‘امریکی حکومتی کنٹریکٹر’ جس کا جنرل مائیکل ہیڈن نے (ٹائم میگزین میں جنرل پاشا کے لئے لکھے گئے) اپنے مضمون میں کیا تھا وہ چھتّیس (36) سالہ ریمنڈ ڈیوس تھا جس نے 27 جنوری، 2011 کو پُر ہجوم صوبائی دارالحکومت میں دو افراد کو قتل کیا اور اخبارات کی زینت بنا۔ ڈیوس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اُس نے ایسا اپنے بچاؤ کے لئے کیا تھا، جس کے بعد اُس کو لاہور میں مقدمہ چلانے کے لئے قید رکھا گیا۔ اس دوران امریکہ اور پاکستان کے درمیان ڈیوس کے پاکستان میں کام کرنے کے حوالے سے کشیدگی رہی۔ اُس کو ایک مُشتبہ سودا بازی، جس میں مارے جانے والے افراد کے اہلِخانہ کو ‘خوں بہا’ کی ادائیگی کی گئی تھی، کے بعد 16 مارچ، 2011 کو رہا کردیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کی کہانی اُن بہت سارے کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کرائے کے جاسوسوں کی دلچسپ کہانیوں میں سے ایک ہے جو حب الوطنی اور پیسہ کمانے کے جذبے کے تحت امریکہ کی بیرونِ ملک جنگوں میں باقائدہ سپاہیوں کے علاوہ حصّہ لیتے ہیں۔
امریکہ کی ایک سرکردہ ایمپلائمنٹ ایجنسی کے مطابق یو ایس اسپیشل فورس کے ایک سپاہی کی اوسط آمدنی 67,326$ سالانہ ہے۔ 2006 کی امریکی کانگریس کی ایک ریسرچ سروس رپورٹ کے مطابق ایک امریکی سپاہی کو عراق میں فیلڈ میں رکھنے کا خرچہ تقریباً 400,000$ سالانہ ہے جبکہ بعد میں یہ اعداد و شمار 600,000$ سے 1.3$ ملّین ڈالر سالانہ تک پہنچ گئے۔ جبکہ یہی کا اگر سویلین کنٹریکٹ رش سے لیا جائے تو 200,000$ یا اُس سے کم خرچہ آئے گا ( The Contractor, p.23)۔
ریمیُڈ ڈیوس جنوب مغربی ورجینیا کے ایک چھوٹے قصبے بگ اسٹون گیپ میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد کا تعلق کان کنی سے تھا جس میں کام کے دوران ایک 700-lb وزنی پتھر نے اُس کی کمر کو تین جگہ سے توڑ دیا تھا۔ اپنی گریجویشن کے بعد اُس نے میرینز میں جانے کی کوشش کی ناکام کوشش کی تھی۔ ایک آرمی ریکروٹر جس نے اُس کا امتحان لیا تھا اُس کو تجویز کیا کہ وہ آرمی فیلڈ میڈک بن جائے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اُس نے فورٹ بیننگ، جارجیا تربیت حاصل کرنے کے لئے جانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ کوئی چار سال بعد وہ تربیت حاصل کر کے ایلیٹ اسپیشل فورسز کا حصّہ بنا لیکن پھیپھڑوں کو لگنے والی ایک چوٹ نے اُسے ڈس ایبلٹی کی عارضی فہرست پر آنے پر مجبور کردیا۔ اُس کے بعد وہ اپنی گرل فرینڈ ربیکا کے ساتھ لیکسنگٹن، کینٹکی آگیا جہاں اُس نے ایسٹرن کینٹکی یونیورسٹی میں ‘Asset Protection and Security’ کے کورس میں داخلہ لیا۔ جب وہ صحتیاب ہوا تو اسپیشل فورسز اُس کو واپس لینا نہیں چاہتے تھے۔
ڈیوس کی پہلی بیرونِ ملک اسائنمنٹ 2004 میں امریکی حکومت کی ایک بڑی کانٹریکٹر ڈائن کارپ (DynCorp) انٹرنیشنل کے ساتھ افغانستان میں تھی جہاں دوسری چیزوں کے علاوہ صدر حامد کرزئی کے حفاظتی دستے کے ساتھ کام کرنا بھی تھا جس کے لئے اُسے 600$ ایک دن کے ادا کئے جاتے تھے۔ وہاں اُس کو “Crossbones” کہا جانے لگا۔ اُس نے 2009-20011 کے عرصے کے دوران امریکی قونصل خانہ پشاور، امریکی سفارتخانہ اسلام آباد اور پھر آخر میں امریکی قونصل خانہ لاہور کے لئے بطور سیکورٹی کانٹریکٹر کام کیا۔
