کہتے ہیں سیاسی غلطیاں تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ اس کی سزا اس دنیا میں ہی بھگتنی پڑ جاتی ہے۔ سیاسی غلطی اگر بار بار کی جائے تو پھر اسے سیاسی خود کشی کہتے ہے۔اور خود کشی کا انجام ہم سب جانتے ہیں۔ہمارا ملک اس وقت جس دور سے گزر رہا ہے، جس طرح کی پالیسیز یہاں بنائی جا رہی ہیں انہیں سیاسی خودکشی کے علاوہ دوسرا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
سویت یونین، امریکہ،گریس اور ایران جیسے بہت سے ممالک میں حکمرانوں کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے عوام کو ایک لمبے عرصے تک جھوجھنا پڑا۔ سیاسی الٹ پھیر اور آپسی خلفشار کے موقعوں پر سب سے زیادہ نقصان عام عوام کا ہی ہوتا ہے۔ وہ اس چکی میں نا چاہتے ہوئے بھی پستے رہتے ہیں۔کیا ہمارا ملک بھی سیاسی خلفشار کے اسی راستہ پر جا رہاہے؟
وہ ممالک جہاں اس قسم کی ہنگامی حالت پیدا ہوئی،ان کا میں یہاں مختصر سا تجزیہ پیش کرونگا۔ پیش نظر یہ ہوگا کہ وہ خلفشار پیدا کیسے ہوا؟ وہ کیا عوامل تھے خصوصا داخلی عوامل جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ہم اپنے ملک کا اور یہاں کی سیاست کابھی ساتھ ہی ساتھ جائزہ لیں گے۔
سویت یونین کا زوال:
۵۲دسمبر ۱۹۹۱ کو’کریملن‘ میں ’سویت یونین‘ کا جھنڈا اتار کر ’روس‘ کا ترنگا لہرادیا گیا۔۶۲ دسمبر کو’سویت یونین‘ کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے سالہاسال کی کشمکش تھی۔ اس کی مختلف وجوہات تھیں۔ کچھ فوج سے متعلق، کچھ عالمی سیاست سے متعلق، بگڑتی ہوئی معاشی حالت خود ایک بڑی وجہ تھی۔ لیکن یہ دو وجوہات جو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا نے ذکر کی ہیں جن سے خود وہاں کی عوام کے دل سے سویت یونین کے لئے محبت ختم ہو گئی تھی۔
۶۲ اپریل ۶۸۹۱ کو ’کیرنوبل پاور اسٹیشن‘ جو کہ اب یوکرین میں ہے اس میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اور پھر آگ لگنے کی وجہ سے ’ہیروشیما‘ میں جو ایٹم بم گرایا گیا تھا اس سے چار سو گنا زیادہ’ریڈیو ایکٹیو مواد‘فضا میں مل گیا۔ فورا ہی کمیونسٹ پارٹی کے آفیشیلس نے اس خبر کو دبانے کی کوشش شروع کر دی۔ حد تو یہ ہے کہ اسی علاقہ میں ’مئی ڈے‘ کی پریڈ کرنے کا بھی آرڈر دے دیا گیا۔ خبریں دھیرے دھیرے پھیلنا شروع ہوئیں اور لوگوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ ان کو یہ یقین ہو گیا کہ کمیونسٹ آفیشیلس کے لیے سیاست ہی سب کچھ ہے۔ شہریوں کی جان اور کی صحت کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ سویت یونین کو لے کر لوگوں میں جورہا سہا بھروسہ تھا وہ بھی ڈھہ گیا۔
اب ایک نظر اپنے ملک کی طرف ڈالتے ہیں۔ آج کی تازہ اپڈیٹ کے مطابق ہندوستان میں کرونا کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ مریض پائے جا چکے ہیں۔ لاک ڈاون کے دوران غریبوں اور مزدوروں کو راشن پہنچانے کا کوئی با قاعدہ نظم نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر جانے پر مجبور ہیں،لیکن ان کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی دردناک تصویر دیکھنے کو مل ہی جاتی ہے اور دل لرز کے رہ جاتا ہے۔ملک بھر میں شراب کی دکانیں کھول دی گئی ہیں۔