شکریہ عمران خان!
عمران خان نے پاکستان پر ایک بڑا احسان یہ کیا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اس شک سے باہر نکال دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے رہبر ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ لفظ تبدیلی، عوامی سیاست کے میدان میں ادھورا یا مبہم سا ہے۔ تبدیلی۔ مگر کیسی تبدیلی؟ سیاسی نظام و ریاستی نظام کی تبدیلی؟ اُن کی سیاست ابھی تک یہ واضح کرنے سے مکمل طور پر قاصر رہی ہے۔ انہوں نے لفظ تبدیلی کو استعارہ کے طور پر استعمال کرکے عام لوگوں کو ایک مبہم صورتِ حال میں رکھا۔ اور اپنے انہی دعووں کے ساتھ انہوں نے احتجاج کو واحد ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ عام لوگوں تو کجا بڑے بڑے ’’اہل فکر‘‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والے اُن کو پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا ایک رہبر تصور اور پیش کرنے لگے۔ ایسا محسوس کرایا گیا کہ عمران خان، پاکستان کے نظام کو بدل کو کسی معاشی، انصافی، سماجی جنت میں بدل دیں گے۔ اس دوران وہ مکمل طور پر ایک واضح اور تفصیل سے نئے سیاسی، سماجی، معاشی اور عوامی نظام کا منشور دینے سے قاصر رہے۔ ہمارے جیسے لوگ بھلا کہاں ایسے ادھورے دعووں پر یقین کرتے، لیکن ایک بڑی تعداد ایک موہوم آسرے پر مکمل امید لگائے بیٹھی تھی۔ لیکن بھلا ہو عمران خان کا کہ انہوں نے اپنے ’’سیاسی عمل‘‘ سے اس موہوم امید کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔ وہ عمل اُن کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں اُن لوگوں کو شامل کرنا ہے جو ہر بدلتی حکومت میں سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں۔ ایسے میں جو لوگ موہوم امیدوں کے شکنجے میں تھے، یقینا اُن کے لیے اب واضح ہوجانا چاہیے کہ عمران خان کی سیاست میں تبدیلی سے کیا مطلب ہے، انہوں نے پے در پے تبدیلی کے اس نام نہاد سیاسی سفر میں جن لوگوں کو شامل کرنے کے لیے دن رات ایک کررکھے ہیں، وہ لوگ تو اس استحصالی نظام کی پیداوار اور محافظ ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک کوئی عوامی سیاسی فکر اہمیت نہیں رکھتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ لوگ اپنے انتخابی حلقوں میں راجواڑی نظام برقرار رکھنے کے فن سے آشنا ہوچکے ہیںکہ چالیس سے اسّی ہزار ووٹرز کو کیسے اپنے ساتھ جوڑے رکھنا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی اجتماعی تبدیلی کی فکر سے کوسوں دُور ہیں۔ صرف اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے والے کبھی بھی پورے سماج کی تبدیلی کا ہراول دستہ نہیں بن سکتے۔ یہ تو اس نظام کے محافظ ہیں جو کسان، مزدور اور محنت کش سے غلام کا سا سلوک کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس تک کے حقوق کی علمبرداری اُن کے ایجنڈے میں شامل ہے کیوںکہ مڈل کلاس ایسے نیم سرمایہ داری نظام کا اہم کل پرزہ ہوتی ہے۔ درحقیقت وہی تو ایسے فرسودہ نظاموں کے محافظ ہوتے ہیں۔
