امریکی تشدد پر بیان دینے والا حکمران بھول گیا کہ اسی دن اندور کی ایک مسجد شہید کی گئی ۔ حکمران کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ زعفرانی غنڈے کبھی مسلمانوں کی ہلاکت کی بات کرتے ہیں اور کبھی ترشول لے کر ہلاکت کی خوفناک رسم سے بھی گزر جاتے ہیں ۔ یہ کس نے کہا تھا کہ میرا کام پسند نہیں آیا تو مجھے پھانسی پر لٹکا دینا ؟ یہ کس نے کہا تھا کہ میں فقیر ہوں ، جھولہ اٹھا کر چلا جاؤں گا ۔لیکن سات برسوں میں فقیر کا ہر کام زندہ مسلمانوں کے خلاف رہا ۔ فقیر جھولا اٹھا کر نہیں گیا ۔اس نے کروڑوں کے سوٹ خریدے ۔امبانی ادانی کے آگے ملک کو گروی رکھ دیا ۔ مسلم شہروں کے نام بدلے ۔آر بی آی کو خالی کر دیا ۔ مسخروں جیسی باتیں ترشول اور شمشیر میں تبدیل ہو گیں ۔ میں سیاسی نظام کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے چاروں طرف مینڈک نظر آتے ہیں ۔ سیاست پر مسخرے مینڈکوں کا قبضہ ہے اور ان مینڈکوں نے عوام کو بھی مینڈک بنا دیا ہے ۔
جب سورج کی ملگجی روشنی پر سیاہ رات کا سایہ ہوا، میری آنکھیں پانیوں میں اتری ہوئی مچھلیوں کو تڑپتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ دریا، کہسار، کبوتروں کے جھنڈ سے گزرتے ہوئے میں ایتھینس کی وادیوں میں آگیا تھا۔
کسی نے پوچھا۔ کیا سقراط نے حقیقت میں زہر کا پیالا پیا تھا۔
جواب ملا۔ جب ایتھنس کے باشندے رورہے تھے اور سقراط سے کہہ رہے تھے کہ وہ بے گناہ قتل ہورہا ہے تو سقراط نے زہر کے پیالے کو منہ سے لگاتے ہوئے کہا، تو کیا تم چاہتے ہو کہ میں گناہ کرتا اور قتل ہوجاتا۔۔۔۔۔ اورپھر اس نے کہا، خوشی ایک نرالی چیز ہے اور دکھ سے اس کا رشتہ انوکھا ہے۔
جب پرندے ہوا میں پرواز کررہے تھے اور منصور حلاج صلیب پر جھولتے ہوئے سنگباری کے درمیان مسکرارہے تھے، ایک پھول کی پتی کی جنبش نے ان کی آنکھوں میں آنسو لادیے۔
بسطامی کو بغداد سے شہر بدر کردیا گیا، منصور دار پر جھول گئے۔ عالم الغیب کی ان دیکھی دنیاؤں میں ہزاروں رازکھو گئے۔
’ کیا تم اس آدمی کو جانتے تھے۔؟‘
’ ہاں۔‘
’ کبھی دیکھا تھا۔‘
’ ہاں،وہ نیک انسان تھا۔‘
جب شمس تبریز قونیہ پہنچے اور مولانا روم کی درسگاہ میں آئے تو کتابوں کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا۔ یہ کیا ہیں؟ مولانا روم نے فرمایا، یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔ اتنا کہنا تھا کہ شمس تبریز نے کتابوں کی طرف دیکھا اور کتابوں سے دھواں اٹھنے لگا۔ مولانا روم نے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ شمس نے فرمایا۔ یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا۔
اور اتفاق ہے کہ رات کی سیاہی میں ہائی وے پر جو جسم پڑا تھا اس کا نام بھی شمس تبریز تھا۔ نہ وہ سقراط تھا، نہ بایزید نہ منصور حلاج۔ وہ بھی اسرار خداوندی سے کہاں واقف تھا۔ اور کون مولانا روم کی طرح اس سے دریافت کرنے والا تھا کہ یہ کیا ہے۔ نہ اسے بایزید کی طرح شہر بدر کیا گیا نہ اس نے زہر کا پیالہ پیا۔ وہ ایک بے جان جسم میں تبدیل ہوکر کنارے پڑا تھا۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کی ابتدا اسی زمانے سے شروع ہوئی جب ہندو مسلمان کا فرق آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا تھا۔ کیونکہ اس سے قبل تک ہندو اپنی زمین کسی مسلمان کو فروخت نہیں کرتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ سوچنا بھی کفر تھا کہ ان کی زمین پر کسی ہندو کا آشیانہ بنے گا۔ آزادی کے دس برسوں تک تقسیم کا زہر کم نہیں ہوسکا۔ ہندوستان کی اکثریت اب بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی تھی کہ مسلمان جو یہاں رہ گئے، انہوں نے پاکستان جانا کیوں نہیں گوارہ کیا۔؟ اس کا دوسرا رُخ واضح تھا، یعنی اگر سبھی مسلمان پاکستان چلے گئے ہوتے تو ہندوستان اکھنڈ ہندو راشٹر میں تبدیل ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس درمیان سکھ، بودھ مت اور جین مذہب کے ماننے والوں نے بہت حد تک ہندو مذہب سے سمجھوتہ کرلیا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جمہوریت اور سیکولرزم کے نعرے باربار سنے گئے۔ کبھی ریڈیو پر، کبھی تقریروں میں۔ دس برس بعد یہ تبدیلی آئی تھی کہ نفرت کا اثر بہت حد تک کم ہوا تھا اور ڈپٹی صاحب، جج صاحب جیسے لوگ نئی فکر سے آراستہ ہونے لگے تھے۔ ان سب کے باوجود کچھ بزرگ، جن کے اندر کا مسلم لیگی ابھی بھی زندہ تھا، یہ لوگ پاکستان کی باتیں کرتے تھے اور اس بات سے رنجیدہ بھی تھے کہ اسلامی ملک پاکستان کیوں نہیں گئے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ خیالات بھی نئی نسل کی آمد کے ساتھ کمزور پڑتے جارہے تھے۔ ہندوستان کی ترقی کی رفتار سست تھی۔ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان ابھی بھی کم تھا۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ چھوٹی چھوٹی تجارتوں میں خوش تھا۔ ۔دس برس میں یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ جاگیردارانہ نظام اور زمینداری کا پوری طرح سے خاتمہ ہوگیا۔
امریکہ کے بارے میں ایک محاورہ عام ہے کہ امریکہ ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ ہندوستان کے بننے میں بھی صدیاں لگی تھیں۔ بابر کی آمد سے قبل تک ہندوستان کا شیرازہ پوری طرح بکھرا ہوا تھا۔ بابر کے حملے کے بعد بیشمار خود مختار صوبائی حکومتوں کا وجود سامنے آیا۔ ایک قدیم تہذیب جو نہ صرف مصری اور بابلی تہذیب کی ہم عصر تھی، اب نئی تہذیب کی شکل میں سامنے تھی۔ انگریزوں کی آمد تک ہندوستان مختلف ریاستوں کی شکل میں سامنے آچکا تھا۔ انگریزوں نے دوسوبرس حکومت کی۔ ملک تقسیم ہوا مگر آزادی ملنے کے بعد بھی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ’پدرم سلطان بود‘ کے محاورے سے باہر نہیں آسکا۔ نیا پاکستان بھی مشکل دور سے گزر رہا تھا اور ہندوستان بھی۔ تعلیم کی پسماندگی کی وجہ سے مسلمانوں کا سارا انحصار سیاسی پارٹیوں پر تھا خاص کر کانگریس ان کے لیے مسیحا تھی۔ علما سے زیادہ مسلمانوں کا بھروسہ کانگریس پر قائم تھا۔ میرے ہوش سنبھالنے تک کچھ بزرگ خود کو مسلم لیگی کہے جانے پر خوشی کا مظاہرہ کرتے تھے۔وقت گزر گیا ۔کانگریس رخصت ہوئی ۔ ملک کا شیرازہ پہلے سے کہیں زیادہ بکھر گیا ۔مسخرے آ گئے اور اپنے ساتھ مینڈک لے آئے ۔ اب ملک میں ہر دن خطرناک مذاق کی روایت دُہرایی جاتی ہے ۔ میڈیا نے حکومت سنبھال لی ہے ۔ادانی اور امبانی کے ٣٨ چینل ہیں جہاں مینڈک اچھلتے اور کودتے ہیں ۔
١٩٤٨تک سلطان، بادشاہ، راجے رجواڑے، نواب کے قصے بہت حد تک ختم ہوچکے تھے۔ مگر اس درمیان آزادی کے بعد سے ہی ایک ہوا اور چل رہی تھی۔ ہواکی رفتار سست تھی اور اس لیے ہوا کی پہچان کرنا بھی مشکل تھا۔ اس زمانے میں ایک سیاسی پارٹی جن سنگھ وجود میں آئی تھی۔ کبھی بھی سڑکوں پر جن سنگھ کا جلوس دیکھنے کو ملتا۔ گھر کے بڑے بزرگ بتایا کرتے کہ یہ خطرناک لوگ ہیں اور ان سے بچ کر رہنا چاہیے۔ ہمارا ایک ہمسایہ بھی جن سنگھ میں شامل تھا۔ وہ خاکی ہاف پینٹ اور سفید شرٹ پہنتا تھا۔ حالت یہ ہوگئی کہ میں جب بھی اس کی طرف دیکھتا، مجھے وہ جنگلی جانور سے مشابہ نظر آتا۔ رات کے وقت جلوس نکلتا تو سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے دیے ہوتے تھے۔لیکن اس وقت ان جلتے ہوئے دیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جمہوریت اور سیکولرزم کے نعرے زیادہ تھے اس لیے دیے کچھ دور تک جلتے پھر اندھیرے میں ان کی روشنی ختم ہوجاتی۔
اب یہ دئیے روشن ہیں ۔ مسخرے مینڈکوں کی تعداد بڑھ چکی ہے ۔ اور ان کے درمیاں شترمرغ ہیں جو ریت سے منہ باہر نکالنے کے لئے تیار نہیں ۔