محلے پر حملہ ہوا تو میں نے خود حفاظتی میں اپنے مکان کو قلعہ بنا کر رکھ دیا۔ چھتوں پر بندوقچی کھڑے کردیے۔ دیواروں پر تاریں بچھائیں اور ان میں بجلی کا کرنٹ چھوڑ دیا۔ بڑے دروازے پر‘ دائیں بائیں‘ دو مشین گنیں نصب کردیں‘ سابق کمانڈو بھرتی کیے لیکن افسوس! گھر پھر بھی نہ بچ سکا۔ خاندان کا ایک رکن حملہ آوروں کا ساتھی تھا۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ حملہ آور حق پر ہیں۔ حملہ آور گھر کے اُس فرد کی مدد سے ساری رکاوٹیں عبور کر کے گھر کے اندر داخل ہوئے اور اُس کے کمرے میں چھپ گئے۔ وہاں انہیں نہانے کے لیے گرم پانی‘ آرام کے لیے نرم بستر اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہترین خوراک میسر تھی۔ ایک رات وہ میرے ہی گھر کے کمرے سے نکلے اور میرے ہی گھر کو کھنڈر بنا دیا۔
اس کہانی میں کون سی حقیقت پنہاں ہے؟ اگر کسی کو وہ حقیقت دکھائی نہیں دے رہی تو اپنی دائیں آنکھ سے سفید اور بائیں آنکھ سے کالا موتیا کسی ماہر جراح سے نکلوائے‘ آنکھیں تندرست ہو جائیں ،نظر لوٹ آ ئے تو اردگرد دیکھئے حملہ آوروں کا بھی پتہ چل جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ گھر کا کون سا فرد گھر کا دشمن ہے اور یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ وہ کمرہ کون سا ہے؟
جو دانش ور افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان نظریاتی یا جغرافیائی لکیریں کھینچ کھینچ کر اپنی دانشوری پر خود ہی داد دے رہے تھے وہ افغان انٹیلی جنس کے حکام کا تازہ ترین بیان غور سے پڑھیں۔ جب پاکستانی افواج کے ترجمان نے افغانستان سے مطالبہ کیا کہ ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تو افغان انٹیلی جنس کے سینئر حکام نے جواب میں کہا ہے کہ افغان حکومت کے ملا عمر سے خفیہ معاملات چل رہے ہیں جب کہ فضل اللہ کے ملا عمر سے اچھے تعلقات ہیں۔ اس لیے فضل اللہ کو حوالے کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔اس سے پہلے‘ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ جنرل ثناء اللہ کی شہادت کے بعد مولوی فضل اللہ نے اعلانِ عام کیا تھا کہ وہ آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر کو نشانہ بناے کا عزم رکھتے ہیں۔ تحریکِ طالبان کے امیر کے منصب پر ان کا انتخاب اس اعلان کے بعد کی بات ہے اور یہ خبر سارے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہوئی تھی کہ اس انتخاب کی پشت پر ملا عمر کا ہاتھ تھا۔
پاکستان کی آبادی کا معتدبہ حصہ ملا عمر کو امیر المومنین کہتا اور سمجھتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اس میں کوئی بجھارت ہے نہ معمہ۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ حکومت کو معلوم ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کو معلوم ہے۔ مسلح افواج جانتی ہیں۔
ان حقائق کو ذہن میں رکھ کر مسلح افواج کے سابق ترجمان جنرل اطہر عباس کا تازہ ترین بیان دیکھیے۔ جنرل صاحب نے کہا ہے کہ بہت زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ طالبان کی بڑی تعداد ماری جائے گی۔ انہوں نے کہا ’’میرے خیال میں دہشت گرد چھپ جائیں گے‘‘۔
یہ دہشت گرد کہاں چھپیں گے؟ یہ دہشت گرد اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ پشاور اور دوسرے شہروں اور قصبوں کے پوش علاقوں میں چھپیں گے۔ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں ایسے تعلیمی ادارے چل رہے ہیں جو طالبان نواز طبقے کے زیر انتظام ہیں۔ ان اداروں کو چلانے والوں اور ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے لباس‘ حلیے‘ ظاہری وضع قطع‘ سب وہی ہے جو دہشت گردوں کی ہے۔ ان اداروں میں آرام دہ کمرے ہیں۔ نرم گرم بستر ہیں۔ تازہ کھانے ہیں۔ ایئرکنڈیشنر ہیں۔ بجلی کے قمقمے اور برقی پنکھے ہیں۔ ماڈرن باتھ روم ہیں۔ یہاں حکومت ہاتھ ڈال سکتی ہے نہ مسلح افواج۔ یہاں چھپنے والے یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔ دہشت گرد یہاں ہفتوں نہیں‘ مہینوں روپوش رہ سکتے ہیں۔ یہاں ہمدردی بھی میسر ہے‘ مدد بھی‘ نظریاتی ہم آہنگی بھی ہے اور ایسے ساتھی بھی موجود ہیں جو جمہوریت کو کفر گردانتے ہیں اور مسلح افواج کو دشمن!
