دل اور دماغ پر کچھ بوچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کا اظہار نا کرلیا جائے تب تک بے چینی اور اضطراب قائم رہتا ہے ۔کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن کا اعتراف کرنے میں ہی امان ملتی ہے خلش سے چھٹکارہ ملتا ہے بوجھ کم ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں بھی اعتراف کا موسم چل رہا ہے ۔صدر مملکت نے اعتراف کیا کہ میں چھوٹا آدمی ہوں مگر بڑی جگہ پرآگیا ہوں یہاں ہونا ڈیزرو نہیں کرتا ۔خدا جانے ان کو اس قسم کے اعتراف کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس اعتراف سے ان کو یا کسی اور کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے ۔تاہم ان کا اعتراف یہ سوال ضرور پیدا کررہا ہے کہ اگر ان کے اعتراف کومن وعن تسلیم کرلیا جائے تو پھر گزشتہ چار سال سے وہ اس بڑی جگہ پرکیا کررہے ہیں ۔اور یہ اعتراف انہوں نے پہلے کرتے ہوئے اس بڑی جگہ کو از خود چھوڑ کیوں نہیں دیا۔
اسی اعتراف کے موسم میں بظاہر ایک طاقتور سیاسی رہنما کا کمزور اعتراف بھی سامنے آیا ہے ۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ اگر ان کودور اقتدار میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو وہ شیر شاہ سوری کا مقابلہ کرلیتے ۔انہوں نے اعتراف کیا کہ زمہ داری ان کی تھی مگرحکمرانی کسی اور کی تھی ۔یہاں پر بھی صرف اللہ سے ڈرنے کا دعویٰ کرنے والے نے نجانے کس ڈر اورخوف کے تحت حکمرانی کرنے والے کا نام نہیں لیا۔تاہم اتنا اعتراف بھی کافی ہے کہ وہ بے اختیار وزیراعظم تھے اب ایسے میں اگر اپوزیشن ان کو کٹھ پتلی اور سلیکٹڈ کہتی ہے تو پھر ان کو غصہ کیوں آتا ہے اپوزیشن بھی تو وہی کچھ کہتی رہی ہے جس کا اعتراف وہ اس کٹھ پتلی اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد کررہے ہیں ۔
ابھی تو ابتدائے عشق ہے ابھی تو بہت کچھ سامنے آنا ہے بہت سی باتوں کا اعتراف کرنا ہے بہت سے بوجھ کم کرنے ہیں ۔انسان جتنا بھی طاقتور ہوجائے دل ودماغ اورضمیر پر پڑے بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے تھک ہی جاتا ہے ۔دیکھتے ہیں کہ مزید کون کون سے اعتراف ہوتے ہیں ۔فی الحال تو ایف آئ اے نے منی لانڈرنگ کیس میں ثبوت نا ہونے کا اعتراف کرلیا ہے جس کی وجہ سے شہبازشریف اور حمزہ شہبازشریف کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت ہوگئی ہے اور اسی طرح فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات کرنے والے اداروں نے اعتراف کرلیا ہے کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لہذا اس کے بعد عمران خان سمیت گیارہ افراد پر فارن فنڈنگ کیس میں مقدمہ درج ہوگیا ہے ۔
ملکی معاشی مسائل کو چٹکیوں میں حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے وزیرخزانہ اسحق ڈار نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ ملکی معیشت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ اس کے لیئے چھ ماہ کا وقت کم ہے ۔ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے اس لیئے اس کو ٹھیک کرنے کے لیئے کافی وقت درکار ہوگا۔اس بھیانک اعتراف نے بھی عام آدمی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو کپتان کے چار وزرائے خزانہ نے عوام کے ساتھ کیا تھا۔شاہانہ مزاج رکھنے والے حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ اپنی آمدن کے حساب سے خرچ کریں سب کو شیر شاہ سوری بننے کا شوق ہے ہر کوئی خزانہ خالی ہونے کے باوجود میگا پراجیکٹس شروع کردیتا ہے پھرکاسہ گدائی ہاتھوں میں پکڑ کر دنیا بھر میں زلیل و خوار ہوتے ہیں اورجب قرض مل جائے تو اس کو اتارنے کے لیے عوام کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔
سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ اس بار این آر او ٹو ہوا ہے ۔ستم یہ کہ جب این آر او ون ہوا تھا تو اس وقت قبلہ شاہ صاحب اس کے داعی تھے اگر بالفرض این آر او ٹو ہوگیا ہے تو پھر ناراضگی کیسی یہ بہتی گنگا ہے جس کا بس چل رہا ہے وہ نا صرف ہاتھ دھو رہا ہے بلکہ گنگا اشنان کرکے پوتر بھی ہورہا ہے۔اب کوئی گنگا نہاے شخص کو کچھ کہیں تو اپنا سیاسی ایمان بھرشٹ ہوتا ہے ۔چمڑی جائے پر دمڑی جائے کی طرح سب کچھ چلا جائے مگر سیاسی ایمان نہیں جانا چاہیئے ۔کیونکہ سر جائے گا تو تاج کی خماری جائے گی جب تک سر کندھوں پر موجود ہے تاج بھی سر پر ہونا لازم ہے ۔کیوں نہیں سمجھتے لوگ کہ کسی بھی حالت میں بوئے سلطانی نہیں جاتی ۔
اب اگر اعتراف کا موسم چل رہا ہے تو لگے ہاتھوں کچھ اعتراف مزید بھی کرلیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔تو اعتراف کچھ یوں ہیں کہ وقت کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے ۔کل کے مجرم انہی عدالتوں سے بے گناہ ہوکر مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہیں ۔قانون کی حکمرانی دھمال ڈال رہی ہے ۔اور کل کے ہی تخت نشین انہی عدالتوں میں پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔نومبر کی تعیناتی حکمرانوں کی منشا اور ایک صفحے پر موجود دیگر دوستوں کی مشاورت سے ہوگی ۔اس تعیناتی کو روکنے کے لیئے کسی بھی کوشش کو پسند نہیں کیا جائےگا۔عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور فری اینڈ فیئر ہوں گے لہذا اگر کوئی ماضی میں لاڈلا رہا ہے تو خاطر جمع رکھے اس بار لمبی اپوزیشن ملنے والی ہے ۔
اس سب کے باوجود سوال یہ ہے کہ عام آدمی کا کیا ہوگا ؟ اس کے حالات بہتر ہوں گے یا نہیں ہوں گے تو عزیزان من عام آدمی کی بات کون کررہا ہے کون پریشان ہے ان کے لیئے یہاں تو خواص کے مسائل ہی حل نہیں ہورہے تو پھر عام آدمی کس کھاتے میں شمار ہوتا ہے ۔لہذا اس کی اطلاع آئی ایم ایف نے کردی ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا اور عام آدمی ہمیشہ کی طرح مشکلات کا شکار رہے گا ۔شرح نمو بھی مرضی کے مطابق نہیں ہوگی ۔لہذا معاملات جوں کے توں چلتے رہیں گے تاہم شور شرابہ جاری رہے گا بیان بازی جاری رہے گی عوام کے دکھ درد میں مبتلا سیاسی اشرافیہ کے ٹسوے قابل دید ہوں گے ۔