ریمنڈ ڈیوس کو شروع میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ نے2008 میں کم مُدّت کا ویزا پاسپورٹ نمبر 910013853 پر جاری کیا تھا۔ یہ ایک سنگل انٹری تین مہینے کی مُدّت کا ویزا تھا۔ حسین حقّانی نے مجھ (شجاع نواز) سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویزا اُن کی بطور سفیر تعیناتی سے پہلے جاری کیا گیا تھا۔ اُس کے ویزا کی آخری مرتبہ تجدید اسلام آباد میں کی گئی۔ جب جنوری 2011 میں اُس کا کیس سامنے آیا تو ریکارڈ چیک کرنے پر اُس کی ویزا کی درخواست نہیں ملی۔ میرے استفسار پر واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ نے تصدیق کی کہ پانچ سال سے زیادہ کا پیپر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا لیکن کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا موجود رہتا ہے۔ حسین حقّانی نے مزید بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو مختلف پاسپورٹ پر سفر کیا تھا اور اُس کو جو پہلا ویزا 2008 میں الگ پاسپورٹ پر دیا گیا تھا۔ اُس کو 14 جون، 2010 کو پاسپورٹ نمبر 910105240 پر دو سال کی مُدّت کا آفیشل ملٹیپل انٹری ویزا دیا گیا۔ یہ پاسپورٹ 2008 والے پاسپورٹ سے مختلف تھا۔ یہ ویزا واشنگٹن کے پاکستان کے سفارتخانہ کی بجائے حکومتَ پاکستان کی طرف سے اسلام آباد سے جاری کیا گیا تھا۔ ممکنہ طور پر ریمنڈ ڈیوس واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ سے پہلی مرتبہ ویزا حاصل کرنے کے بعد اپنے ویزا کا اجرا یا تجدید وزارتِ داخلہ سے کرواتا رہا ہو اور وزارتِ داخلہ اُس کے مختلف پاسپورٹ کے استعمال کو پکڑنے میں ناکام رہی ہو۔
ایک اور ویزا (ریمنڈ ڈیوس کو) 15ستمبر 2009 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ کی جانب سے جاری کیا گیا جو سنگل وزٹ کے لئے تھا اور جس کی مُدّت 15 دسمبر 2009 کو ختم ہو رہی تھی۔ اس ویزا میں وہی پاسپورٹ استعمال کیا گیا تھا جس پر غالباً اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ سے دو سالہ مُدّت کا ویزا حاصل کیا گیا تھا۔ اُسی پاسپورٹ میں ایک صفحہ یہ بتاتا ہے کہ وہ 18اکتوبر، 2009 کو پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ وہ 15 دسمبر، 2010 کو پاکستان سے باہر گیا۔ واضح طور پر امریکی وہ کر رہے تھے جو وہ بہتر طور پر کرتے تھے۔ وہ ایک ذریعہ استعمال کرتے تھے اور اگر اُس میں ناکام ہوجاتے تھے تو دوسرا ذریعہ استعمال میں لاتے تھے۔
پاکستان بدستور (اس معاملے میں) ایک تقسیم شدہ ملک تھا۔ سویلین اور ملٹری (اداروں) میں بڑھتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کے لئے آنے والے اہلکاروں کے معاملے سے نمٹنے کے لیے ہم آہنگی کا فقدان تھا۔ امریکیوں کو ویزا میں سہولت فراہم کرنے کے پاکستان کے وزیرِ اعظم نے ‘امریکی سرکاری اہلکاروں کے لئے موجود ویزا پالیسی’ کا ایک خفیہ میمورینڈم جس کی کاپی سیکریٹری فاضلہ کو بھی بھیجی گئی تھی، اعادہ کیا۔ اس پالیسی کے تحت،
….(امریکہ میں موجود پاکستانی) سفیر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ امریکی سرکاری اہلکاروں کو محدود مُدّت کے لئے ویزوں کا اجراء کرے جن کی سفارش متعلقہ امریکی اتھارٹی یعنی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جس میں فارم پر واضح طور پر پاکستان سفر کرنے کے مقصد کا اشارہ دیا گیا ہو۔