آپ کر لیجیے جو کرنا چاہتے ہیں۔ چھت پر بندوقچی کھڑے کر دیجیے‘ دیواروں پر تاریں لگا کر ان میں برقی رو چھوڑیے‘ صدر دروازے پر دونوں طرف جدید ترین مشین گنیں نصب کر کے دیکھ لیجیے‘ ماہر ترین کمانڈو تعینات کر لیجیے‘ لیکن گھر کے اُن افراد کا کیا کریں گے جو حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہیں؟ حملہ آور تو ان افرادِ خانہ کی خواب گاہوں میں بیٹھے ہیں۔ ہیہات! ہیہات! مکان کو تباہی سے کون بچا سکتا ہے!
شتر مرغ ریت میں سر چھپاتا ہے اور سمجھتا ہے جو کچھ نظر آ رہا تھا‘ سراب تھا۔ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ہم شتر مرغ ہیں یا کبوتر؟
نظیریؔ نے کہا تھا ؎
خورشیدِ عمر برسرِ دیوار و خفتہ ایم
فریاد بر درازیِ خوابِ گرانِ ما
سورج نصف النہار پر ہے اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ ایسی نیند پر اور اس کی طوالت پر نوحہ خوانی ہی کی جا سکتی ہے! خدا کے بندو! اس پاکستان میں… ہاں‘ اسی پاکستان میں‘ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں ایسے پاکستانی ہیں جو قائداعظم کو قائداعظم تو کیا‘ لیڈر ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا قصور بھی تو نہیں! انہیں تاریخ پڑھائی جاتی ہے نہ جغرافیہ۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ انگریزوں کی آمد کے بعد ہندوئوں نے استعمار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ کس طرح لگایا تھا۔ مسلمانوں کو کس طرح بازاروں‘ دفتروں‘ کچہریوں‘ پٹوارخانوں‘ عدالتوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر رکھا گیا۔ تقسیم سے پہلے ججوں‘ تحصیل داروں‘ کلکٹروں‘ ڈپٹی کمشنروں‘ انکم ٹیکس افسروں‘ آڈٹ اینڈ اکائونٹس‘ ملٹری اکائونٹس اور ریلوے کے افسروں‘ ڈاکخانوں‘ بندرگاہوں‘ غرض کسی بھی شعبے کے افسروں اور اہل کاروں کے نام دیکھ لو‘ کتنے مسلمان تھے اور کتنے ہندو تھے۔ پارسی بھی قبول تھے‘ عیسائی بھی منظور تھے‘ سکھ بھی گوارا تھے‘ فقط مسلمان ناقابلِ قبول تھے ع
فقط ایک میرِؔ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا
افسوس! ان ہزاروں نہیں‘ لاکھوں تعلیمی اداروں میں پڑھنے پڑھانے والوں کو اندازہ ہے نہ علم کہ اُس منحنی شخص نے اپنے پھیپھڑوں کی جان لیوا بیماری کو چھپا کر‘ ان کروڑوں مسلمانوں کو ہندو عفریت کے خوفناک جبڑوں سے نکالا۔ وہ ایک طرف انگریزوں سے نبرد آزما تھا‘ دوسری طرف اُس نے ہندوئوں کو روکا ہوا تھا کہ مسلمانوں کو چبا نہ ڈالیں‘ نگل نہ لیں۔ اُس منحنی شخص کے بیان میں اثر تھا۔ اس کی پشت پر اُس کے کردار کی مضبوطی تھی۔ آج تک اُس کے بدترین دشمن بھی نہیں کہہ سکے کہ اُس نے کبھی جھوٹ بولا‘ اُس نے کبھی وعدہ خلافی کی‘ اُس نے کبھی خیانت کی‘ اُس نے سربراہِ مملکت بننے کے بعد کبھی سرکاری رقم سے ایک پیسہ‘ نہیں‘ ایک پائی‘ نہیں‘ ایک دمڑی بھی ناروا خرچ کی یا اپنی ذات پر یا اپنی بہن کی ضروریات پر صرف کی۔
ان ہزاروں لاکھوں تعلیمی اداروں کو کیا علم کہ وہ منحنی شخص نہ ہوتا تو آج ان کے تعلیمی ادارے بھی نہ ہوتے۔ ان کو اپنے عقاید بیان کرنے کی آزادی بھی نہ ہوتی‘ انہیں لاکھوں کروڑوں روپے کے عطیات بھی نہ ملتے۔ اُس خدا کی سوگند جس نے نحیف جسم کے مالک محمد علی جناح کو کروڑوں مسلمانوں کا قائداعظم بنایا! ان کے بچے بندے ماترم کے گیت گا رہے ہوتے‘ گورمکھی کے ٹاکرے لکھ رہے ہوتے‘ ہندی کے حروفِ تہجی یاد کر رہے ہوتے اور وہ جو کچھ ہو رہا ہوتا قلم جس کے لکھنے کے تصور ہی سے کانپ جاتا ہے۔
یہ دہشت گرد کہاں چھپے ہوئے ہیں؟ کہاں چھپیں گے؟ شتر مرغ کو بھی معلوم ہے اور کبوترکو بھی! آہ! شتر مرغ نے سر ریت میں دبا لیا ہے اور کبوتر نے آنکھیں میچ لی ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“