قرنطینہ کے چکر میں گھروں میں بند ہماری نئی لبرل ترقی پسند یوتھ کے لئے۔۔ جو وقت گزاری کے لئے اچھی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ 70 کی دہائی میں وہ کون لیفٹسٹ ، ترقی پسند نہ ہوگا۔۔ جو انڈیا کی 'آرٹ فلموں' کے بارے نہ جانتا ہو۔۔ وہ دور بائیں بازو کے انقلابی خیالات کا تھا۔۔ چنانچہ اس کے زیراثر بمبئی فلم انڈسٹری میں ایک ایسی شاندار فلمیں بنانے والی ٹیم سامنے آئی۔۔ جس نے اس دور کے ہمارے انٹیلکچوئل سفر کو اور نشیلا بنا دیا۔ ان میں پروڈیوسر، ڈائریکٹر شیام بینیگل کا نام سرفہرست ہے۔۔ اداکاروں میں شبانہ عاظمی، سمیتا پاٹل، اوم پوری، نصیرالدین شاہ۔۔ یہ سب ینگ لاٹ تھی، اور پونا آرٹ انسٹی ٹیوٹ کے گریجوئٹ تھے۔ یہ فلمیں بہت کم لاگت پر بنتی تھی، انڈین حکومت ان کو سستا قرضہ بھی فراہم کرتی تھی۔ ان سب فلموں کی کہانیاں۔۔ سماجی اور شعوری تبدیلی پیدا کرنے اور پس ماندگی، غربت، ظلم و استحصال پر سوالات اٹھانے جاتے، انڈیا میں موجود کمیونسٹ موومنٹس جو چل رہی تھی، ان فلموں میں ان کے متعلقہ بھی کہانیاں ہوتی۔۔ اسے متبادل سینما بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نظریاتی بڑا پاورفل میڈیم ثابت ہوا۔۔ ان لوگوں نے اتنی لگن سے کام کیا۔۔ کہ مین سٹریم کمرشل فلم انڈسٹری کے مقابل انہوں نے اپنی شناخت بنا لی۔۔ وہ پھر انہی اداکاروں نے کمرشل فلموں میں بھی کامیابی حاصل کی۔۔ شیام بینگل کے بعد گوند نہالانی آئے۔۔ یاد رہے، شیام بینیگل گرو دت کے کزن تھے۔
شیام بینگل نے 28 سالہ کیئریر میں 900 شارٹ/ڈاکومنٹری فلمیں بنائی، 20 فیچر فلمیں۔۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک۔۔ ڈسکوری آف انڈیا۔۔ ٹی وی سیریز بنائی۔۔
ان آرٹ فلموں کے کچھ نام: انکور، سورج کا ساتواں گھوڑا، بھومیکہ، منڈی، نشانت،
منتھن، کسی زمانے میں وی سی آر کیسٹس میں میرے پاس ان سب فلموں کی کولیکشن تھی۔۔ جو تیزی سے بدلتے ٹیکنالوجی کے زمانے میں برباد ہوکررہ گئی۔۔
انڈیا کی ترقی پسند اثرات پر مبنی فلم انڈسٹری کی تاریخ ایک الگ جامع تحقیق اور مضمون کی متقاضی ہے۔۔۔ مجھے آج شیام بینگل پر لکھنے کا خیال ہماری لبرل دوست حرا ایمن کی وجہ سے آیا۔۔ کسی نے ان کو منڈی فلم کا بتایا ، تو حرا صاحبہ کو پتا چلا۔۔ شیام بینگل کا۔۔۔ میرے خیال میں جو ہماری ینگر لبرل نسل بن کرسامنے آ رہی ہے، اور وہ خوب تیزی سے سیکھ رہی ہے۔۔ ان کے فارغ وقت میں ان فلموں کو دیکھنا مزے کی چیز ہوگی۔۔۔ ایک ایک فلم۔۔ ایک کتاب کے جتنا شعور پیدا کرتی ہے۔
“