کرونا کو بھی آپسی منافرت پھیلانے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بجائے اس کے کہ کورونا کے خلاف جنگ کرنے میں پیسے اور محنت لگائی جائے آج ملک کے وزیر داخلہ نہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے سے بہار الیکشن میں اپنی پارٹی کے لیے آن لائن ریلی کرنے جا رہے ہیں۔ یقینا وزیر داخلہ کا ایسے موقعہ پر ملک کے بجائے اپنی پارٹی کی فکر کرنا عوام میں شدید بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔ ان کو افسوس ہے کہ سرکار ایسے مشکل وقت میں بھی ان کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔حکومت کے پاس مریضوں کے ٹسٹ تک کروانے کی سہولیات نہیں ہیں لیکن الیکشن کیمپین کرانے اور ورچول ریلی کرانے کے لیے ان کے پاس سرمایہ بھی ہے،افراد بھی ہیں۔ لوگوں کا سرکارسے بدظن ہوجانا واجب تو ہے لیکن تشویشناک بھی ہے۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق”سویت یونین والے صبح اٹھتے ہی لبرل اخبار خریدنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں لگ جاتے تھے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اپنے اخباروں سے ان کا بھروسہ اٹھ گیا تھا۔ عوام اپنے یہاں کے کرپشن سے بالکل بیزار ہو گئی تھی۔“وہ چھپ چھپا کے بکنے والے لبرل اخباروں پر زیادہ یقین رکھتے تھے اور وہی اخبار ان کی عمومی رائے بھی بناتے تھے۔اس بدظنی نے بھی سویت یونین کے بکھرنے میں بڑا کردار ادا کیا، جو اخبارات سویت یونین کو توڑنا چاہتے تھے وہی عوام کی سوچ پر اثر انداز بھی تھے۔
ہمارے ملک عزیز کی بھی دن بدن یہی حالت ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے اخباروں اور نیوز چینلس سے بالکل بد ظن ہو چکے ہیں۔ وہ اب باہر کے اخبار اور نیوز چینلس فالو کرنے پر مجبور ہیں۔ نتیجۃ باہر والے ہی ہماری عوامی رائے پر زیادہ اثر انداز ہیں۔وہ جو دکھانا چاہتے ہیں ہم وہی دیکھتے ہیں۔وہ جو بتاتے ہیں ہم اسی پر یقین کرتے ہیں۔لیکن سیاسی طور پر یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔
گریس کا معاشی بحران:
گریس ایک یوروپین ملک ہے جو ۸۰۰۲ سے ۰۱۰۲ کے درمیان زبردست معاشی بحران کا شکار ہوا۔ دراصل اکتوبر ۹۰۰۲ میں جب وہاں سرکار بدلی تو نئے آنے والے وزیر اعظم نے بتایا کہ کس طرح پچھلی سرکار ملک کے معاشی ڈاٹا کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی۔ اس معاشی بحران کا ایک بڑا سبب ڈاٹا کو چھپانا اور اس میں ہیر پھیر کرنا تھا۔ گریس کی عوام حکومت کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار ہو گئی۔ ۰۱۰۲سے ۳۱۰۲ کے درمیان بے روزگاری کی شرح ۲۱ فیصد سے بڑھ کر ۸۲ فیصد ہو گئی۔ آج بھی وہاں کے ۰۴ فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ ۰۱۰۲ میں گریس کی اکانومی۰۰۳ بلین ڈالر تھی لیکن ۷۱۰۲ میں گر کر ۰۰۲ بلین ڈالر کی اکانومی ہی رہ گئی۔
