سیاست کا المیہ۔
مجھے پھر دو تین دن سے سیاست اور پاکستانی بیوریوکریسی پر لکھنے کو کہا جا رہا ہے ۔ میں دونوں کہ بارے میں subjectively لکھ لکھ کر تنگ آ گیا ہوں ۔ ۲۰۰۷ جب سے میں نے فیس بُک پر لکھنا شروع کیا پہلے مشرف ، پھر زرداری ، پھر نواز اور شہباز اور ابھی عمران خان، کچھ نہیں بدلا ، کچھ نہیں بدلنا ۔ لہٰزا میں اس کا objective تجزیہ تو کر سکتا ہوں لیکن فضول غیر ضروری details پر بات نہیں کر سکتا ۔ ہاں ٹویٹر تک محدود ہوں کیونکہ تھوڑے لفظوں میں طوفان بدتمیزی کھڑا کیا جا سکتا ہے، جو ٹرمپ روز اپنے دشمنوں پر کرتا ہے ۔ میں تو کل اسی موضوع پر ایک تجزیہ پڑھ رہا تھا جو مجھے بہت پسند آیا quote کرتا ہوں ۔
Trevor Burrus argue that "Politics Makes Us Worse. Politics makes us dumb, crippling our ability to "[think] critically about the choices before us. And politics makes us mean: All too often, makes us hate each other. Partisan passions turn, modest differences of opinions, on policy into an apocalyptic battle between virtue and vice."
ہم اس لڑائ میں حیوانوں کی حد تک چلے جاتے ہیں ۔ دوستیاں اور رشتہ داریاں ختم ہو جاتی ہے ۔ ہماری انسانیت اور اخلاقیات مجروح ہو جاتی ہے ۔ بہت سارے چائے خانوں میں پاکستان میں ٹھیک لکھا ہوتا ہے ، “سیاست اور مزہب پر گفتگو منع ہے” پاکستان کی سپریم کورٹ میں وہی چیف جسٹس جو Suo Moto کو گناہِ کبیرہ سمجھتا تھا آج First Lady اور اس کہ سابقہ خاوند کہ معاملات پر Suo Moto لیے ہوئے ہے ۔ اس حد تک تو paparazzi بھی نہیں کرتے تھے جنہوں نے ڈیانا کی جان لے لی ۔ اس کا مطلب ہے پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ کہ پاس کام ہی ختم ہو گیا ہے؟ اپنے ججوں کا احتساب کر نہیں پاتے ، فرخ عرفان اور شوکت صدیقی سر عام گالیاں دے رہا ہے ۔
جب ٹرمپ امریکہ کا صدر بنا تھا تو عجیب و غریب قسم کا احتجاج سیاست دانوں کہ خلاف میں نے یہاں امریکہ میں دیکھا ۔ کاروں پر سٹکر لگے دیکھے ۔
Every body sucks !
