاسی مکالمے اور دلائل تک ہی محدود رکھا جائے اور سوشل میڈیا پر دونوں اطراف سے ناشائستہ زبان سے احتراز برتا جائے۔ انتخابات کے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت کا گرم ہونا ایک نارمل سی بات ہے لیکن اسی اور نوے کی دہائی والی سیاسی مخاصمت اور محاذ آرائی کی طرف واپس جانا کوئی بہتر طرزعمل نہیں ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کی انتخابی پوزیشن کا اگر جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی کو صوبہ سندھ میں بلا شرکت غیرے برتری حاصل ہے۔ سندھ کے بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں جہاں سے دوسری جماعتیں کچھ سیٹیں حاصل کر سکتی ہیں وہاں بھی اس وقت پیپلزپارٹی کے منتخب مئیر موجود ہیں، ان دونوں شہروں میں بھی پیپلزپارٹی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے مقابلے میں نہایت اچھی پوزیشن میں نظر آ رہی ہے۔ سندھ میں ہمیشہ کی طرح مخالف سیاسی جماعتیں ایک بار پھر انتخابی اتحاد کی جانب بڑھتی نظر آتی ہیں لیکن یہ اتحاد پیپلزپارٹی کے لئے کوئی بڑا چیلنج پیدا کرنے کی صلاحیت سے عاری نظر آتا ہے۔ صوبہ بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی اچھی کارکردگی اور آئندہ انتخابات کے لئے طاقتور امیدواروں کی موجودگی کے باعث پیپلزپارٹی کو بلوچستان سے بھی اچھے نتائج کو توقع ہے۔ پیپلزپارٹی کو اصل چیلنج پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں درپیش ہو گا۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی اگر محنت کرے اور اچھے امیدوار میدان میں اتار سکے تو جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی بہت اچھی کارکردگی کی توقع کر سکتی ہے۔ سینٹرل پنجاب میں پیپلزپارٹی کو الیکشن لڑنے اور جیتنے والے اچھے امیدواروں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سینٹرل پنجاب میں ن لیگ اور تحریک انصاف پیپلزپارٹی سے آگے نظر آ رہی ہیں لیکن اگر پیپلزپارٹی سینٹرل پنجاب میں اچھے امیدوار لے آئی تو چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی الیکشن کمپئین کے باعث پیپلزپارٹی سینٹرل پنجاب سے بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔
ن لیگ کا پنجاب میں تیزی سے گرتا ہوا گراف ن لیگ کے لئے اگلے الیکشن میں ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ اس وقت ن لیگ کی عوام میں جو حالت ہو چکی ہے اس کے باعث ن لیگ کو پنجاب سے کامیابی دلوانے کے لئے انیس سو نوے اور انیس سو ستانوے کے انتخابات جیسی انتخابی انجنئیرنگ درکار ہو گی جو آج کل کے تیزترین سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں شائد ممکن نہ ہو۔ پری پول رگنگ تو خیر ن لیگ کے حق میں شروع بھی ہو چکی ہے لیکن الیکشن والے دن اور الیکشن نتائج کے حوالے سے ن لیگ کو شائد اس لیول کی سپورٹ نہ مل سکے جو ماضی میں ہونے والے انتخابات میں ن لیگ کو میسر رہی ہے۔ بالفرض اگر ن لیگ کو کسی طرح آر ٹی ایس بٹھانے جیسی کوئی حرکت کرکے جتوا بھی دیا گیا تو پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگر نئی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں ن لیگ کی حکومت کو سلیکٹڈ کہہ دیا تو ن لیگ کے لئے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔
ن لیگ اس وقت پنجاب میں دفاعی پوزیشن میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے ن لیگ کی پوزیشن بہتر ہوسکتی ہے لیکن نوازشریف چونکہ سزایافتہ ہیں اور ان کی سزائیں ابھی تک برقرار ہیں اس لئے وطن واپسی پر سب سے پہلے تو نوازشریف کو عدالت کے سامنے خود کو سرنڈر کرنا پڑے گا اور جیل جانا ہو گا اس کے بعد ہی ضمانت وغیرہ کا مرحلہ شروع ہو گا۔ اگر اکیس اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی ہو جاتی ہے تو عدالتی مراحل کے ذریعے نواز شریف کی اہلیت بحال ہونے تک الیکشن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہو گا اور ممکن ہے نواز شریف اس وقت تک الیکشن لڑنے کے قابل نہ ہو سکیں جس کا ن لیگ کی انتخابی مہم پر نہایت منفی اثر پڑے گا۔
میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر ن لیگ ایک بار پھر گڈ کوپ اور بیڈ کوپ کھیلتی نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف میاں نواز شریف اپنی حکومت گرائے جانے کے تمام ذمہ داران بشمول جنرل باجوہ، جنرل فیض، آصف سعید کھوسہ، ثاقب نثار وغیرہ سے لے کراعجازالحسن تک سب کو سزا دینے کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈا لے کر چلیں گے تاکہ ن لیگ کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر دے کرعوام کی ہمدردیاں حاصل جا سکیں جبکہ اندرون خانہ شہباز شریف مقتدرہ کو یہ یقین دہانی کروائے رکھیں گے کہ نواز شریف کا یہ والا بیانیہ صرف کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کا ہتھیار ہے۔ زمینی حقائق لیکن ن لیگ کے لئے کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آ رہے کیونکہ نظر آ رہا ہے کہ مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جیسے جھوٹے بیانیے شائد اب زیادہ متاثر نہ کر سکیں اس لئے اگلے الیکشن میں مہنگائی کا ایشو ایک فیصلہ کُن عنصر ثابت ہو گا۔ ن لیگ کے گڑھ لاہور میں بھی مہنگائی کی وجہ سے ن لیگ کے خلاف عام عوام جن جذبات کا اظہار کررہے ہیں وہ ن لیگ کے لئے کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے۔
جہانگیر ترین اور علیم خان کی استحکام پاکستان پارٹی جسے نئی کنگز پارٹی سمجھا جا رہا تھا ابھی تک کوئی بہت بڑا سیاسی دھماکہ نہیں کرسکی۔ آگے چل کر شائد اس جماعت میں مزید ہوا بھری جائے لیکن فی الحال استحکام پاکستان پارٹی صرف جھنڈوں کی حد تک ہی محدود ہے۔ اس جماعت کا سارا زور الیکٹیبلز کے ذاتی ووٹ بینک اور مقتدرہ کی حمایت تک محدود ہے۔ عوامی طور پر اس جماعت کا گراونڈ پر کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسری طرف خیبرپختونخواہ میں پرویز خٹک کی جماعت پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل کو لے کر بھی کافی دیر سے ایک نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس پارٹی کا وجود ابھی صرف خبروں کی حد تک ہی نظر آتا ہے۔ انتخابات سے پہلے وجود میں آنے والی یہ تمام نئی سیاسی جماعتیں آئیندہ انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلیوں میں جو بھی بڑی سیاسی جماعت سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی یہ جماعتیں اس کے ساتھ بطور اتحادی شامل ہو جائیں گی۔
چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت نگران حکومت اور ن لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی کے لیول پلئینگ فیلڈ سے متعلق تحفظات دور نہ کئے گئے تو اس سے انتخابات کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ ابھی الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوا لیکن سندھ میں منتخب بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈز روک دئیے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب میں نوٹیفکیشن کے ذریعے ویلج کونسلز قائم کرکے ان ویلج کونسلز میں ن لیگیوں کی بھرتی کی جارہی ہے۔ ویلج کونسلز اور ن لیگ کے سابق اراکین اسمبلی کے ذریعے ترقیاتی فنڈز بھی خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ پنجاب کی انتظامیہ بھی ن لیگ کے زیر اثر کام کر رہی ہے اور تمام تقرر و تبادلے ن لیگ کی منشا و مشاورت سے کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام مبنی بر حقیت نظر آتا ہے کیونکہ گراس روٹ لیول پر ویلج کونسلز کے ذریعے ن لیگ کو نوازنا اور انتظامیہ کو ن لیگ کے ماتحت کر دینا نگران حکومت کی بہت بڑی جانبداری کو ظاہر کرتی ہے۔
نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو چاہئیے کہ لیول پلئینگ فیلڈ سے متعلق سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو جلد از جلد دور کیا جائے تاکہ آئیندہ انتخابات صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ طور پر ہوتے نظر آئیں اور سب جماعتیں یکساں طور پر ان انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور کمزور معاشی پوزیشن ایک اور متنازعہ انتخاب اور سلیکٹڈ حکومت بنائے جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک منتخب اور عوام کی نمائیندہ حکومت ہی ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرکے اسے ترقی کی راہ پرگامزن کر سکتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...