اب آتے ہیں مودی حکومت کی طرف، National Statistical Office (NSO)ایک ادارہ ہے جو پورے ملک میں مختلف سروے کرواتا ہے اور رپورٹس پیش کرتا ہے جس کی بنیاد پر آگے کے لیے پلاننگ بھی ہوتی ہے اور لوگوں کو بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی حکومت ان کے لیے کیاکر رہی ہے۔ لیکن NSO نے اپنی پنج سالہ رپورٹ ۷۱-۸۱۰۲ میں پیش کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں کسی طرح ڈاٹا لیک ہوا تو پتا چلا کہ نوٹ بندی اور GST کے منفی اثرات چھپانے کے لیے ڈاٹا ریلیز نہیں کیا گیا تھا۔۰۵۹۱ میں NSSOبننے کے بعد سے یہ پہلا موقعہ تھا جب سرے سے سروے ڈاٹا ہی پیش کرنے سے انکار کر دیا گیاتھا۔ڈاٹا کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا صاف مطلب سیاسی خودکشی ہے۔ ڈاٹا ریلیز نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس میقات میں consumer expanditure پچھلے چالیس سالوں کے مقابلے میں سب سے کم تھا۔
پچھلے چند سالوں میں مودی حکومت نے نہ جانے کتنے ڈاٹا ہیں جو یا تو سرے سے پیش ہی نہیں کیے یا ان میں ہیر پھیر کی ہے۔ کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار ۵۱۰۲ کے بعد سے ریلیز ہی نہیں کیے جا رہے تھے۔ بالاخر نومبر ۹۱۰۲ میں ۶۱۰۲ کا ڈاٹا پیش کیا گیا، جس کے مطابق صرف ایک سال میں ۹۷۳،۱۱ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ مطلب۶۱۰۲ میں روزانہ ۱۳ کسان خودکشی کر تے رہے۔ ۹۱۰۲ میں ہی بے روزگاری کے اعداد و شمار بھی آئے جو پچھلے ۵۴ سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھے۔
انقلاب ایران:
۹۷۹۱ میں ایران میں جو انقلاب آیا اس سے ہم کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ۱۲۹۱ میں یونائٹیڈ کنگڈم نے رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت قائم کرنے میں مدد کی لیکن اسی نے روس کے ساتھ مل کر ۱۴۹۱ میں رضا شاہ کو تخت سے اتار کراس کے بیٹے محمد رضا پہلوی کو تخت پر بیٹھا دیا۔ اس کے بعد ۳۵۹۱ میں جب محمد رضا شاہ اور وزیر اعظم محمد مصدق کے درمیان اختیارات کی جنگ شروع ہوئی تو امریکہ اور یونائٹیڈ کنگڈم کی خفیہ ایجینسیز نے محمد رضا کی مدد کی اور اس کو اقتدار میں باقی رکھا۔لیکن جب ۹۷۹۱ میں عوامی انقلاب آیا تو اس کے کسی مسیحا نے اس کی مدد نہیں کی۔ سارے ہوا کا رخ دیکھ پلٹ گئے۔ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی حکومت کے ڈھائی ہزارسال پورے ہونے کے جشن منائے تھے لیکن جب عوام نے بھگایا تو باقی کی زندگی جلاوطنی میں مصر میں کاٹنی پڑی اور وہیں دفن ہو گیا۔
رضا شاہ اور محمد رضا ان تمام لوگوں کے لیے عبرت ہیں جواپنے آپ کو کسی نہ کسی سپر پاور سے جوڑ کر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔جو ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا تخت بچا لے جائیں گے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بپھری ہوئی عوام کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹک سکتی۔ عوام کو اگر احساس ہو جائے کہ اس کا حکمران کسی اور کے مفاد کی تکمیل میں لگ گیا ہے اور عوام ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تو چاہے ڈھائی ہزار سالہ حکومت ہی کیوں نہ ہو، پیٹرول کی دولت سے مالا مال طاقت ہی کیوں نہ ہو اس کی بساط لپٹ جاتی ہے۔