All politics is bad –
اور پتہ نہیں کیا کیا، میں لکھ بھی نہیں سکتا ۔ جب سے سیاست سے اخلاقیات ختم ہوئ اور یہ محض پیسہ اور طاقت کا کھیل بن گئ، عام لوگ اس سے شدید متنفر ہو گئے ۔ ایک امریکی جرنلسٹ اسے بہت زبردست الفاظ میں بیان کرتی ہے ۔
“Politicians won't easily concede on an opposite view of their own. The greater good is often overlooked by petty rivalries and short term goals. They think that if you agree with your opponent, it shows weakness. Often it's forgot, that the only reason they're there is to lead and govern the masses towards a greater good”
اب یہاں کیا کوئ گریٹر گُڈ کی بات کرے ؟ یہاں تو وزارتوں ، عہدوں اور تھانیداریوں کا مسئلہ ہے اور اگر تنقید کریں تو جان کا خطرہ ۔ ٹرمپ نے یہاں امریکہ میں کبھی فوج کہ خلاف بیان نہیں دیا ، کیونکہ فوج کی امریکی عوام میں زبردست ریٹنگ ہے ۔ ویتنام کی جنگ کہ بعد فوج بہت بدنام ہوئ تھی ، لیکن آج پھر بہت پاپولر ، ۷۵ فیصد امریکی اپنی فوج کہ لیے جان دینے کو تیار ہیں ۔ پاکستان میں پومپیو کہ ساتھ اب پینٹاگون کہ چیف بھی آ رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی معاملہ اسی طرح کا ہے ۔ جس وجہ سے جنرل باجوہ کو بہت صاف میدان مل گیا ہے ۔ وہ چاہے عمران کو back کرے ، بے شک ثاقب نثار کو چاہے اور اگر دل آئے تو مولانا خادم رضوی کو ، وہ جنگل کا بادشاہ ہے اس کی مرضی ، کیونکہ اس کی فوج کی عوام میں ریٹنگ بہت ہائ ہے ۔ اور سیاست دان نے تو اپنے آپ کو پیسے اور طاقت کہ چکر میں رسوا کر لیا ۔ عوام کی خدمت تو کبھی بھی سیاست دان کا منشور ہی نہیں رہا ۔ ایک امریکی نے ایک بلاگ میں اسے بہت زبردست لکھا
“Our politicians will cling to the rules only when it suits them. They manipulate their audiences through deceptive wordplay and emotions”
سارا کھیل ہی یہ ہے۔ عوام پِٹ گئے ، مر گئے ، زلیل و خوار ہو گئے ۔ البتہ سیاست دانوں میں تو دنیا میں صرف ایک مرد کا بچہ دیکھا ، فلپائن کا ڈوٹرٹے ، جس کی ریٹنگ ۸۰ فیصد سے زیادہ پر ہے ۔ عمران نے تو کہا ہے مجھے judge سو دن بعد کرنا ۔ حضور آپ ہزار دن لے لیں ۔ کچھ کر جائیں ۔ ہماری دعائیں آپ کہ ساتھ ہیں ۔ ۲۲ کروڑ لوگوں کا سانس لینا مشکل ہو گیا ہے ۔ یہاں امریکہ میں ہی ایک بہت زبردست سوشل میڈیا بلاگر ، یوڈکوسکی بہت زبردست لکھتا ہے ۔
“our atavistic Red/Blue tribalism plays to the interests of "individual politicians in getting you to identify with them instead of judging them,"
خان صاحب ہم ہرگز آپ کو جج نہیں کرتے ہماری توبہ ۔ آپ موج کریں ۔ میڈیا پر بھی جو آپ پر تنقید کر رہا ہے وہ بھی گندا ، ہم سوشل میڈیا بلاگر جو آپ کو جج کرتے ہیں ہم بھی بُرے ۔ آپ ہماری مفت کی فیڈ بیک سے اگر ناراض ہیں اور آپ کہ مداح جو ہمارے کچھ قریبی دوست اور رشتہ دار بھی ہیں ۔ تو ہم ان کی ناراضگیاں بھی جناب ، نہیں مول لے سکتے ۔ ویسے اس کو بھی خان صاحب myth ہی سمجھیں کہ خلیفہ عمر کا گریبان اور عام آدمی کا ہاتھ ۔ آپ خوش رہیں ، جیتیں رہیں ۔ آخری درخواست آپ سے ، جو مرضی ٹیم رکھیں ، جو چاہے کریں ، لیکن ۲۲ کروڑ کو خوش کرنا نہ بھولئیے گا ۔ اللہ تعالی کہ ہاں آپ کو کوئ معافی نہیں ملے گی ۔ آپ نے خود ۲۲ سال پورا زور لگا کر الیکٹیبلز ساتھ ملا کر یہ عہدہ لیا ، وہاں تو پائ پائ کا حساب ہو گا ۔ وہاں ضرور آپ کا گریبان اور ۲۲ کروڑ کہ ہاتھ ہوں گہ اور چھڑوانا ناممکن ۔
جیتے رہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