شکریہ راجندر سنگھ جی!
آپ نے ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
گزشتہ روز ضلع پونچھ کے علاقہ سرنکوٹ میں اُس وقت ایک سراسمگی پھیل گئی جب آرمی کی ایک بھرتی ریلی کے دوران ہندو طبقہ سے تعلق رکھنے والے راجندر سنگھ نامی ایک نوجوان کو پولیس نے2گرینیڈ اور اک ڈیٹانیٹر سمت دبوچ لیا۔ گو کہ یہ خبر پوری ریاست بھر میں جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی اور لیکن خبر عوامی حلقوں میں اس گفت انداز میں پہنچ گئی کہ اُس میڈیا کو صبح جموں کے ضلع پونچھ کے اس واقعے کی بھنک نہیں لگی جو میڈیا آئیر سٹرائک سے اُس پار ہونے والے نقصانات تک کی خبر رکھتا ہے۔نہ جانے آج میڈیا کے وہ لوگ خاموشی اختیار کئے ہوئے کہاں غائب ہیں جو ٹی وی اسکرینوں پر گولی کی زبان بولتے ہیں۔میڈیا کے نام پر مانند ِ دھبہ اُن میڈیا والوں کو سانپ کیوں سونگ گیا ہے۔ کیا اُن کی میڈیا گیری صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنا ہے، بھائی چارے کو تار تار کرنا ہے؟کیا ایسے لوگوں کے چینلز صرف اس لئے چلتے ہیں کہ وقت کے نا خدائوں کو خوش کیا جائے، خواہ ا ِس کے لئے انہیں چوبیس گھنٹے ٹی اسکرینوں پر شرپسندی کا زہر ہی کیوں نہ اگلنا پڑے۔
ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے پلوامہ حملہ اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف کر کے دامن چھڑالیا لیکن گودی میڈیا تو اس طرح کا اعتراف بھی نہیں کر سکتی ،ظاہر ہی بات ہے کہ میڈیا کا کام ہے خبر دیناتو لازماً نام نہاد میڈیا یوں بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں واقعے کی اطلاع نہیں ملی اور پھر ایسے میڈیا جو اپنے ملک نہیں بلکہ ہمسائے ملک کی خبر بھی رکھتا ہے ۔اُن کے رابطے اتنے پختہ ہیں کہ جب ائیر سٹرائک ہوئی تو میڈیا کو یہمعلومات بھی حاصل تھی کہ جس وقت ائیر سٹرائک ہوئی اُس وقت اُس پار کتنے موبائل ایکٹیو تھے ۔پھر اپنے کی ملک میں کسی بھی مسئلے کی معلومات نہ رکھناکتنی بڑی ناکامی ہے یہ تو گودی میڈیا ہی بتا سکتا ہے ۔میڈیا سرنکوٹ کی اس دہشت گردانہ خبر پر واویلا تو کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ حقیقی معنوں میں بکائومیڈیااِس خبر کوسامنے لانا ہی نہیں چاہتا۔ خیر یہاں بکائو میڈیا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ میڈیا نے اس واقعے پر خاموش اختیار کر کے اپنی صحافتی پالیسی کا راز خود ہی افشا کر دیا ۔جس طرح سے آج بکائو میڈیا خود بخود مسلم مخالف پالیسیوں کاثبوت پیش کر رہا ہے اُس کیلئے نام نہاد بکائو میڈیا کو دل کی اتھا گہرائیوں سے شکریہ کرنا کر چاہیے ، کیونکہ بکائو میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے جس طرح سے مسلمانوں کے تئیں اپنی نفرتوں کا واضح اشارہ دیا اُس سے سبق سیکھنے کی ضرروت ہے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ کہیں پتھر برسے تو ’’جے کے میڈیا ‘‘اپنے ڈیلی راؤنڈ اپ میں پتھروں کے برسنے پر اس قدرگرجتا ہے کہ جیسے ابھی کے ابھی جنگ شروع ہو ہی جائے گی اور اگر اِس ڈیلی راؤنڈ اپ کے مہمانِ خصوصی بھاجپا کے ریاستی صدر راویندر ریناہوں تو پھر جو لوگ اس راؤنڈ اپ کو دیکھتے ہیں وہ گویا یوں محسوس کر رہے ہوں کہ زندگی کی یہی چند سانسیں باقی ہیں بس ابھی ٹینک اُتر رہے ہونگے اور جنگ چھڑ جائیگی کیونکہ موصوف کا اندازِ بیان اس قدر شر پسندانہ ہوتا ہے کہ امن و امان پر یقین رکھنے والا انسان یہی سوچتا ہے اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگتا ہے کہ آخر گولی کی زبان بولنے والا یہ سیاست دان بولی اور گلے لگانے والوں کی صف کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے ؟؟ انسان دو منٹ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا گلے لگانے والی بات کو سچ مانا جائے یا ٹینکوں اور میزائلوں کے ذریعے مسائل کا حل کرنے والوں کو صحیح سمجھا جائے؟؟ لیکن پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال نے امن کے شیدائیوں کو آئینہ دکھا کر صاف لفظوں میں گلے لگانے اور گولی لگانے کا فرق بتادیا ۔ صاف ہو گیا کہ گلے سے لگانے کی باتیں محض جملہ بازی تھی ،ایک دھوکا تھا، فریب تھا، جھوٹ تھا،مکاری تھی ،اداکاری تھی اورزبان درازی تھی جس کے ذریعہ ریاستی عوام کو شیشے میں اُتارنے کی اک شاطرانہ کی گئی کوشش تھی کہ ہو سکتا میری چوڑی چپٹی جملہ بازی کام کر جائے ۔وگرنہ عوام کو شیشے میں اُتارنے کیلئے ’’جملہ باز‘‘ کو کونسا طریقہ نہیں آتا ،وہ چاہیے تو کسی بھی حد کو پھلانگ سکتے ہیں ۔خیر یہ سب تو کرسی پرستوں کا سیاسی کھیل ہے جو کرسی کو حاصل کرنے کیلئے مختلف مختلف طریقوں سے کھیلا ہی جا رہا ہے اور عوام کی اس کھیل میں حیثیت محض ایک فٹ بال کی طرح ہے ۔جس سیاسی کھلاڑی کو موقعہ ملتا ہے وہ سیاسی گول کرنے کے لئے اس گیند (عوام) کو لات مارنے میں گریز نہیں کرتا۔
قارئین آج کا اصل اہم سوال یہی ہے کہ سرنکوٹ واقعے کو لیکر سیاسی طبقہ اور بکائو میڈیا نے کیونکر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ؟؟ کیا خاموشی کا مطلب یہی ہے کہ جس شخص سے پولیس نے گرنیڈ برآمد کئے اُس کانام راجندر سنگھ ہے ،اُس کا تعلق ہندو دھرم سے ہے ؟کیا دہشت گرد نہ ہونے کیلئے ہندو دھرم سے تعلق ہونا ہی بے گناہی کا ثبوت ہے؟؟ جی ہاں! ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ حقیقی معنوں میں خاموشی کی اصل وجہ یہی ہے ، لیکن پھر بھی بحیثیت مسلمان ہم محترم راجندر سنگھ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُنھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ واقعی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔راجندر سنگھ جی !آپ کا جتنے بار شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے آپ نے اُن لوگوں کے منہ پر آج زناٹے دار طمانچہ رسید کیا جو دہشت گردی کو مذہب سے جوڑتے ہیں ۔ جنھوں نے ازل سے ہی مذہب ِ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر ایک مخصوص طبقہ کو عتاب کا شکار بنا کر رکھا ۔ آپ نے انہیں یہ بتا دیا کہ اے بدبختو !دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اگر ایسا ہے تو پھر آج آپ اپنے مذہب کو دہشت گردی کے داغ سے کیسے مٹا پاؤ گے ؟ کیا آج تمہاری زبانوں پر صرف اسی لئے قفل لگے ہیں کہ بھرتی ریلی کے دوران گرنیڈ سمت پکڑے جانے والے اس نوجوان کا نام راجندر سنگھ ہے اور اس کا تعلق ہندو دھرم سے ہے؟؟