اس سے آگے بڑھ کر وزیرِ اعظم نے فیصلہ کیا کہ واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفیر کو پاکستانی سیکورٹی اداروں سے مشاورت کئے بنا ہی امریکی سرکاری اہلکاروں کو ایک سال کی مُدّت کا ویزہ دینے کا اختیار فوری طور پر دے دیا جائے۔ پاکستانی سفیر کو ہدایت دی گئی کہ آنے والوں کی منزل اسلام آباد میں وزیرِ اعظم کا دفتر بتائی جائے۔ اس طرح سے آئی ایس آئی اور جےسی ایس سے مشاورت کے عمل کو بائی پاس کیا گیا۔ لیکن ایسا بلاشبہ ریمنڈ ڈیوس کو پہلی دفع واشنگٹن ڈی سی میں ویزہ جاری کرنے کے ایک مہینے بعد کیا گیا۔
اُسی پاسپورٹ پر ریمنڈ ڈیوس 14 اگست، 2010 کو پاکستان میں داخل ہوا اور 31 اگست، 2010 کو واپس گیا، پھر 26 ستمبر، 2010 کو دوبارہ پاکستان آیا اور 15دسمبر، 2010 کو واپس گیا اور بالآخر 20 جنوری، 2011 کو اُس واقعہ سے ایک ہفتہ پہلے دوبارہ پاکستان واپس آیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے اس طرح بار بار مختصر مُدّت کے لئے آنے جانے کے بارے میں واشنگٹن کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں ہے۔
پاکستان کے نویں اور آخری دورے کے دوران ریمنڈ ڈیوس لاہور کے اسکاچ کارنر میں واقع امریکی قونصل خانہ کے گیسٹ ہاؤس، جو کینال بنک روڈ کے نزدیک اور ایچیسن کالج سے پہلے واقع ہے، سے نکلا جہاں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہائش پزیر تھا۔ اُس کے اپنے الفاظ میں “اُس روٹ کا سروے کرنے کے لئے جو مجھے تین دن بعد لینا تھا” کے لئے وہ شہر میں نکلا۔ وہ مال روڈ پر نکلا، جو ملٹری کنٹونمنٹ کو شہر کے مرکز سے جوڑتی ہے، پھر وہاں سے جیل روڈ کی طرف جو فیروزپور روڈ کی طرف جاتی ہے۔ مزنگ چوک کے نزدیک جو ایک بڑا انٹرسیکشن ہے وہ ہیوی ٹریفک کی وجہ سے رک گیا۔ کچھ منٹ بعد، وہ کہتا ہے، اُس کے دس فٹ کے فاصلے پر ایک موٹر سائیکل آکر رُکی۔ اُس پر دو جوان سوار تھے جن کی شناخت بعد میں فیضان حیدر(ڈرائیور)، اور محمّد فہیم( سواری) کے طور پر ہوئی۔ ریمنڈ ڈیوس نے یاد کیا کہ اُس نے فہیم کو (اپنی جانب) مُڑتے کمر کی جانب سے پستول نکالتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی ڈیوس (اپنی ٹریننگ) کی وجہ سے چوکنّا ہوگیا۔ “جیسے ہی میں نے پستول کا رخ اپنی جانب ہوتا ہوا دیکھا، میں نے اپنی سیٹ بیلٹ کھولی اور اپنی شرٹ کے نیچے کمر کا پاس لگی ہوئی گن نکالنی شروع کی،” ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں واقعہ کے بارے میں لکھا۔ اُس نے اپنی نئی گن، Glock-17 سنبھالی اور گاڑی میں ہی بیٹھے بیٹھے ونڈ اسکرین کے اندر سے ہی فائرنگ شروع کردی اور فہیم اور حیدر کا چند سیکنڈوں میں ہی مار دیا۔ پھر اُس نے اپنی گن ہولسٹر میں واپس رکھی، گاڑی سے باہر نکلا، اپنا کیمرہ باہر نکالا اور اُن دونوں کی تصویریں لینی شروع کردی۔ وہ کہتا ہے کہ وہ بھاگا نہیں کہ آس پاس شوٹنگ ہونے کے باوجود ایک سکون تھا۔ پھر یہ کہ قونصل خانہ 3 میل کے فاصلے پر تھا۔ اور اُس کی گاڑی ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھی۔ ڈیوس کے مطابق فہیم روسی ساختہ Tokarev استعمال کر رہا تھا جو پاکستان میں عام ہے۔ وہ پھر اپنی گاڑی میں واپس جاکر بیٹھ گیا، دروازے لاک کئے، اور مدد حاصل کرنے کے لئے اپنے بیس کیمپ ریڈیو پیغام بھیجا۔
