چند ماہ قبل ایک خبر زبان زدِ عام ہوگئی تھی کہ سائنسدانوں کو سیارہ زہرہ کی سطح پر زندگی کے "سراغ" ملے ہیں، جس نے سائنسی حلقوں میں بےچینی پیدا کردی تھی۔ اس خبر کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ الما ریڈیو ٹیلی سکوپ کے ذریعے سیارہ زہرہ سے آنے والی روشنی کے اسپیکٹرم میں سائنسدانوں کو فاسفین گیس کی موجودگی کے شواہد ملے تھے، فاسفین گیس کا تناسب سیارہ زہرہ کی سطح پر 20 ppb تھا یعنی سیارہ زہرہ کی فضاء میں ایک ارب مالیکیولز میں سے 20 مالیکیولز فاسفین گیس کے بھی تھے۔ چونکہ فاسفین گیس کثیر تعداد میں جانداروں سے خارج ہوتی ہے اور 20 ppb کا تناسب جانداروں کے بغیر کسی بھی سیارے پر قائم نہیں ہوسکتا، جس وجہ سے فلکیات دان پُرجوش تھے کہ ہوسکتا ہے کہ سیارہ زہرہ کی فضاء میں کوئی خوردبینی جاندار موجود ہوں جن سے یہ گیس خارج ہورہی ہے۔
لیکن اب سائنسدانوں کے ایک اور گروپ کی جانب سے تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ سیارہ زہرہ کی فضاء میں فاسفین گیس کا تناسب 20 ppb نہیں بلکہ 1 ppb ہے، موجودہ تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پچھلی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں سے شاید یہ غلطی ہوگئی تھی کہ انہوں نے سلفر ڈائی آکسائیڈ کو فاسفین گیس سمجھ کر 20 ppb کی کیلکولیشن نکال لی تھی، کیونکہ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور فاسفین گیس سے منعکس ہونے والی ریڈیشنز کی فریکوئنسی قریب قریب ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے بعد واؤ سگنل، ٹیبی سٹار کی طرح سیارہ زہرہ پر زندگی ملنے کی کِرن ماند پڑ گئی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ دن قبل ایک اور تحقیق میں سائنسدانوں کو کچھ ستاروں کی جانب سے ٹیکنو سگنیچر ملنے تھے مگر وہ تمام ٹیکنو سگنیچرز بھی انسان کے ہی پیدا کردہ تھے یعنی ریڈیو ٹیلی سکوپ نے انسانوں کے ہی پیدا کردہ سگنلز کو detect کرکے انہیں ٹیکنو سگنیچر مارک کرلیا تھا۔
اسی طرح کچھ سال قبل سائنسدانوں کو مریخ کی سطح سے میتھین گیس اٹھتی ملی، جس کی بدولت سائنسدان اب پرجوش ہیں کہ ہوسکتا ہے مریخ پر کبھی زندگی موجود رہی ہو یا مریخ کی سطح کے نیچے ہوسکتا ہے کہ زندگی پنپ رہی ہو، بہرحال اس ساری تگ و دو کے بعد ایک بات کلئیر ہوجاتی ہے کہ ہم جو ہر کچھ عرصے بعد اڑن طشتریاں یا خلائی مخلوق دیکھے جانے جیسے بوگس دعوے سنتے ہیں وہ سب جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں، ان میں اگر سچائیاں ہوں تو فلکیات دانوں کو خلاء میں زندگی ڈھونڈنے کی کیا ضرورت؟ جیسے کچھ دن قبل دُنیا کے مختلف علاقوں میں ایک آہنی دیوار ملنے کی خبر ملی جسے خلائی مخلوق کی کارستانی قرار دیا گیا یا پھر اسرائیل کی سیکورٹی ایجنسی کے ایک سابقہ آفیسر کی جانب سے مضحکہ خیز دعویٰ کیا گیا کہ مریخ کی سطح کے نیچے امریکا اور خلائی مخلوق ملکر کالونیاں بنا رہے ہیں اور ڈونلڈٹرمپ پوری دنیا کے سائنسدانوں سے یہ حقیقت چھپا رہے ہیں۔ان بوگس دعوؤں کے برعکس اگر حقیقی معنوں میں دیکھیں تو سائنسدان مریخ کی سطح کے نیچے زندگی کے لیے سنجیدہ ہیں بلکہ پینس پرمیا تھیوری تو یہ مفروضہ تک پیش کرتی ہے کہ مریخ پر ماضی میں ایک حادثہ ہوا تھا، جس کی باقیات آج بھی مریخ پر نقش ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ اس حادثے کے نتیجے میں مریخ سے زمین پر زندگی شفٹ ہوگئی ہو…
زیب نامہ
پینس پرمیا تھیوری کیا ہے اور مریخ پر ماضی میں کیا حادثہ رونما ہوا تھا؟ اس متعلق جاننے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیئے
مریخ پر انسان کیسے رہے گا؟ مریخ کو زمین جیسا کیسے بنایا جائے گا؟ اس متعلق جاننے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیئے
مندرجہ بالا مضمون کی تیاری کے سلسلے میں ڈاکٹر سلمان حمید صاحب کے لیکچر سے مدد لی گئی ہے، جسے اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...