گودی میڈیا خاموشی توڑے اور دہشت گردی کو دہشت گردی کہے ورنہ آپ کی غنڈہ گردی آپ کو ایک نہ ایک دن ضرور ننگا کرے گی ۔جس طرح سے آج ایک راجندر سنگھ نے آپ کے مسلم مخالف غبارے کی ہوا نکال دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعی دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دھرم ہو تا ہے ۔اس لئے آج کے بعد آپ اپنی زبانوں پر لگام لگادو، اپنے سیاسی آقائوں کو خوش کرنے کے لئے کسی مذہب کو دہشت گردی کیساتھ جوڑنا ذہنی دیوالیہ پن ہے ۔لہٰذااب آپ یہ کھیل بند کرو ،آپ کی شر پسندانہ ذہنیت نہ جانے اور کیا کیا گل کھلائے گی ۔
مذہبی کارڈ کھیل کر سیاست کا بازار گرم کرنے والو!! تم اس وطن عزیز کے لئے اسی طرح ہو جس طرح جلیاں والا باغ کے لئے جنرل ڈائیر تھا۔ تمہیں اقتدار کی ہوس نے پاگل بنا دیا ہے ۔ تمہیں ہر عبدلعزیز اور ہر عبدالغفار دہشت گرد نظر آتا ہے کیونکہ تمہاری ذہنیت میں نفرتوں کا خون خول رہا ہے۔ مسلم دشمنی کی کتنی ہی شرمناک داستانیں آپ نے رقم کی ،یہی وجہ ہے آج مسلمان اپنی شناخت کے ساتھ بیرون ریاست جاتے ہیں تو شرپسندوں کے ہاتھوں خوب پٹتے ہیں ۔مودی بھگت انہیں دہشت گرد کہہ کر چھیڑتے ہیں ، رد عمل پر وہ موب لنچنگ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ آخر مسلمان جس نے ملک کی آزادی میں اپنا خون نچھاور کیا ہے ، اپنوں کو گنوایا ہے ،کب تک اپنی جان و مال کی امان چاہتے رہیں گے ، کب تک خوف و دہشت میں جیتے رہیں گے ؟
یاد رہے تمہارا یہ دیوالیہ پن ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آیاہے ،بلا شبہ تمہیں خون خرابے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،تمہیں تو بس اقتدار چاہیے اس کے لئے تمہیں مزید 40جوانوں کی بلیچڑھانے پڑے یا10 ابھی نندن کھونے پڑیں یا پھر جنگ ہی چھیڑنی پڑے تمہارا کیا جاتا ہے؟؟ تمہیں کرسی چاہیے کرسی !! تمہیں اُن مائوں کے کیا فکر؟ جن کے اکلوتے سہارے اُن سے چھن گئے، تمہیں اُن خواتین کا کیا غم جن کی ہنستی بستی زندگیاں اُجڑ گئیںاور وہ بیوہ ہو گئیں، تمہیں اُن معصوم بچوں کا کیا خیال جن کے سر سے سایہ اُٹھ گیا۔ آپ کے سامنے تو اُن کی اوقات محض ریلیف ہے جسے حاصل کرنے کے لئے انہیں آپ کے نام نہاد دفتروں کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔تم نے انتخابی ریلیوں میں پلوامہ حملے میں مارے گئے نوجوانوں کی تصویروں کو بطور ِانتخابی اشتہار استعمال کر کے اُن کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے، سیاست اتنی گر چکی ہے یہ آج ثابت کر دیا۔
ایمنسٹی انڈیا جس نے ہیٹ کرائم میں اتر پردیش کو اول ، گجرات کودوم ، راجستھان کوسوم ، تمل ناڈو کوچہارم اور بہار کو پانچویوں نمبر پر رکھا ہے اور اقوام متحدہ برائے انسانی حقوق نے جوآئینہ دکھایا ہے، وہ بالکل صاف ستھرا ہے۔اس لئے مودی صاحب کو بغیر جنگی جنون کے حقائق کے آئینہ میں آج کے ہندوستان کی تصویر دیکھنی چاہیے۔دل میں مسلمانوں کے تئیں پل رہی نفرتوں سے دل کے آئینہپرجو دھول جمی ہے اُس پر خلوص کی بارش برسانے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ اس لئے خلوص کی بارش سے کہہ دو کہ برس جائوتاکہ دل پر جمی نفرتوں کی دھول صاف ہو جائے ۔