محمد رضا شاہ کی ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے وہائٹ ریولیوشن کے ذریعے ملک کی معاشی حالت کو تو کسی قدر استوار کر دیا تھا لیکن اس کا فائدہ صرف چند لوگوں تک محدود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امیرتو اور امیر ہوتے گئے لیکن غریب جوں کے توں ہی رہ گئے۔بعد میں جب ملک کی عوام کو احساس ہوا کہ ملک کی دولت صرف کچھ ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے اور وہ دن بدن بد حال ہوتے جا رہے ہیں تو انہوں نے آ پسی اتحاد کی طاقت سے شاہ کی حکومت کو ہی جڑ سے اکھاڑکر پھینک دیا۔شاہ کو بھاگنا پڑا۔ اس کے ساتھ مل کر ملک کی دولت لوٹنے والے یا تو مارے گئے یا بھاگ گئے جو باقی بچ بھی گئے انہوں نے اپنی بچی ماندہ زندگی جیلوں میں ہی بسر کی۔
اب ایک نظر ڈالیے اپنے ملک کی معاشی تنظیم پر۔ کیا ایسا نہیں ہے کی سرکار کی تمام اسکیموں اور یوجناوں کا فائدہ اوپر ہی اوپر کچھ لوگوں کو مل جاتا ہے اور باقی عوام بیچاری اپنی پوری زندگی ٹیکس ہی بھرتی رہ جاتی ہے۔ جہاں کچھ لوگ لاکھوں کروڑ میں کھیل رہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ ان کو گنگا ندی میں بہا دینے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف لاکھوں کروڑ کا فراڈ کرکے بھاگ جانے والے لوگ ہیں، دوسری طرف ایک باپ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے گلا دبا کر ماردینے پر مجبور ہے کہ بچہ بھوک سے بلبلا رہا تھا اور گھر میں کھانے کو ایک دانہ نہیں تھا۔ لوگ آخر اس تفریق کو کب تک برداشت کریں گے۔ ایک نہ ایک دن تو ان کے دل میں یہ سوال جنم لیگا کہ اس تفریق کو کیسے دور کیا جائے اور وہ جواب کی تلاش میں اٹھ کھڑے ہونگے۔
محمد رضا کی ایک فاش غلطی بلکہ جرم یہ تھا کہ اس نے ساری اپوزیشن پارٹیز کو ختم کرکے تاناشاہی اختیار کر لی تھی۔ جب بھی سیاسی مظاہرات ہوتے وہ ان کو طاقت کے دم پر دبا دیتا۔ غیر قانونی گرفتاریاں ایک عمومی بات ہو گئی تھی۔لیکن ایک بار عوام کے سڑک پر اترنے کے بعد وہ طاقت کا جتنا زیادہ استعمال کرتا گیا لوگ اتنا ہی بھڑکتے گئے۔ وہ ایک کو مرواتا تو سینکڑوں اور سڑک پر نکل کھڑے ہوتے۔ایک شخص کی گرفتاری دس نئے لوگوں کو میدان میں اترنے کا حوصلہ دیتی۔ فوج کی بندوق سے نکلی ہوئی ہر گولی نے پروٹسٹ کی آگ کو اور بڑھاوا دیا۔ یہاں تک کہ ۸ ستمبر کو اس نے مارشل لاء نافذ کر دیا لیکن یہ مارشل لاء بھی عوام کی ہمت توڑ نہیں سکا۔ فوج نے بارود کے دہانے کھول دیے لیکن لوگ تھے کہ مرجانے کو تیار بیٹھے تھے۔ رضا شاہ طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے بھی پیچھے کی طرف سمٹنے پر مجبور تھا۔ عوام نہتی تھی لیکن حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ ۰۱ دسمبر کولاکھوں لوگ تہران کی سڑک پر نکل پڑے۔ آخر کار جس ’آیت اللہ خمینی‘ کو محمد رضا نے ۴۶۹۱ میں ملک بدر کیا تھا وہ ایران واپس آیا اور پورا ملک اس کا استقبال کرنے سڑکوں پر نکل آیا۔ ’محمد رضا‘ جس نے ابھی حکومت کے ڈھائی ہزار سال گزرنے کے جشن کروائے تھے وہ اس خاموشی سے ملک سے بھاگا کہ کوئی اس کو پوچھنے والا نہ تھا۔ باقی عمر مصر میں ایک جلا وطن کی طرح گزار کر وہیں مر گیا۔تاریخ گواہ ہے کسی ڈکٹیٹر کو کبھی عزت کی موت نہیں نصیب ہوئی۔
