سیاست کی فتح، جمہوریت کی شکست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹ کے انتخابات نے ایک بڑے حلقے کو پریشان اور آزردہ کیا ، ان میں سے ایک یہ خاکسار بھی ہے۔ سچ تو یہ کہ جس انداز میں یہ انتخابات ہوئے، ووٹ ڈالنے سے پہلے ”منڈی “کے ریٹ جس طرح گردش کرتے رہے ، سینیٹروں کی بولیاں لگیں،سیاسی جماعتوں نے خرید وفروخت روکنے کے لئے جو دوڑیں لگائیں، اس سب نے بری طرح مایوس کیا۔ انتہائی دائیں باز و کے شدت پسند مذہبی حلقے جب جمہوری نظام کو نشانہ بناتے اور اسے کفریہ نظام کہتے ہیں تو میرے جیسے لوگ ہمیشہ پاکستانی آئین، جمہوریت اورپارلیمنٹ کا دفاع کرتے ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جو گندا کھیل کھیلا گیا،اس نے ہر ایک کو مایوس اور شرمندہ ہی کیا۔
سیاست کے اس حمام میں زیادہ تر لوگ بے لباس ہی پائے گئے ۔ پیپلزپارٹی نے ایک طرف سندھ میں بعض اچھے امیدوار دے کر نیک نامی کمائی۔ پہلی بار کسی نے ایک دلت خاتون کو سینیٹر بنوایا، یہ نہایت قابل تحسین امر ہے۔ بھارت میں دلت آبادی کو اعلیٰ ذات کے ہندوں کے ظلم وستم اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں مسلمانوں کا رویہ بھی ان سے زیادہ بہتر نہیں ہوتا۔ پاکستان میں زیادہ تر ہندو دلت اورنچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ (ویسے تو کوئی ذات نچلی یاچھوٹی نہیں ہوتی، یہ بات صرف بھارتی تناظر میں بات سمجھنے کے لئے کہی۔ )بدقسمتی سے ہم نے کبھی سیاسی طور پران دلت کو زیادہ اہمیت نہیں دی ، پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایسا کیا اور بہت سوں کی تعریف سمیٹی۔ افسوس کہ اس اچھے کام کے ساتھ ہارس ٹریڈنگ میں جی بھر کر پیپلزپارٹی نے حصہ لیا اور اس میں بھی خوب بدنامی سمیٹی ۔ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان اسمبلی پیپلزپارٹی کی چمک کا شکار ہوئے۔ پیپلزپارٹی کو اپنے حصے سے کم از کم تین نشستیں زیادہ ملیں۔ خیبر پختون خوا میں تو خیر حد ہی ہوگئی۔ وہاں پانچ ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ اس نے دو سینیٹ کی نشستیں جیت لیں۔ واضح طور پر پی ٹی آئی کے کم از کم ڈیڑھ درجن ارکان اسمبلی نے بے شرمی کا طوق پہنا اور اپنی پارٹی کو دھوکا دیا۔ پی ٹی آئی کی دو نشستیںکم ہوئیں۔ مجھے یقین ہے کہ بات بے بات جمہوریت کی تذلیل پر آنسو بہانے والے جناب رضا ربانی نے اپنی جماعت کے اس انتہائی غیر جمہوری رویے اور پیسوں کی خرید وفروخت پر ایک لفظ بھی نہیں کہنا۔اب کی بارربانی صاحب کی آنکھیں تھر کے صحراکی طرح خشک رہیں گی۔
پی ٹی آئی کے ساتھ دھوکا ہوا،تحریک انصاف کو مگر اخلاقی برتری حاصل نہیں۔ چودھری سرور کی جیت کو بھی خرید وفروخت کا نتیجہ کہا جا رہا ہے۔ اگرچہ اسمبلی کے ایک سینئر رپورٹر نے مجھے باقاعدہ حساب کتاب کے ساتھ بتایا کہ چودھری سرور کی جیت درست ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے بتیس ارکان اسمبلی ہیں، ایک ووٹ جماعت اسلامی کا تھا، چار آزاد( نصراللہ دریشک کاگروپ )، یہ ہوگئے سینتیس ووٹ، سات ووٹ انہیں ق لیگ کے ملے۔ ق لیگ کی پہلی ترجیح ان کا اپنا امیدوار کامل علی آغا تھا، مگر دوسری ترجیح چودھری سرور تھا، کامل آغا ہار گئے تو ان کی دوسری ترجیح کے ووٹ چودھری سرور کو مل گئے اور ان کے ووٹ چوالیس ہوگئے۔ ویسے سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ مسلم لیگی امیدوار کی ہارشہباز شریف گروپ کی وجہ سے ہوئی، انہیں دانستہ ہروایاگیا۔ واللہ اعلم۔ بلوچستان میں جو ہوا، وہ بھی کسی طرح سے جمہوری رویہ نہیں۔ جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ثابت قدم رہے ۔ کسی ایک بھی رکن اسمبلی پر خرید وفروخت کا الزام نہیں لگا۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو مبارک باد دینی چاہیے، جنہوں نے ایسے لوگ رہنماتیار کئے، جن پر نوٹوں کی بوریوں کی کشش بھی اثرانداز نہ ہوسکی۔ تربیت اور نظریاتی آہنگ اسے ہی کہتے ہیں۔ افسوس کہ جماعت اسلامی کے بیشتر محاسن میڈیا پر نظرانداز ہوجاتے ہیں، اگرچہ اس کی ہر خامی پر بے رحمی سے گرفت کی جاتی ہے۔ دین کے نام لیواﺅں کو ایسی آزمائشوں کے لئے سامنا کرنا ہی پڑتا ہے، خوشی کی بات یہ کہ جماعت اسلامی ان آزمائشوںسے سرخرو ہو کر نکلتی ہے۔محمود اچکزئی کی قوم پرست جماعت کے ارکان کا مجموعی رویہ بھی قابل تعریف رہا۔
عمران خان سینیٹ کے لئے ووٹ ڈالنے نہیں گئے۔ یہ غیر جمہوری رویہ اور ذہنی ناپختگی کی علامت ہے۔ وہ جن جمہوری اقدار کے علمبردار ہیں، اس کے پیش نظر انہیں پوری سنجیدگی سے اس پراسیس میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ تب ہی وہ اپنی جماعت کے منحرف ارکان اسمبلی سے بازپرس کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان نے لاہور کے جلسے میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی تھی۔پارلیمنٹ میں وہ غالباً اس لئے نہیں گئے کہ کہیں ان کی مخالف جماعتوں کے ارکان اسمبلی ان کا مضحکہ نہ اڑائیں کہ پہلے لعنت بھیجی اور اب کس منہ سے آ گئے ؟عمران خان کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگا۔ ایسی حرکتوں سے وہ سنجیدہ طبقے کی ہمدردی کھو رہے ہیں۔خوشگوار حیرت اس پر ہوئی کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے بڑے پرجوش اور زبردست حامیوں نے بھی خان کے نہ جانے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ نوجوان جو مسلسل پارٹی اور عمران خا ن کے دفاع میں جتے رہتے ہیں، اس غلط سیاسی فیصلے پر انہوں نے کوئی لحاظ نہیں کیا۔ سینکڑوں ، ہزاروں لوگوں نے تنقیدی پوسٹ اور کمنٹس کئے۔ زیادہ تر کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کے حامی ہیں، غلام نہیں کہ ان کی ہر غلط بات کی تائید کر ڈالیں۔ یہ مثبت امر ہے ۔ پہلی بار سوشل میڈیا پر کسی جماعت کے ڈائی ہارڈ حامیوں نے اپنی قیادت سے یوں اعلانیہ اختلاف کی طرح ڈالی۔
سینیٹ کے انتخابات کے بعد پچھلے دو دنوں سے مختلف تجاویز سن اور پڑھ رہا ہوں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے سینیٹ کے لئے براہ راست انتخابات کی تجویز پیش کی ہے۔ امریکہ کی مثال اس حوالے سے دی جاتی ہے، جہاں سینیٹ کے انتخابات براہ راست منعقد ہوتے ہیں۔امریکہ میں کانگریس کے دو حصے ہیں، ایوان نمائندگان اور سینیٹ۔ سینٹ کا حلقہ بڑا ہے ، اس لحاظ سے سینیٹر بننا زیادہ مشکل ٹاسک ہے، سینیٹرزاسی لئے امریکی سیاست میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں بھی اس تجربے کو دہرایا جا سکتا ہے۔ سینیٹ کے لئے الگ سے الیکشن کرانے کے بجائے قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے ساتھ ہی ایک اور ووٹ ڈالا جا سکتا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کہ خواتین نشستوں کی طرح صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کے مطابق آٹو میٹک انداز سے سینٹ میں انہیں نشستیں مل جائیں تاکہ خرید وفروخت کا جھنجھٹ ہی ختم ہوجائے۔بعض لوگ اعلانیہ ووٹنگ یا شو آف ہینڈز کی بات بھی کرتے رہے، مگر وہ ممکن نہیں۔ وزیراعظم ، وزرااعلیٰ کے انتخابات کا معاملہ اور ہے، سینیٹ کے لئے باقاعدہ الیکشن ہوتا ہے، وہاں خفیہ بیلٹنگ ہی ہوسکتی ہے۔
ملین ڈالر سوال مگر یہ ہے کہ آخر ان اصلاحات یا آئینی ترمیم کی تجاویز کیوں دینا پڑیں؟ کیا صرف اس لئے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عوام کے یہ منتخب نمائندے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح نوٹوں کی بوریاں دیکھ کر اپنا ضمیر بیچ ڈالتے ہیں۔ جس پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر آئے، اس پارٹی سے منحرف ہو کر دیہاڑی لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ انہیں کسی بھی طریقے سے روکا نہیں جا سکتا۔ صرف کسی آئینی ترمیم سے اس رجحان کا خاتمہ ہوسکتا ہے، جس کے بعد ان کے لئے ایسا کرنا ممکن ہی نہ رہے۔یہ مگر جمہوریت تو نہ ہوئی۔ اس سے ہمارے وہ تمام سیاسی اقوال زریں غلط ثابت ہوتے ہیں، جن کا بھاشن ہم برسوں سے دے رہے ہیں۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہم اسمبلیوں میں ایسا کمزور سٹف کیوں بھیج رہے ہیں ،جسے جمہوریت سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ اصول ، قوانین اور اخلاقی ضابطوں کو مانتا ہے۔بنیادی غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ اسے پکڑے بغیر جو بھی کرتے رہیں، وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا۔سینیٹ الیکشن میں سیاست فتح یاب ہوئی، افسوس کہ جمہوریت کو شکست فاش ہوئی۔
پس نوشت: اس کالم کے لکھنے والے کی نصف عمر صحافت میں گزر گئی۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنی پسند اور شوق سے یہ پیشہ اختیار کیا، کبھی اس پر قلق یا پچھتاوا نہیں ہوا۔ آج کل تحقیقاتی صحافت کے نام پر جو گند اچھالا جا رہا ، جس گھٹیا انداز کی شرمناک رپورٹنگ ہورہی، اس کے بعدزندگی میں پہلی بار صحافی ہونے پرشرمندگی کا احساس ہورہا ہے ۔عمران خان کے نکاح کی خبر چلیں دے دی گئی، وہ مکمل سچ نہ تو کم از کم اتنی درست نکلی کہ اسی خاتون سے شادی ہوئی۔ اس کے بعد اب رپورٹر کو اپنے قدم روک دینے چاہئیں۔ ہر ایک کی ذاتی زندگی ہے، بیڈ روم میں جھانکنے بلکہ چارپائی کے نیچے گھسنے کی کوشش کی کیا تک ہے ؟کیا رپورٹر اب خواتین کے ایام کا حساب کتاب کریں گے؟صرف اندازوں پر مبنی خبرجس کی کوئی تصدیق نہیں کر رہا، کوئی ثبوت نہیں، لیکن اگر کسی نے اس پوچ ، فضول خبر کو کمنٹ کے قابل نہیں سمجھا تو اسے نیم تصدیق گردان کر خبر فائل کر دی جائے۔ حیرت ہے۔افسوس تو یہ بھی کہ ایسی خبریں صفحہ اول پر چار پانچ کالمی بڑے باکس کی شکل میں لگائی جائیں۔ یہ کہاں کی صحافت ہے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