ہماری مڈل کلاس کا کسی صنعتی ملک کی مڈل کلاس سے موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا، جیسے ہمارا حکمران طبقہ کسی صنعتی جمہوریت سے بالکل مختلف ہے کہ وہاں کا سرمایہ دار بقول معروف اشتراکی دانشور ٹیڈ گرانٹ کے، ایک ایک قمیص بیچ کر بڑا سرمایہ دار بن جاتا ہے مگر ہمارا سرمایہ دار تو ریاست کے وسائل لوٹ کر سرمایہ دار اکٹھا کرتا ہے۔ اسی طرح ہماری مڈل کلاس بھی واقعی ایک نیم پڑھی لکھی مڈل کلاس ہے، اس کا سب سے بڑا خواب ملٹی نیشنل کارپوریشن کا غلام ہونا ہے۔ عمران خان اسی مڈل کلاس کے رہبر کے طور پر ابھرے ہیں جسے میں روزِاوّل سے کارپوریٹ مڈل کلاس قرار دیتا ہوں۔عمران خان کی تبدیلی کی سیاست کی معراج ہی مڈل کلاس ہے۔ اور وہ اپنے سیاسی عمل میں لگتا ہے شعوری طور پر ’’تبدیلی‘‘ کو مڈل کلاس تک رکھنا چاہتے ہیں، یعنی وہ خود بھی عملاً اسی نظام کو ٹھوک ٹھاک کر مرمت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی عوامی فکر کو عوام میں متعارف کروانے سے گریزاں ہیں۔ عوامی فکر کی بنیاد، نچلے طبقات، یعنی مزدور، کسان اور لوئر مڈل کلاس ہوتے ہیں۔ عمران خان بھی اس خوف کا شکار ہیں کہ اگر یہ طبقات بیدار ہوگئے تو پھر نظام ’’مسیحائوں‘‘ کے ہاتھوں سے نکل کر افتادگانِ خاک کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اس حوالے سے اُن کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اِن شکوک وشبہات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ وہ اسی نظام کو مرمت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
عمران خان کا سب سے بڑا دعویٰ عدلیہ کی بالا دستی رہا ہے۔ انہوں نے کبھی عوام کی بالادستی کی بات نہیں کی۔ وہ کسی ’’ریفری ‘‘کی انگلی کے منتظر رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی بیس کروڑ عوام کے چالیس کروڑ بازوئوں کو بلند کرنے کی بات نہیں کی۔ انہوں نے بس کرپشن کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا ہے۔ انہوں نے کبھی استحصال کی بات نہیں کی۔ محنت کش، کسان اور مزدور کا استحصال۔ اس کرپشن کی بھلا کیا حیثیت، جہاں ہر لمحہ محنت کش کا اربوں ڈالرز کا استحصال ہورہا ہے۔ اب جس رفتار سے اپنے ہاں جاری اس نظام کے محافظوں کو وہ اکٹھا کررہے ہیں، اس کے بعد بھی اگر کوئی اُن کی شکل میں مائوزے تنگ، لینن، ابراہام لنکن، کمال اتاترک یا کاسترو ڈھونڈ رہا ہے تو مسئلہ ایسا تصور کرنے والے کا ہے جو اُن کی شکل میں ایسے رہبروں کا متلاشی ہے، عمران خان کا مسئلہ نہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ کن کے دوست ہیں اور یہ کہ اُن کی جدوجہد کا ہراول دستہ کون لوگ ہیں۔ افسوس کہ انہوں نے ایک شان دار موقع کو اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت واقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے ان ساتھیوں کو پیچھے کرکے پاکستان میں تبدیلی کا کوئی معجزہ برپا کردیں گے تو یہ اُن کی بھول ہے۔ اُن کے اردگرد اکٹھے ہونے والے اُن سے کہیں زیادہ شاطر اور تجربہ کار ہیں۔ اقتدار، ایوان اور نظام سے کھیلنے کے دائوپیچ میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ عمران خان نے ایسے حالات جو سماج کے جدلیاتی عمل کے سبب بنے، اُن کو بنیادی سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کرنے سے شعوری طور پر گریز کیا۔ اس لیے کہ وہ اس عالمی سرمایہ داری کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں جو دنیا کی حکمران ہے۔ وہ حکمرانی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، عوامی آزادی کا نہیں۔ لیکن میں ذاتی طور پر ان کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے پچھلے ساڑھے چار سال کے سیاسی عمل سے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ان وسوسوں، شکوک اور شبہات سے باہر نکال دیا جو اُن کے اندر انقلاب کا رہبر دیکھ رہے تھے۔ شکریہ عمران خان صاحب۔
“