خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔
ہمارے محبوب وزیراعظم نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ ایسا فیصلہ جو قوم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کیلئے ازحد ضروری تھا۔ اگر خدانخواستہ (میرے منہ میں دھول‘ مٹی‘ کنکر) ‘ وہ یہ جرأت مندانہ اقدام نہ اٹھاتے تو آج پاس کی ایک لہر بحیرۂ عرب سے لیکر پامیر تک اور درہ خنجراب سے لیکر ماکلی کے تاریخی قبرستان تک چھا چکی ہوتی‘ ہمارا حال غرقاب ہو چکا ہوتا اور ہمارا مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہوتا۔
آپکا کیا خیال ہے‘ یہ عظیم فیصلہ کون سا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ بلوچستان کے بارے میں ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ یہ درست ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں۔ بغاوت کا عالم ہے۔ غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں صورتحال کو خراب تر کر رہی ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق زہر گھول رہی ہے‘ لیکن میں وزیراعظم کے جس بروقت فیصلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں‘ اسکا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔
تو کیا قبائلی علاقوں کا مسئلہ ہے؟ جسکے ضمن میں یہ انقلابی فیصلہ وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہوا ہے؟ قبائلی پٹی اتنی اہم ہو چکی ہے کہ لندن سے لیکر واشنگٹن تک‘ اس پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے‘ باسٹھ سال تک حکومت پاکستان قبائلی خوانین کو رشوتیں دیتی رہی۔ اب بھی قبائلی ممبران قومی اسمبلی نے سینٹ کے امیدواروں سے کروڑوں روپے لئے ہیں۔ باسٹھ سال … وہاں ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ عام آدمی کی طرف سے دیکھا تک نہیں گیا‘ اب لوگوں نے بندوقیں اٹھا لی ہیں اور حکومت پاکستان کے طرف دار خوانین کو یوں قتل کر دیا جاتا ہے جیسے وہ دشمن ہوں۔ افغانستان سے دراندازی ہو رہی ہے‘ امریکی ڈرون حملوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ہمارے صدر وہاں تشریف لے جاتے ہیں نہ وزیراعظم وہاں کا دورہ کرتے ہیں‘ قبائلی علاقوں سے اٹھتا ہوا کالا دھواں متقاضی ہے کہ وزیراعظم وہاں کے بارے میں اہم فیصلے کریں لیکن یہ فیصلہ جو وزیراعظم نے دو دن پہلے کیا ہے اور عظیم الشان ہے‘ قبائلی علاقوں کے بارے میں نہیں ہے۔
آپ کا یعنی یہ کالم پڑھنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ خواتین و حضرات خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے‘ آپ نے اس کالم کا پہلا فقرہ (خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا) پڑھا‘ آپ اپنی سوچ کی خوبصورت طلسمی قالین پر بیٹھے اور قالین اڑاتے ہوئے سوات پہنچ گئے۔ آپ نے سوچا کہ سوات کے ناسور سے جو پیپ بہہ رہی ہے‘ وزیراعظم نے اسکی طرف دھیان دیا ہو گا‘ وہاں کا عالم یہ ہے کہ مینگورہ پر طالبان قابض ہیں‘ فوج عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کیلئے جانوں کی قربانی دے رہی ہے۔ لاکھوں عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے‘ نہتے جوان‘ مہاجر کیمپوں میں پڑے ہیں۔ ہزاروں ان کیمپوں کی طرف لٹے پٹے آ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ذہن میں فرض کر لیا کہ وزیراعظم نے یقیناً سوات کے آتش فشاں کو خاموش رکھنے کیلئے کوئی فیصلہ کیا ہو گا لیکن ایسا نہیں‘ آپ جس قدر سرعت سے خوابوں کی دنیا کو خیرآباد کہہ دیں‘ اتنا ہی آپ کے حق میں بہتر ہے۔
اس ملک میں نظام تعلیم جنگل کا منظر پیش کر رہا ہے‘ کہیں او لیول اور اے لیول کے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں‘ کہیں عام سرکاری سکولوں کا جھاڑ جھنکار ہے جو پا برہنہ بچے اپنی عمروں کے ساتھ چن رہے ہیں‘ کہیں مدرسوں کے کٹے پھٹے ندی نالے ہیں جن میں ’’پڑھنے‘‘ والے طلبہ کی اکثریت‘ قلاش ترین طبقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں جس فیصلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں‘ آپ اسے نظام تعلیم میں انقلاب کی نوید سمجھ رہے ہیں؟ نہیں‘ ہرگز ایسا نہیں‘ گمان غالب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم نے مسند حکومت پر متمکن ہونے کے بعد ابھی تک اس بکھیڑے کی طرف اپنی گرانقدر توجہ کی مبذول نہیں کی۔ یوں بھی پاکستانی اہل سیاست تعلیم و تعلم کی سطح سے بلند تر ہیں۔ بس ہر سیاسی پارٹی میں ایک آدھ پڑھا لکھا شخص کافی ہوتا ہے جو ’’مُنشیانہ‘‘ قسم کے کام سرانجام دیتا ہے۔ ایک آدھ اعتزاز احسن‘ ایک آدھ مشاہد حسین اور ایک آدھ صدیق الفاروق یا احسن اقبال‘ باقی ہر طرف سبزہ ہے اور گلزار ہے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
