سیاسی اور معاشی جدوجہد کے ذریعے ہی عورت دشمن پدرسری نظام کا خاتمہ ممکن ہے
عورتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کئے جائے اور انہیں برابر کا شہری تسلیم کیا جائے
گھر مزدور عورتو ں کو ورکر تسلیم کیا جائے اور ان کے لیے جلد از جلد قانون سازی کی جائے
(ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی ریلی میں رہنما ؤں کامطالبہ)
کراچی (پ۔ ر) عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمے اورعورت دشمن سماجی رویوں کو ختم کرکے ہی سماج کو ترقی پسند اور جمہوری بنایا جا سکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ جاگیردارانہ ، قبائلی اور عقائد کی بنیاد پر عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنے کی سوچ ترک کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار محنت کش خواتین کے عالمی دن 8مارچ کے موقع پر’’ ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن‘‘(HBWWF) کے زیر اہتمام ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ یہ ریلی جس میں ہزاروں محنت کش عورتوں نے شرکت کی،اس کی قیادت فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکریٹری زہرا خان کر رہی تھیں۔ ریلی کا آغاز ایم اے جناح روڈ سے ہوا جب کہ اس کا اختتام کراچی پریس کلب پر ہوا۔ ریلی میں سندھ بھر سے محنت کش عورتوں کے علاوہ ٹریڈ یونین ، سماجی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔
اس موقع پرریلی سے خطاب کر تے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان کی عورتیں خصوصاََ محنت کش عورتیں جبر پر مبنی معاشی اور سماجی نظام کے خلاف مسلسل برسرِ پیکار ہیں ۔ ملک کی محنت کش خواتین اپنا عالمی دن ان حالات میں منا رہی ہیں جہاں دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی وہ دہرے،تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ایک طرف بحیثیت عورت جہاں سماج میں نام نہاد رجعتی روایات، رسومات اور دقیانوسی سوچ نے عورتوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے وہیں عورت بحیثیت مزدور سرمایہ دارانہ نظام کے بدترین ظلم وجبرکا شکار ہے جس میں اسے مردمزدور کے مقابلے میں نہایت قلیل اجرت دی جاتی ہے اور زیادہ کام لیا جاتا ہے ۔عالمی ادارہ محنت (ILO)کے مطابق ٹیکسٹائل ، گارمنٹس اور جوتوں کی صنعت میں تنخواؤں کا فرق مردوں کی نسبت 64.5 فیصدہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے جبکہ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق بین الااقوامی طور پر Pay Gap (تنخواہوں میں فرق)23% ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے اور اسے مردوں کے برابر لانے میں ایک سو ستر سال سے زیادہ لگ سکتے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کام کے دوران عورتوں کو ہراساں کیا جانا گویا معمول بن گیاہے۔ پاکستان میں عورتیں خصوصاََ بچیوں اور غیر مسلم خواتین کے خلاف ذہنی ،جسمانی وجنسی تشدد اور فیکٹریوں کارخانوں سے ،کھیتوں کھلیانوں تک میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ یہ بد سلوکی کسی وبا کی طرح پھیل چکی ہے ۔جب کہ اپنے حقوق طلب کرنے کی پاداش میں جاگیرداروں،مل مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے انتقامی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کے لیبر قوانین میں کام کرنے والی عورتوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے ۔آج کے دن ہم اس عظیم انقلابی خاتون کامریڈ طاہرہ مظہر علی خان کو نہیں بھول سکتے جن کی قیادت میں 8 مارچ 1948 کو عورتوں نے اپنا دن منایا اور جبر کے نظام کے خلاف ایک مشعل روشن کی ۔ اس مشعل کو کبھی مائی بختاور نے اٹھایا تو کبھی کامریڈ شانتا نے اٹھایا اور کبھی عاصمہ جہانگیر نے اٹھایا۔ مائی بختاور نے جاگیرداروں ،کامریڈ شانتا نے سرمایہ داروں کے خلاف اور کامریڈ افضل توصیف اور عاصمہ جہانگیرنے آمریت کے خلاف جدوجہد کی ۔