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔یہ تو ہمیشہ اور ہر جگہ ہوتا آیا ہے۔ ہماری آنکھوں نے خود ایسے مناظر دیکھے ہیں۔ جامعہ ملیہ میں ۵۱ دسمبر کی رات پولس اپنے خون آشام پنجوں کے ساتھ گھس گئی، جو سامنے آیا اس کو مارا، جس پر نظر پڑی اس پر ڈنڈے برسائے، کسی کے ہاتھ توڑے، کسی کے پیر توڑے لیکن اگلے ہی دن اس سے دوگنی تعداد میں جامعہ کے اسٹوڈنٹس سڑکوں پر کھڑے ملے۔ عوام کو کبھی طاقت کے دم پر نہیں دبایا جا سکتا، اسٹوڈنٹس کو تو ہرگز نہیں۔ایرانی انقلاب بھی دو یونیورسٹیز کی دین تھا، قم یونیورسٹی اور تہران یونیورسٹی۔سی اے اے مخالف تحریک بھی دو یونیورسٹیز سے ہی اٹھی ہے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ وجہ یہ ہے کہ اسٹوڈنٹس کو نہ تو ڈرا دھمکا کر ہی خاموش کرایا جا سکتا ہے، نہ ہی کوئی لالچ دیکر ان کا منھ بند کیا جا سکتا ہے۔ یوپی میں یوگی پولس نے پروٹسٹ رکوانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور کچھ لوگوں کو شہید بھی کردیا لیکن کیا لوگ ڈر گئے؟ کیا وہ پولس کے ڈر سے گھروں میں دبک گئے؟ کیا پروٹسٹ ختم ہوگئے؟ ہرگز نہیں، بلکہ دوہرے حوصلے اور ہمت کے ساتھ شروع ہو گئے۔ جو لوگ پہلے شامل نہیں ہوتے تھے وہ بھی اب شامل ہونے لگے۔
انقلاب کے شور کو طاقت کے بل پر خاموش کرانے کے لیے حکومت نے لاک ڈاون کا سہارا لیکر اسٹوڈنٹس کو گرفتار کرنا شروع کردیاہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں اس طرح یہ آوازیں دب جائینگی۔یہ ان کی کوتاہ فہمی ہے۔انقلاب کی آواز کو طاقت کے بل بوتے پر دبانے کی کوشش کرنا سیاسی خود کشی ہے اور کچھ نہیں۔ ہمیں اس کو بہرصورت روکنا ہوگا۔
امریکہ کی سول رائٹ مومنٹ:
امریکہ میں ۱۶۸۱ سے لے کر ۵۶۸۱ تک سول وار چلی۔ نارتھ امریکہ غلامی کو ختم کرنا چاہتا تھا جبکہ ساوتھ امریکہ اس کو باقی رکھنا چاہتا تھا۔ جنگ کے دوران لاکھوں لوگ مر گئے، اس سے کئی گنا زیادہ لوگ زخمی اور معذور ہو گئے۔ بالآخر یونائیٹیڈ اسٹیٹ کی جیت ہوئی، کونفیڈریٹ اسٹیٹ کو ختم کر دیا گیا۔ امریکہ ایک مرتبہ پھر یکجا ہو گیا۔ غلامی کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا جس کے لئے دستور میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔
لیکن صرف دستورمیں کی گئی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، خصوصاایسی جگہ جہاں الگ الگ اسٹیٹس سے ملکر ایک ملک بنا ہو۔ جب تک سخت ترین قانون کا سہارا نہ ہو اور خود لوگوں میں بدلاو نہ آجائے اس وقت تک صحیح معنوں میں غلامی کو ختم کر پانا ممکن نہیں ہے۔ خود سیاہ فام اس آزادی کے لئے ذہنی طور سے تیار نہیں تھے۔ ان کی نسلیں غلام تھیں، یکبارگی وہ اس ماضی کو کیسے بھلا سکتے تھے۔ ان کی اس نفسیاتی مجبوری اور قانون کی کمزوری کا سفید فام لوگوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ وہ ابھی بھی سیاہ فام لوگوں کو اپنے برابر ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ساوتھ امریکہ والوں نے سیاہ فام لوگوں کو سماجی اور معاشی طور سے دبانے کے لیے اسٹیٹ سے ایک قانون ’جم کراو‘بھی پاس کروا لیا جس کے مطابق segregation (نسلی علاحدگی) کی اجازت دے دی گئی۔ سیاہ فام لوگوں کے اسکول الگ ہوتے،رہنے کے علاقے الگ ہوتے، بس سے سفر کے دوران ان کی بس کے آخری حصے میں کچھ سیٹس مخصوص تھیں وہ صرف ان پر ہی بیٹھ سکتے تھے۔ سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کے ہوٹلوں اور پانی کے نلوں کے پاس بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے کام کرنے کی جگہیں تک الگ الگ تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کی طرف سے سیاہ فام لوگوں کو جو سہولتیں میسر تھیں وہ اس سے بہت کمتر درجہ کی تھیں جو سفید فام لوگوں کو میسر تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں سیاہ فام لوگوں کی لنچنگ کا بھی ایک سلسلہ چل پڑا تھا۔