خوابوں میں رہنے والے کچھ خوش فہم اس قسم کی بے معنی باتیں کرتے بھی پائے گئے ہیں کہ بھارت میں 1951ء ہی میں زرعی اصلاحات نافذ کر دی گئی تھیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارتی پنجاب جو رقبے میں کم ہے‘ ہمارے پنجاب سے کہیں زیادہ اناج پیدا کر رہا ہے‘ چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہاں بھی زرعی اصلاحات لائی جائیں اور سرداروں اور جاگیرداروں کو رخصت کیا جائے‘ جب میں نے کہا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا تو ان خوش فہم حضرات کا ذہن طلسمی گھوڑے پر بیٹھ کر اس طرف چلا گیا لیکن نہیں! ابھی باسٹھ سال ہی تو ہوئے ہیں‘ کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا‘ میرا اشارہ ہرگز زرعی اصلاحات کی طرف نہیں۔
خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔
ہمارے وزیراعظم نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ قوم کے بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ عورتیں‘ وہ بھی جو ضعف کے مارے لاٹھی ٹیک کر چلتے ہیں اور وہ بھی جو لڑکپن میں ہیں اور چھلانگیں لگاتے ہیں‘ سب کی جان میں جان آئی‘ ہوا رکی ہوئی تھی‘ چلنے لگی‘ پرندے پتھرا گئے تھے‘ چہچہانے لگے‘ درختوں پر بُور آ گیا‘ ریوڑوں میں خراماں خراماں چلتے مویشیوں کے گلوں میں گھنٹیاں یوں بجنے لگیں جیسے دور کے دیس سے قافلے آئے ہوں اور اطلس و کم خواب کے تھان‘ ترکی گھوڑے اور دمشق کے انجیر لائے ہوں۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے وزیراعظم سے یہ بروقت فیصلہ کروایا اور ہماری عزت رہ گئی‘ بین الاقوامی صورتحال لمحہ بہ لمحہ بگڑ رہی تھی۔ دنیا بھر کی نظریں اس مسئلہ پر لگی تھیں‘ ٹوکیو سے لیکر نیویارک تک اور ماسکو سے لیکر سڈنی تک پھیلے ہوئے سٹاک ایکس چینج اسلام آباد کی شاہراہ دستور کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سمندروں میں سفر کرتی بحری رویں ٹھہر گئی تھیں‘ بحر اوقیانوس میں بحری جہاز ڈگمگانے لگے تھے‘ بحرالکاہل میں پڑے ہوئے فِجی اور ہوائی کے جزیرے ایک نئے سونامی سے خوفزدہ ہو رہے تھے‘ من موہن سنگھ تھا یا ابامہ‘ سعودی بادشاہ تھا یا جرمنی کی چانسلر… سب بار بار گھڑی دیکھتے تھے اور اپنے معاونین سے پوچھتے تھے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اس سلگتے مسئلے کو سلجھایا ہے یا نہیں؟ فرشتے خلاؤں میں پَر پھڑپھڑاتے تھے اور بے تابی میں پہلے آسمان سے ساتویں تک اور واپس ساتویں سے پہلے کی طرف آتے تھے۔ پرندے اور جانور بھانپ گئے تھے کہ کچھ ہونیوالا ہے اور اگر اب بھی نہ ہوا تو افق افق اندھیرے چھا جائیں گے اور آندھیاں زمین و آسمان کے درمیان اس طرح چلیں گی کہ سورج کی شعاع اور چاند کی کرن کرۂ ارض تک نہیں پہنچ پائے گی۔
خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ روزنامہ نوائے وقت کی خبر کیمطابق جناب وزیراعظم نے وفاقی وزیر سیاحت کو قواعد و ضوابط میں ’’نرمی‘‘ کر کے پراڈو (بڑی گاڑی) استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس سلسلہ میں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کو لکھا تھا کہ پراڈو گاڑی پرتعیش گاڑیوں کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا یہ گاڑی کسی وزیر کا استحقاق نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے (جو منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے) وزیر صاحب کے زیراستعمال پراڈو گاڑی واپس لینے کی ہدایات دی تھیں جس کے بعد یہ گاڑی واپس لے لی گئی تھی لیکن اب وزیراعظم نے کابینہ ڈویژن کے مشورے کو رد کرتے ہوئے اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ الحمدللہ۔
ظاہر ہے کہ جناب وزیراعظم قانون کی خلاف ورزی کا اور کسی کے ذاتی مفاد کیلئے قانون کو بالائے طاق رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ لیکن جو نازک ملکی اور بین الاقوامی صورتحال اوپر بیان کی گئی ہے‘ اسکے پیش نظر ملکی مفاد میں وزیراعظم کو ایسا کرنا پڑا۔
http://columns.izharulhaq.net/2009_05_01_archive.html
“