احمد فراز کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے اردو کے شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، اور ماہر تعلیم شجاعت علی راہی 3 جنوری 1945 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ انکی مادری زبان فارسی ہے۔ انہوں نے کیڈٹ کالج کوہاٹ سے پڑھانے کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم اے انگریزی ڈھاکہ یونیورسٹی سے کیا۔ اور اپنی قابلیت سے برطانیہ اور جرمنی میں سکالرشپ پر تعلیم حاصل کی اور تعلیم کے بعد درس وتدریس کرنے لگ گئے اور اس سلسلے میں وہ انگریزی زبان کے مدرس کے طور پر لندن اور جدہ میں ملازمت کرتے رہے۔ بعد ازاں پاکستان میں کئی کالجوں کے پرنسپل بھی رہے اور کوہاٹ یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے صدر بھی رہے۔ بعد میں پاکستان ٹیلی وژن راولپنڈی کے پروڈیوسر بھی رہے۔ شجاعت علی راہی لگ بھگ دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ انکی کی طبع شدہ کتابوں میں پانچ شعری مجموعے شامل ہیں جن میں "چراغ گل نہ کرو"(جسے عبدالرب نشتر ایوارڈ حاصل ہوا)، "نور علیٰ نور"( جو کہ مذہبی شاعری پر مشتمل ہے)،" ہجرتِ مسلسل"، "برف کی رگیں"( جسے اباسین ایوارڈ کا شرف حاصل ہوا) اور "پھول کِھلے یا نہ کِھلے" شامل ہیں۔ بنیادی طور پر شجاعت علی راہی اردو کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے انگریزی فارسی اور ہندکو زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ شجاعت علی راہی نے افسانے بھی لکھے ہیں۔ انکے افسانوں کا مجموعہ بھی شایع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں، انہوں نے نہ صرف بچوں کیلئے شاعری کی بلکہ بچوں کے لئے کہانیاں اور ناول بھی لکھے۔ بچوں کیلئے انکی مشہور کتابوں میں باغی چیونٹیاں‘‘ نامی ناول جو انھوں نے چیونٹیوں کی عادات و اطور اور جبلت پر تحقیق کرکے لکھی ہے۔ ’تتلیوں کا میلہ‘‘ بھی تتلیوں کی پراسرار زندگی سے متعلق ہے۔ ’’ڈائنا سور کیوں غائب ہوگئے، مشہور ہیں۔ شجاعت علی راہی نے انگریزی The State of Bonded Labor in Pakistan کتاب تحریر کی، جس میں پاکستان میں مزدوروں کے تلخ حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان کی دو جامعات میں ان کی شخصیت اور فن پر ایم اے اور ایم فل کے تحقیقی مقالے تحریر کئے جا چکے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے نغمہ نگاری بھی کی ان کے نغموں کو خورشید بیگم، اخلاق احمد، مہناز بیگم، اور کمار سانو جیسے مشہور اور گلو کار گا چکے ہیں۔ ان کی شاعری کے بارے میں فارغ بخاری مرحوم نے لکھا ہے ’’راہی کی غزل میں غزل کے تمام اوصاف ملتے ہیں۔ زیر لب گنگنانے کی کیفیت، مہذب لہجہ، نزاکت اور حلاوت، جہاں گرد انسان، ایک ثقہ شاعر…
شجاعت علی راہی کو انکے ادبی خدمات پر اباسین آرٹس کونسل کے دو ادبی ایوارڈ، شریف کنجاہی ایوارڈ، نشانِ سپاس جدہ اور دیگر اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ادبی دنیا میں احمد فراز ان کے قریبی دوست رہے ہیں۔ شجاعت علی راہی سیر و سیاحت کے بھی شوقین ہیں وہ دنیا کے ڈیڑھ درجن ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں۔ اور اجکل مستقبل طور بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں مقیم ہیں۔
ہم رب باری تعالیٰ سے شجاعت علی راہی کی لمبی زندگی کیلئے دعا گو ہیں۔
شجاعت علی راہی نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
مری حیات گھٹا، میرے فن کی عمر بڑھا
مرے خدا، مجھے لمحے نہ دے زمانے دے
………………
قتیل ہو کے بھی میں اپنے قاتلوں سے لڑا
کہ میرے بعد مرے دوستوں کی باری تھی
……………
تب سے سویا ہی نہیں جب سے یہ جاگا ہوا ہے
اک عجب شوق مرے درد نے پالا ہوا ہے
جانے کیا کیا یہ گنواتا ہوا تیرا ہوا ہے
یہ جو اک شخص تری راه میں بیٹھا ہوا ہے
کل یہ مت کہنا کہ یہ آج تجھے کیا ہوا ہے
یہ تو وه فن ہے جو تیرا ہی سکھایا ہوا ہے
تم نے پھر آج وہی زخم کریدا ہوا ہے!
وه تو اک حادثہ تها، ہو گیا، اب کیا ہوا ہے
دل سے کیا کرنا ہے یہ تم پہ ہی چھوڑا ہوا ہے
ہم نے بیچا ہوا ہے، تم نے خریدا ہوا ہے
اور اب آپ یہ کہتے ہیں کرو اور بھی صبر
بڑی مشکل سے یہاں دل کو سنبهالا ہوا ہے
اس نے جو فیصلہ کرنا تھا وه کر بیٹھا ہے
اب میں کیا بولوں، وه پہلے ہی سے سمجھا ہوا ہے
یہ جو سنسار ہے آج اس کا تو کل اس کا ہے
نہ تمہارا ہوا ہے اور نہ ہمارا ہوا ہے
تم جسے روگ سمجھتے ہو، زمانے والو!