محنت کش عورتوں کی رہنماوں نے مزید کہا کہ عورتوں کا استحصال صرف قبائلی یا جاگیرداری میں ہی نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ داری نے استحصال کی بدترین شکلوں کو رواج دیا ہے۔ جس کے خلاف 1857 میں نیویارک، امریکہ کی ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابسطہ محنت کش عورتوں نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا اورمحنت کش عورتوں کی جدوجہد کی یاد میں ساری دنیا میں8مارچ کو عورتوں کی جدوجہد کا دن قرار پایا۔آج اس جدوجہد کے 161 برس گزرنے کے بعد بھی بین الاقوامی سرمایہ داری نظام عورتوں کو غربت، افلاس، بیماری ، بے روزگاری اور معاشی غلامی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی سب سے غریب آبادی کا 75% عورتیں ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا ظالمانہ پہلو ہے کہ McKinsey Global Institute کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق عورتوں کو گھریلو کام اور نگہداشت کے معاوضے کی مد میں ہر سال 10 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم سے محروم رکھا جاتا ہے۔بین الاقوامی سرمایہ داری نظام کی طرح پاکستان میں بھی سرمایہ دار اپنے منافع کی بدترین ہوس میں مستقل نوعیت کے کام کو تیزی سے غیر رسمی شعبے میں تبدیل کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کام فیکٹریوں سے نکل کر’’ہوم بیسڈ ورک ‘‘ کی شکل گھروں میں منتقل ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق گھر مزدور کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے جن کی اکثریت خواتین محنت کشوں پر مشتمل ہے یہ قانوناََ’’ورکر‘‘ کے زمرے میں نہیں آتیں جس کے باعث یہ یونین سازی ، اجتماعی سودا کاری ، سوشل سیکورٹی ، EOBI،ہیلتھ وسیفٹی سمیت ان تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا قانونی وآئینی حق ہے ۔
پاکستان کی محنت کش عورتوں کی یہ تاریخی کامیابی ہے کہ گھر مزدورعورتوں نے اپنے جائز حقوق کے لیے خود کو منظم کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی2009میں گھرمزدور عورتوں کی ٹریڈ یونین’’ ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن‘‘(HBWWF) کی بنیاد رکھی ۔فیڈریشن کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں سندھ حکومت نے نومبر 2016 میں گھر مزدوروں کو تسلیم کرتے ہوئے " ہوم بیسڈ ورکر پالیسی "کا اعلان کیا اور گھر مزدوروں کے لیے باقاعدہ قانون کا مسودہ بھی مکمل کر لیا گیا ہے جس کے اسمبلی سے منظوری کے صورت میں سندھ کے پچاس لاکھ سے زائد گھر مزدور بھی’’ ورکر‘‘ کی تعریف کے دائرہ کار میں شامل ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں انھیں رسمی شعبوں کے مزدوروں کی طرح لیبر قوانین کے تحت اپنے حقوق حاصل ہوں گے۔ اسی طرح ’’سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ‘‘(SIRA2013) کے تحت زرعی محنت کشوں پر لیبر قوانین کے اطلاق کے بعد جنوری 2014کو سندھ کے ہاریوں کی پہلی یونین ’’ سندھ ایگریکلچر جنرل ورکرز یونین‘‘ رجسٹرڈ کرائی گئی جس کے ممبران کا 40%حصہ ہاری عورتوں پر مشتمل ہے اور اس یونین کا دائرہ کار سندھ کے اٹھارہ اضلاع پر محیط ہے ۔ یہ کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ متحد ہو کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں حقوق کا حصول ممکن ہے اور 8 مارچ 2018 کا عظیم دن اسی عزم کے اعادہ کا دن ہے کہ انقلابی شعور کے ساتھ خود کو منظم کرکے جبر کے نظام کے خلاف جدوجہد کی جائے۔