ایک زمانے تک کم و بیش کچھ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی کے درمیان میں بڑے پیمانے پر سول رائٹ مومنٹ شروع ہوئی۔ بڑے بڑے مظاہرات ہوئے، مختلف تنظیمیں بنیں، عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھایا گیا، کتنے ہی لوگوں کی جانیں گئیں، بے شمار کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بالآخر ایک ایک کرکے مختلف اصلاحات ہوئیں جن کے نتیجے میں سیاہ فام لوگوں کو کچھ راحت نصیب ہوئی۔ بس میں سیٹوں کی تفریق ختم کی گئی اور اسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ آپس میں کی جانے والی شادیوں پر پابندی کو ختم کیا گیا۔۷۵۹۱، ۰۶۹۱،۴۶۹۱ میں بالترتیب الگ الگ سول رائٹ ایکٹ پاس ہوئے جس نے اس تفریق کو مٹانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ حقوق انسانی کے تحفظ کی مختلف تنظیمیں بنائی گئیں۔ساوتھ کے سفید فام لوگوں نے مختلف اصول و ضوابط بنا کر سیاہ فام لوگوں سے ووٹ دینے کی طاقت چھین لی تھی، ایک جمہوری حکومت میں یہی سب سے بنیادی حق ہے جو ہر شہری کو حاصل ہونا چاہیے۔ ۵۶۹۱ میں ’ووٹنگ رائٹ ایکٹ‘ بنا کر سیاہ فام لوگوں کو ووٹنگ کا حق دیا گیا۔ اس کے بعد سے ان کی سیاسی و سماجی حالت میں قدرے سدھار آیا۔
جب تک ملک میں سیاہ فام لوگوں کو انصاف نہیں مل گیا سفید فام لوگوں کی زندگی بھی متاثر ہی رہی۔کب کون انتقامی کاروائی کر بیٹھے نہیں معلوم، بارہاایسا ہوا بھی کہ انتقام نے سفید فام لوگوں کی بھی جانیں لے لیں۔آج جب کہ ایک سیاہ فام کے قتل پر امریکہ ایک مرتبہ پھر دہل اٹھاہے، توکیا صرف ایک طبقہ یا کوئی خاص گروہ پریشانی میں ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کی زندگی اتھل پتھل ہو گئی ہے۔ ملک بد امنی کا شکار ہوتا ہے تو ہر کسی کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو تو نہ انسانی جان کی کوئی قیمت رہ جاتی ہے نہ عزت و آبرو ہی سلامت رہتی ہے۔اس حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
میں نے اتنی تفصیل سے سیاہ فام لوگوں پر ہونے والے مظالم اور پھر ان اصلاحات کے بارے میں گفتگو کی۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ سماج کے دوطبقوں میں اگر پھوٹ پڑ جائے اس معنی میں کہ ایک طبقہ دوسرے کو اپنے سے کمتر اور دوسرے درجہ کا شہری سمجھنے لگے اور اس کے حقوق مارنے لگے تو اس افراتفری کو سدھارنے میں بہت طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔ سول وار ختم ہونے کے بعد بھی سیاہ فام لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل کرنے میں سو سال لگ گئے۔جبکہ اس کے ساٹھ سال بعد بھی یہ کیفیت ہے کہ ایک سیاہ فام کو دن دہاڑے بیچ سڑک پر گلا دبا کر مار دیا جاتا ہے۔
اب دیکھیے کہ ہمارے وطن عزیز کو اسلام دشمن طاقتیں کس بڑی تباہی کی طرف لے کر جانا چاہتی ہیں۔بی جے پی اور آر ایس ایس ایک زمانے سے ہمارے معاشرے میں نفرتوں کا زہر گھولنے میں لگے ہوئے ہیں۔و ہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو دو طبقوں میں بانٹ دیا جائے۔اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقہ کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔حکومت کے ساتھ مل کر اکثریتی طبقہ اقلیتوں پر ظلم کرنے لگے اور ان کے حقوق غصب کرلے۔