ہم نے یہ درد تو دل دے کے خریدا ہوا ہے
جانے کیا کیا ہوا ہے اس دل بے چاره کے ساتھ
کبھی ایسا ہوا ہے اور کبھی ویسا ہواہے
جو بھی بیتی ہے وه کس کس کو بتائیں کیا کیا
جب بھی، جو بهی ہوا، جیسا ہوا، اچها ہوا ہے
ہم بہت خوش تھے کہ ہر لفظ ہمارا ہے بلیغ
اور وه بولے کہ یہ کیسا تماشا ہوا ہے
………………
تمام شہر ہے اک روشنی میں ڈوبا ہوا
اندھیرے پھر بھی بدن سے لپٹتے رہتے ہیں
عمر بڑھتی ہے تو کچھ اور بھی گھٹ جاتی ہے
جتنا پھیلاؤ اسے اور سمٹ جاتی ہے
بس بہت ہے دکھوں کا یہ انبار
باقی لادوں گا اگلے پھیرے میں
…………………
دونوں اندر سے تھے سر سے پاؤں تک ٹوٹے ہوئے
رو پڑے اک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہوئے
سر اٹھاتا ہے کوئی غم تو میں کرتا نہیں غم
دل سمندر ہے اسے دل میں ڈبو دیتا ہوں
اسے بھی درد کے انبار کو ڈھونا تو پڑتا ہے
بہادر آدمی کو بھی کبھی رونا تو پڑتا ہے
…………………
خلقت بہت تهی صاحب اسرار کون تها
آنکھیں بہت تھیں دیدهء بیدار کون تھا
اس قافلے کا قافله سالار کون تھا
سردار کون یعنی سر. دار کون تها
تم کو ہے کد که صاحب دستار کون تها
ہم کو یه ضد که یار طرحدار کون تها
وه تم سا خوش مقال وخوش اطوار کون تها
تم بهی نه تهے تو حاشیه بردار کون تھا
کشکول سارے شهر کے تم کو تھما دیئے
ہم جانتے تھے تم سا طلبگار کون تھا
تھی ایک نفسا نفسی ہمیں کون پوچھتا
اس کی گلی میں اتنا روادار کون تھا
تھا زرد کس کا چهره لہو کون لے اڑا
پھل کس نے کھاۓ اور یہاں بیمار کون تھا
یه تو نه تھا که بھیڑ نه تھی شور و شر نه تھا
لیکن بتاو ہم سا خریدار کون تھا
ہم نے یه کب کہا پس دیوار آپ تھے
ہم نے تو یه کہا پس دیوار کون تھا
………………
روز بازار سے لاتاہوں نئے نام کے زخم
اور پھر گنتا ہوں ہر شب دل ناکام کے زخم
صبح کے رنگ تجھے بھاتےہیں یا شام کے رنگ
صبج کے رنگ دکھاؤں که تجھے شام کے ر نگ
مجھ غزل کار کے کیسے میں ہے ھر رنگ کا دکھ
آج پھر میلے سے لایا ہوں بڑے کام کے زخم
پیلے پھولوں سے مزین ہے املتاس کا پیڑ
جیسے پهیلےہوں کسی عاشق ناکام کے زخم
توڑلایاہوں ترے واسطےہر شهر کا پھول
اے گل اندام! کہاں ہیں مرے انعام کے زخم
کربلا! بهول تو جاؤں میں ترے سارے دکھ
مگر اس شہر بد آھنگ کے ، وه شام کے زخم!
تیری صغرا کو دکهاؤں که سکینه کو دکھاؤں
شاه بانو! میں ترے اصغر گلفام کے زخم
ہاۓ مولا! وه ترا پیاروں کی لاشیں ڈهونا
ہاۓ زینب! تری جلتی ہوئی اس شام کے زخم
بھاگتے بچوں کے دامن سے لپٹتے شعلے
اور خیموں میں وه بڑھتےہوۓ کہرام کے زخم
پهر وہی ہم ہیں ، وہی عالم رسوائی ہے
پھر ہیں مائل به نمائش دل بدنام کے زخم
کتنا خوش بخت ہوں سب پهول مرے اس کو ملے
اور مرے حصے میں آۓ مرے ہم نام کے زخم
زخم سب بھر گئے جتنے بھی تھے رفته رفته
بھول پاۓ نه ترے شہر گل اندام کے زخم
جب کڑے دکھ کی کثافت سے جھکا جاتا تھا
چھان کر رکھ لئے اس دل نے ان ایام کے زخم
لوٹ کر آئے ھیں اس دشت بلا سے ہم لوگ
ہم سے جب چاہو تو لے جاو ہر اک دام کے زخم
………………
میں اب بھی ڈھونڈتا رہتا ہوں ہے کہاں مری ماں
پکار اٹھتا ہوں ہر غم میں اب بھی ماں، مری ماں
اسی کے دم سے تھی جتنی بھی تھی توانائی
وه استخوان کی اک مشت ناتواں مری ماں
پرندے لوٹتے ہیں شام کو تو سوچتا ہوں
وه دن بھی تھے که مرا بھی تھا آشیاں، مری ماں
وہیں وہیں ہے مرا دل، وہیں وہیں مری جاں
جہا ں جہاں غم جاناں، جهاں جہاں مری ماں
ھر اک کرن میں ہے روشن اسی کا اشک کوئی
ہر ایک شمع میں گھلتی ہے شمع ساں مری ماں
سریلی کونجوں سے اور شبنمی ستاروں سے
پکارتی ہے مسلسل کراں کراں مری ماں
انہی نقوش قدم میں ہے کہکشاں میری
مری بہشت ہے، ہے میرا آسماں مری ماں
…………
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