گھر مزدورعورتیں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مطالبہ کرتی ہیں کہ
* سندھ حکومت جلد از جلد گھر مزدوروں کے قانون کا اعلان کرے اور پاکستان عالمی ادارہ محنت (ILO)کے ہوم ورک کنونشن 177کی توثیق کرے ۔
* عورتوں کو صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں قید کر رکھنے والا جاگیردارانہ، قبائلی نظام ختم کیا جائے ۔
* تمام عورت دشمن رسومات ، امتیازی قوانین بشمول امتیازی سلوک کاروکاری، وٹہ سٹہ، عزت اور غیرت کے نام پر قتل کا خاتمہ کیا جائے ۔
* انصاف کے نظام کو بہتر اور عام شہریوں کے لیے موثر بنایا جائے۔ * مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔
* یکساں کی کام کی یکساں اجرت دی جائے اوراجرتوں میں اضافہ کیا جائے۔ * زچگی اور بعد کی چھٹیوں میں اضافہ کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
* عورتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے تمام منتخب اداروں میں نمائندگی دی جائے ۔
مظاہرے سے خطاب کرنے والوں میں ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکرٹری زہرا خان ،یونائیٹڈ ایچ بی ورکرز یونین کی سائرہ فیروہ اور شبنم اعظم، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ناصر منصور، مرکزی صدر رفیق بلوچ ،سندھ ایگریکلچر جنرل ورکرز یونین CBAکی رہنما سبھاگی بھیل، مشاق علی شان، سندھ لیبر یکجہتی کمیٹی کے رہنما حبیب الدین جنیدی، ہوم بیسڈوومن وررکز فیڈریشن سانگھڑ کی رہنماساجدہ کوثر ، شاہدہ پروین، بہرام شاہ، شاہ پور چاکر سے فیڈریشن کی رہنما کوثر پروین، ہوم بیسڈوومن بینگل ورکرز یونین کی رہنما جمیلہ عبد الطیف، شکیلہ خان،NTUFسندھ کے رہنما ریاض عباسی ، عبدالرحمن ،گل رحمن،’’ شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی‘‘ کے رہنما بشیر احمد محمودانی ، توفیق احمد اور دیگر شامل تھے۔
محنت کش عورتوں کی ریلی میں مختلف سیاسی وسماجی تنظیموں کے رہنماؤں نے بھی اظہارِ یکجہتی کے لیے شرکت کی جن میں بزرگ مزدور رہنما عثمان بلوچ ’’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘‘ کے رہنما رشید تاج، ’’پاکستان مزدور کسان پارٹی‘‘ کے رہنما اسلم کھوکھر، ’’جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی ‘‘ کے رہنما سلطان محمود ،مظہر حسین ،ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی،صبافیصل ایدھی،معروف کالم نگار زبیر رحمن،سجاد ظہیر، توقیر عباس، عبدالجبار خاصخیلی،DSFکی رہنمانغمہ شیخ ،سیما مہیشوری ، نوجوان انقلابی حبیب بلوچ ،سرفراز بلوچ، صدام،’’طبقاتی جدوجہد ‘‘ کے رہنما جنت حسین،’’لال سلام‘‘کے رہنما پارس جان،’’عوامی ورکرز پارٹی ‘‘ کے رہنما حسن جاوید،ریلوے کے مزدور رہنما منظور رضی ، مقدر زمان ،لیڈی ہیلتھ ورکرز رہنما ناصرہ، زلیخا، ادیب علی حسن چانڈیو نوجوان سماجی کارکن اور استاد احمد سومرو ،نوجوان مارکسی دانشور ایاز ملک، کے علاوہ عمران مانی ، سگھ رام، درگیو بھیل اور دیگر شامل تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“