امریکی قونصل خانہ کے عملے نے موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کی لیکن اس دوران ریمنڈ ڈیوس کو تھانے منتقل کیا جاچکا تھا۔ وہاں پہنچنے کی جلدی میں وہ ایک یکطرفہ راستے کا پر غلط سمت میں چلے اور ایک موٹر سائیکل سوار کو کُچل دیا۔ اُنھوں نے سفارتی استثنیٰ حاصل کرتے ہوئے قونصل خانے میں پناہ لی اور اُن کا ہی سُراغ لگایا جاسکا اور نا ہی اُن پر مُقدّمہ چلایا جا سکا۔ ڈیوس کو پولیس نے پکڑا اور فوج کے حوالے کردیا جو اُسے لاہور کے کنٹونمنٹ لے گئے
ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ فوراً ہی امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا۔ امریکہ کا موئقف تھا کہ ڈیوس ایک سفارتکار ہے۔ پاکستان اس سے اتّفاق نہیں کرتا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 90 پر واضح طور پر لکھا ہے، “میری ذمّہ داریوں میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی حفاظت کرنا تھا۔ کیا یہ بات مجھے سفارتکار کا درجہ دیتی ہے؟ یقیناً نہیں۔” (یہ معلومات ہوسکتا ہے ریمنڈ دیوس نے اپنے سی آئی اے یا کسی اور جاسوسی ایجنسی سے تعلق کو چھپانے کے لئے ڈالی ہو۔) کاغذات پاکستان (کے موقف) کی حمایت کرتے تھے۔ وہ وزارتِ خارجہ کی تسلیم شدہ سفارتی عملے کہ فہرست میں شامل نہیں تھا، خاص طور پر اُس کے لاہور قونصلیٹ کے تعلق سے حوالے سے۔ امریکی سفارتخانے نے اسے اپنی بیوروکریٹک غلطی بتایا۔ ریمنڈ ڈیوس کے درجہ کو لے کر پاکستان میں اندرونی بحث شروع ہو گئی۔ پی پی پی کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اصرار کیا کہ پاکستان ریمنڈ ڈیوس پر مقدمہ چلانے کے اپنے موقف پر قائم ہے
امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کو مشکلات سے نکالنے کے لئے ہر حد تک جانا قبول کیا، یہاں تک کے صدر اوبامہ نے اُسےتحفّظ فراہم کرنے کے لئے “ہمارا سفارتکار” کہا اور بین الاقوامی (سفارتی) کنونشن کا سہارا لیا۔
اے بی سی (ABC) نیوز نے اس خبر کو 15 فروری، 2011 کو اس طرح سے شائع کیا:
“صدر بارک اوبامہ نے پہلی دفعہ اس بین الاقوامی معاملے، جس نے امریکی اہلکار کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، میں مداخلت کی اور ریمنڈ ڈیوس کو “ہمارا سفارتکار” کہا اور زور دیا کہ اُسے سفارتی استثنیٰ کی بنیاد پر رہا کیا جائے۔
“ہمارے پیشِ نظر نہایت ہی سادہ اُصول ہے کہ ہر وہ ملک جو سفارتی تعلقات کے بارے میں ویانا کنونشن میں فریق ہے اُس نے ماضی میں بھی اس کی پاسداری کی ہے اور مُستقبل میں بھی اُسے پاسداری کرنی چاہئے، اور یہ کہ ، اگر ہمارے سفارتکار دوسرے ملک میں ہیں، تو اُن پر اُس ملک میں مُقامی طور پر مُقدّمہ نہیں چلایا جاسکتا،” اوبامہ نے آج پریس کانفرنس میں کہا۔ “ہم پاکستان سے توقع کرتے ہیں، کہ بطور (کنونشن پر) دستخط کنندہ (ریمنڈ) ڈیوس کو بطور سفارتکار تسلیم کرے….. میں اُن خاص (پیغامات کے) تبادلہ میں نہیں جاؤں جو ہم نے (حکومتِ پاکستان کے ساتھ) کئے ہیں، مگر ہم اس (معاملہ) کو ترجیح دینے کے حوالے سے پُر عزم ہیں۔”