مسلم دشمنی کے نام پر پورے ملک کو ایک بڑے سماجی بحران کی طرف گھسیٹ کر لے جانا کہاں کی سمجھداری ہے۔ جس وقت دنیا کی تمام حکومتیں اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کر رہی ہیں ایسے میں خود اپنے ملک میں سیاسی وسماجی خلفشار پیدا کرنا کہاں کی وطن دوستی ہے۔ یہ تو سراسر سیاسی خودکشی ہے۔ وہی سیاسی خودکشی جو کسی ایک طبقہ کو نہیں بلکہ پورے ملک کو لے ڈوبتی ہے۔
ہمارا ملک دھیرے دھیرے تباہی کے اسی گڈھے میں گرتا جا رہا ہے جس سے امریکہ بڑی محنتوں سے باہر آیا تھا۔وہاں اسی طرح سے گوروں کی دوکانوں کے باہر نشان لگے ہوتے تھے جیسے آج بی جے پی کے نیتا ہندو دکانداروں سے لگانے کو کہہ رہے ہیں۔سیاہ فام اور سفید فام لوگوں کے رہائشی علاقے اسی طرح بنٹے ہوئے تھے جس طرح آج ہمارے علاقے بنٹتے جا رہے ہیں۔عدالتوں سے اسی طرح کا انصاف ملتا تھا جیسا کہ آج ہم کو مل رہا ہے۔ پولس اسی طرح سیاہ فام لوگوں کے خلاف سخت تھی جیسے آج مسلمانوں کے خلاف ہے۔
فرق یہ ہے کہ امریکہ کی پارلیمنٹ نے اس اونچ نیچ اور خلفشار سے لڑنے کے لیے نہ جانے کتنے بل پاس کیے، کتنی ہی قانون بنائے۔دوسری طرف ہماری پارلیمنٹ کی پوری توانائی اسلام دشمنی میں ہی صرف ہو رہی ہے۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے نہ تو کسی کو ملک کی معاشی حالت سے کچھ لینا دینا ہے نہ ہی سرحدوں کی حفاظت کی کسی کو فکر ہے۔ ان کا پہلا اور آخری مقصد اسلام دشمنی کو پروموٹ کرنا اور مسلمانوں پر نت نئی مصیبتیں لانا ہے۔ وہ کبھی مسجد مندرکا مسئلہ لیکر بیٹھ جاتے ہیں، کبھی مسلمانوں کے پرسنل لاء کو موضوع بحث بناتے ہیں، اب تو ہمارا ہندوستانی شہری ہونا بھی ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہے۔
فرق یہ ہے کہ امریکہ کی عدالتوں نے انصاف کے قیام کے لئے بہت سے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ ایک ہماری عدالتیں ہیں جن کا رویہ ہم اس لاک ڈاون میں بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ ہاتھ میں ہتھیار لیکر کھلے مجمع میں لہرانے والے ’رام بھکت گوپال‘کو تو ضمانت مل جاتی ہے لیکن نہتے پروٹسٹ کرنے والی ایک پی ایچ ڈی اسکالر’صفورہ زرگر(‘جو کہ عنقریب ماں بننے والی ہے) اس کی ضمانت خارج کر دی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمرانوں کی نیتیں بگڑیں ہیں تب تب ان کے ہتھیاروں سے زیادہ نقصان عدالتوں نے پہنچایا ہے۔
معاشرہ میں پھوٹ ڈالنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن بالآخراس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑ جاتی ہے۔یہ قیمت کوئی ایک طبقہ نہیں چکاتا بلکہ وہاں رہ رہے تمام انسان اس کی قیمت چکانے پر مجبور ہوتے ہیں۔میں ایک بار پھر دہرا رہا ہوں ”سیاسی غلطیاں تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی، ان کی قیمت چکانی ہی پڑتی ہے، مزید یہ کہ جب بہت ساری غلطیاں یکجا ہو جائیں تو پھراسے سیاسی خودکشی کہتے ہیں جس کا انجام ہمیشہ کی ذلت و خواری ہے۔“