شکر کیا ہے ۔ہم انسان ہیں یہ اللہ کا شکر ہے،مسلمان ہیں یہ بھی شکر ہے،اور سب سے بڑی بات اشرفالمخلو قات ہیں۔ یعنی دنیا میں جو بھی مخلوق خدا نے پیدا کی انسان سب سے افضل مخلوق ہے۔ یہ تو سب سے زیادہ شکر ہے اس پاک ذات کا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم کوئی کمی محسوس کرتے ہیں۔ جیسے ابھی تھوڑا اور مل جاتا تب بہتر تھ۔ا یہ سوچے بغیر کہ جو مل گیا ہے کیا ہم اس کے لیے بھی اہل تھے یا نہیں۔
وجہ یہی ہے کہ انسان اصل میں ناشکرہ ہے۔ وہ اپنی قابلیت پر یقین رکھنے کی بجاۓ دوسروں کی نعمتوں پر نظر رکھتا ہے۔ جب خود کو چھوڑ کر دوسروں کی نعمتوں کو گنوانا شروع کرتا ہے تو اپنا سکون ختم کر دیتا ہے ۔اگر اس حقیقت کو قبول کر لیں کہ جو ہمارے پاس ہے وہی ہمیں بہت ہے اور اسی پر توجہ دے کر اور خود کو تراش کر ایک قیمتی ہیرا بننا سکتےہیں ۔
ہر انسان کی صلاحتیں اور نعمتیں ایک سی نہیں ہوتیں۔ مثلاً کوئی خوبصورت ہوتے ہیں تو کوئی بد صورت لیکن با اخلاق اسی طرح کوئی بولنے میں مہارت رکھتے ہیں تو کوئی اپنے بہترین سوچ کے دھارے میں دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں،کوئی کاروباری معاملات مطلب (بزنس ڈیلنگ) میں مہارت رکھتے ہیں ،کوئی اپنی صلاحیت کو جان کر اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور کسی پر انکشاف ہی نہیں ہوتا کہ وہ اصل میں ہیں کتنے قابل ہیں ۔کوئی صرف خواب دیکھتے ہیں اور چند ایک اپنے خوابوں کو سچائی کا رنگ دیتے ہیں۔ نتیجہ کیا ہے ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے فرق ہے تو حقیقت کو قبول کرنے کا۔
ہم میں سے اکثر اپنی صلاحیتوں کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ فلاں نے بہت اچھا کام کیا،فلاں اچھی پوسٹ پر ہے یا فلاں بہت ذہین ہے اسی لیے اچھے مقام پر ہے۔
اسی سوچ کے پردے نے انسان کو اپنی نعمتوں پر عذر کرنے اور ان پر شکر کرنے سے دور کر دیا ہے۔ہمارے پاس گھر،گھر والے،خاندان،رشتے دار ،دوست احباب ،ماں باپ،بہن بھائی سب کچھ ہے۔ لیکن ان نعمتوں پر خوش ہونے کی بجاۓ۔ دوسروں پر بھروسہ کرنے والے بن گۓ ہیں۔جن کے پاس والدین نہیں ان سے والدین کی قیمت کا اندازہ لگائیں۔
ہم اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتے ہیں لیکن خود سے نیچے والوں کو نہیں دیکھتے۔ اگر ہمارے پاس گاڑی ہے تو سائیکل والوں سے گاڑی کی قیمت پوچھیں یا پھر پیدل چلنے والوں سے سائیکل کی اوقات پوچھیں۔بلکہ ہم اس سے زیادہ اچھی گاڑی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
اسی طرح اپنا گھر ہے تو اس پر شکر کی قیمت ان سے پوچھیں جو کراۓ کے گھر میں رہتے ہیں۔ آخر کب تک اپنے آ پ سے ناخوش اور اداس رہیں گے۔
وقت تیزی سے گزررہا ہے اور کب اپنی تیزی میں ہمیں بہا لے جاۓ۔ کوئ پتہ نہیں اس لیے ضروری ہے اپنی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہیں۔ آپ کے پاس اگر کچھ نہیں ہے لیکن دو آ نکھیں ،دو ہاتھ،دو پاؤں ہیں ساتھ ساتھ تندرست بھی ہیں تو یقین جانیۓ دنیا کی سب طاقتیں آپ ہی کے تو پاس ہیں۔ آپ کے پاس پیسہ ہو لیکن چلنے کے قابل نہ ہوں،اسی طرح جوانی ہو لیکن خدانخواستہ بینائی سے محروم ہو جائیں تو اس جوانی کا کیا کریں گے۔
بات کا مقصد یہ ہے کہ اپنی نعمتوں کو جانیۓ ان پر شکر ادا کریں۔ مالک نے آپ کو موسموں کی بہاریں دی ہیں۔ پھل،سبزیاں،اناج دیا ہے۔ اسی طرح روشنی دن اور رات دیا ہے تو ان سب نعمتوں سے فائدہ اٹھانا آپ کا کام ہے کہ کیسے اپنا پسندیدہ نام اور مقام بنا کر خوش رہ سکتے ہیں۔
مختصر کرتے ہیں کہ اپنے وقت ،شعور،علم و عقل کا بہترین استعمال کر کے خوشگوار زندگی کا آغاز کریں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...