بلاشبہ پاکستان نے سرکاری طور پر (ریمنڈ) ڈیوس کو سفارتکار تسلیم نہیں کیا۔ صدر ( اوبامہ) یقینی طور پر اس کو جانتے ہونگے۔ وائٹ ہاؤس کی فضا اُس وقت پاکستان کے حق میں نہیں تھی، کیونکہ دوسری چیزوں کے علاوہ، اس بات کے واضح ثبوت مل رہے تھے کہ اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد، شمالی پاکستان میں چھپا ہوا ہے۔ (شاہ محمود) قریشی جس کے اپنی حکومت کے ساتھ اختلافات تھے بالآخر مستعفی ہو کر پی ٹی آئی سے جا ملا۔ لیکن پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ میں کیس چلنے دیا تاکہ (ریمنڈ) ڈیوس پر قتل کا مقدِمہ چلانے سے پہلے اس کے اسٹیٹس کو طے کیا جاسکے۔
امریکہ نے صدر (اوبامہ) کی جانب سے (ریمنڈ) ڈیوس کو سفارتکار قرار دے کر ایک بڑا جوا کھیلا تھا۔ لیکن جینیوا کنونشن اوبامہ کے بیان کی تائید نہیں کرتے تھے، جیسے کہ ایک غیر جانبدار برطانوی تجزیہ کار کریگ مرے (Craig Murray)نے گارجین اخبار میں اپنے مضمون ‘The CIA Agent Is No Diplomat’ میں نشاندہی کی:
“مکمّل سفارتی استثنیٰ صرف ‘ڈپلومیٹک ایجنٹس’ کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اُن کی تشریح ویانا کنونشن کے آرٹیکل 1(e) میں ‘مشن کے سربراہ یا سفارتی مشن کے عملہ’ کے طور پر کی گئی ہے۔ سفارتی عملے کی مزید تشریح اس کے بعد والے آرٹیکل میں ‘سفارتی درجہ’ میں کی گئی ہے۔ اُن درجات کی بلحاظِ درجہ سیریز ہے جو تھرڈ سیکریٹری سے سفیر یا ہائی کمشنر تک جاتی ہے۔ (ریمنڈ) ڈیوس کے پاس سفارتی درجہ نہیں تھا۔
لیکن یہاں ‘انتظامی اور تکنیکی’ عملے کی ایک دوسری کیٹیگری ہے۔ اُن کو محدود سفارتی استثنیٰ حاصل ہے جس میں، بہرحال، ‘ڈیوٹی کے علاوہ کئے جانے والے عمل’ شامل نہیں ہیں (ویانا کنونشن آرٹیکل 37/2.) آف دی ریکارڈ کی ہوئی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مشتعل عملہ کی بریفنگ میڈیا میں یہ ظاہر کرتی تھی کہ امریکہ کا کیس یہ ہے کہ (ریمنڈ) ڈیوس تکنیکی عملہ میں شامل ہے اور دوسری بیان کردہ شق میں آتا ہے۔
لیکن اس سلسلے میں امریکہ کو یہ وضاحت دینی تھی کہ وہ کونسی سفارتی ڈیوٹی تھی جس کے لئے (ریمنڈ) ڈیوس کو گلاک (Glock) ہینڈ گن، سر پر باندھنے والی فلیش لائٹ، اور جیبی ٹیلی سکوپ رکھنے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ ویانا کنونشن میں سفارتخانہ کی جائز سرگرمیوں کی فہرست موجود ہے اور اُن میں سے کسی بھی کام کے لئے اس طرح کے سامان کی ضرورت نہیں۔”
مزید، ایک سابق سینیئر آرمی کے ذرائع نے مصنّف (شجاع نواز) کو بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کی بطور سفارتخانہ یا قونصل خانہ کے عملے کی تعیناتی کا کوئی نوٹ موجود نہیں تھا۔ ‘اگر نوٹ موجود تھا، تو امریکہ اُسے سامنے کیوں نہیں لایا؟’ اُنھوں نے پوچھا۔
پاکستان کا ٹوٹا ہوا سیاسی طاقت کے ڈھانچہ نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ پی پی پی کی حکومت امریکیوں کو خوش کرنا چاہتی تھی۔ (جبکہ) آرمی، اور خاص طور پر ڈی جی-آئی ایس آئی جنرل پاشا امریکی مطالبے کو پورا کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ (جنرل) پاشا نے ابتدائی طور پر کوشش کی کہ سی آئی اے کے ڈائیریکٹر سے تصدیق کر سکیں کہ (ریمنڈ) ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ پیناٹا (Panetta)، جو پہلے ہی اُسامہ بن لادن کے مسئلے پر مشتعل تھے، نے (ریمنڈ) ڈیوس کے سی آئی اے کے ایجنٹ ہونے کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا۔ (جنرل) پاشا نے اُن (Panetta) کے روئیے سے مایوس ہو کر (ریمنڈ ڈیوس کے خلاف) لاہور میں کیس چلانے کی اجازت دیدی۔ اس متضاد صورتحال میں (امریکی سفیر کیمرون) منٹر نے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ حسین حقانی، جنھوں اپنی ابتدائی تعلیم مذہبی اسکول میں حاصل کی تھی، دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنھوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ اس سلسلے میں دیت کے اسلامی شرعی قانون سے کام لیا جائے اور مقتولین کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے۔ منٹر نہیں سمجھتے کہ یہ خیال واشنگٹن (یعنی حسین حقّانی) کی طرف سے آیا تھا۔ جو بھی تھا (ریمنڈ) ڈیوس کی قید جاری تھی۔ کیس شروع ہوا۔دیت کی ادائیگی کرنا جو ایک طرح سے تاوان ادا کرنے کے مترادف تھا امریکی پالیسی سے متصادم تھا۔ یہ امریکہ کی سرکاری پوزیشن تھی۔ پردے کے پیچھے، (جنرل) پاشا طول پاتے ہوئے مُقدّمے کے حل کی صورتوں کا جائزہ لے رہے تھے، جس کے لئے عدالتی نظام کی بھی مدد لینی تھی۔ دیت کی رقم کی فراہمی کے حوالے سے افواہیں گرم تھیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس کے لئے رقم ملک ریاض، جو ایک بہت بڑے اور کامیاب ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر ہیں، اور جن کے آرمی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، نے فراہم کی۔ مگر اس کی سرکاری سطح پر کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔
اُن سب سے قطع نظر، ڑیمنڈ ڈیوس کے جیل میں چار مہینے قید میں رہنے کے بعد، ایک معاہدہ طے پا گیا۔ ایک موقع پر فروری کے وسط میں ، سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری بھی معاہدہ میں مدد کرنے کے لئے پاکستان آئے۔ خاص طور پر اس دوران پاکستان میں ڈرون حملے بند کر دیئے گئے۔
16 مارچ کو وہ عدالت جو ریمنڈ ڈیوس پر قتل کا مقدّمہ چلانے سے پہلے اُس کا اسٹیٹس پتہ کرنے کے لئے لگائی گئی تھی، کو اچانک شریعہ کورٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو امریکی قونصل جنرل کارمیلا کانرائے (Carmela Conroy) جو اُس سے رابطے میں تھیں نے حالات کے بارے میں آگاہی دی۔ دونوں مقتولین کی نمائندگی کرتے وارثین اور ایک مقتول کی بیوی جس نے مبینہ طور پر خودکشی کی کوشش کی تھی، نم ناک آنکھوں کے ساتھ عدالت میں موجود تھے۔ ہر ایک نے ایک کاغذ پر دستخط کئے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس مزنگ چوک پر ہونے والے قتل پر معاف کرتے ہیں۔ ہر ایک کو 130,000$ ملے۔ ریمنڈ ڈیوس ایک فلائٹ پر کابل جانے کے لئے آزاد تھا۔
(مس کارمیلا کانرائے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں تعینات تھیں جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا۔ اُنھوں نے میرے تحریری سوالات کے جوابات دینے کی حامی بھری تھی۔ اُن کے مطابق اُنھوں نے اپنے جوابات اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پریس آفس کو کلیئرنس اور مجھے بھجوانے کے لئے دے دئیے تھے۔ میری مس کانرائے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بار بار خط و کتابت کے باوجود میں وہ جوابات حاصل کرنے میں ناکام رہا۔)
لاہور ایئر پورٹ پر ایک سیسُا طیارہ جس میں سفیر (کیمرون) منٹر سوار تھے انتظار کر رہا تھا۔ جہاز پر قونصل خانے کا ایک ڈاکٹر بھی سوار تھا، جسے ریمنڈ ڈیوس جانتا تھا، اور جس نے ریمنڈ ڈیوس کے ملک چھوڑنے سے پہلے اُس کا طبّی معائنہ کرنا تھا۔ عدالتی کاروائی کے دوران (کیمرون) منٹر کو (جنرل) پاشا کی طرف سے ٹیکسٹ میسیجز موصول ہورہے تھے، اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ اُس وقت وہ (جنرل پاشا) عدالت میں موجود تھے یا نہیں جیسا کہ بعد میں ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب اور بعض دوسرے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کمرہ عدالت سے موصول ہونے والی معلومات سے کیمرون منٹر کو آگاہ کر رہے ہوں۔ عدالت میں بھی کسی نے جنرل پاشا کو نہیں دیکھا۔ ایک سینیئر ملٹری آفیسر نے مجھے کنفرم کیا کہ اُس دن جنرل پاشا کورٹ میں نہیں تھے۔ قطع نظر اس کے جنرل پاشا اور کیمرون منٹر نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں (کلیدی) کردار ادا کیا۔ وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بھی ایک سرکاری محفل میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔
“رحمان ملک نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو اُس وقت تک رہا نہیں کرنا جب تک عدالت اُسے رہا نا کردے۔’ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نا ہی ریمنڈ ڈیوس کو ڈی پورٹ کیا جائے گا نا ہی اُسے سفارتی استثنیٰ دیا جائے گا، اور یہ کہ ہم اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور انتظامی سطح پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جائے گا،’ اُنھوں نے کہا اور ساتھ میں اضافہ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کا نام فوری طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ بعد میں ایوانِ صدارت میں ایک میٹنگ میں، اُس وقت کے انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ڈائیریکٹر جنرل، جنرل شجاع پاشا نے سیاسی قیادت کو بتایا کہ امریکی، اسلامی قانون کے تحت دیت کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔ ‘یہ معاملہ حکومتِ پنجاب، وزارتِ خارجہ، اور وزارتِ داخلہ کے تعاون سے حل کیا گیا،’ رحمان ملک نے کہا۔
لاہور کی عدالت کا فیصلہ اس سلسلے میں اہم مگر پیچیدہ معلومات دیتا ہے کہ کس طرح، ریگولر پینل کوڈ کے تحت قتل کے کیس کی عدم موجودگی میں شریعہ کے قانون کا استعمال کیا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کو بری اور رہا کروایا گیا۔
مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے تعاون نہیں کیا جس کی وہ سیاسی مخالف تھی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان رابطہ کے فقدان اور سول اور ملٹری انتظامیہ کے درمیان خلیج نے ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے کے حل کو التوا میں ڈالا۔ امریکہ کی طرف سی آئی اے اور امریکی سفیر کیمرون منٹر کے درمیان ڈرون حملوں کے معاملے پر کھنچاؤ رہا۔ منٹر ڈرون حملوں کو روکے رکھنا چاہتے تھے جبکہ سی آئی اے ڈرون حملے کرنا چاہتی تھی۔ سی آئی اے کے سامنے اُسامہ بن لادن کا بھی مسئلہ تھا اور وہ جنرل پاشا اور آئی ایس آئی کو کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جیسے ہی سینیٹر جان کیری پاکستان سے واپس گئے سی آئی اے نے ڈرون حملے دوبارہ شروع کر دئیے۔ حالات واپس اُسی نہج پر آگئے تھے، عدم اعتماد، اور رنجش سے بھرے تعلقات۔ 2011 کی ہولناکی جاری تھی جس کی وجہ سے پاک۔امریکہ تعلقات پر گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