ادبی فائل -سات
شجاع خاور—ہیرو کبھی نہیں مرتے
—مشرف عالم ذوقی
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
عجیب کیفیت کہ کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں.میرے دل میں ایک مسیحا رہتا ہے ، میں بیمار ،اس کا طواف کرتا ہوں ..مولانا رومی کی آواز کانوں میں گونجتی ہے تو آنکھوں کے سامنے ایک پیکر لہراتا ہے ..ایک ہیولہ نظر آتا ہے ، جس نے وحشت کے اندھیروں اور مصائب کے دشت سے الگ اپنے لئے ایک مسیحا کا انتخاب کر لیا تھا ..وہ پہلے بھی عاشق اردو تھا ، لیکن جب بیماری نے اپنا دائرہ تنگ کیا تو اسنے پوری طرح خود کو اردو کے سپرد کر دیا ..ایک قلندر جس نے اپنی زندگی اردو کے لئے وقف کر دی .
آنکھوں کے آگے ایک کولاز بنتا ہے ، پھرتصویریں ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتی ہیں .. کیا میں انہیں جانتا ہوں ؟ اس کا جواب ہے نہیں .ہم دشمن نہ دوست .عمر میں بھی کافی فاصلہ .ہم دونوں کے مزاج نہیں ملتے .وہ پولیس والے ٹھہرے اور مجھے پولیس والوں سے صدیوں کا بیر رہا ہے . ہمارے رابطے کی زبان اردو ہے اور اردو دلوں کو ہمیشہ سے جوڑنے کا کام کرتی آیی ہے .پھر شجاع خاور میں آخر ایسا کیا ہے کہ ان کا چہرہ جب بھی نظروں کے آگے آتا ہے ، مجھے ہزاروں حکایتیں ، کہانیاں ، افسانے سنا ڈالتا ہے ..کولاز کا پہلا چہرہ ایک شیر دل ، جوان مرد کا چہرہ ہے ، جس کے چہرے پر بادشاہوں سا غرور ہے ..آپ اسے غرور مت کہئے ، یہ اسکا پٹھانی تیور ہے . اس تیور کے ساتھ جب وہ مشاعروں ، سیمیناروں میں قدم رکھتا تو اسکے زندہ دل قہقہوں کے آگے سکندر ا عظم اور نپولین بونا پاٹ کی کہانیاں بھی اپنا اثر کھوتی ہوئی معلوم ہوتیں .اس کی ذات میں ایک چمک تھی ..اور یہ چمک آسانی سے سیمیناروں کی رونق میں اضافہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ..پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ تقدیر کے نرغے میں آ گیا ..مگر شجاعت میں کمی نہ آیی .ہمت و حوصلہ وہی رہا ..پہلے وہ طوفان بن کر آتا تھا اب لنگڑاتا ہوا مفلوج جسم کو کھینچتے ہوئے سیمیناروں میں داخل ہوتا ، مسکراہٹ وہی ہوتی ..وہ آگے کی صف میں اپنے لئے جگہ بناتا اور کچھ بولنے کی کوشش بھی کرتا ..یہ سلسلہ شجاع کے انتقال تک جاری رہا ..
باد صبا جھومتی گاتی ہوئی مجھ سے سوال کرتی ہے کہ ان دو چہروں میں سلطانی کا تاج تم کس کے سر رکھوگے ؟اس کے سر جو سکندر ا عظم کی طرح طوفان بن کر دشمنوں پر شب خون مارتا تھا یا اس کے سر ، جس کے ساتھ نصیب نے ایک بھیانک کھیل ، کھیلا تھا ؟ تو مجھے سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ..اور میں جواب دیتا ہوں ..اس کے سر جسے تقدیر نے مجبور کیا مگر جس نے تقدیر کو زیر کر لیا ..نصیب نے شکست دی مگر وہ نصیب پر حاوی رہا .وقت نے اسے کمزور کرنا چاہا مگر وہ شجاع بن کر ابھرا ..اور آخری سانس تک اپنی مضبوط شخصیت کا بھرم قایم رکھا …اور کولاز کا یہی وہ فریم ہے جس نے مجھے شجاع خاور پر لکھنے کے لئے مجبور کیا ..
آئینہ اور عکس
اس کولاز کے ساتھ کچھ اڑے ترچھے آئینے بھی ہیں ، جن میں الگ الگ کہانیاں قید ہیں ..موت کے فرشتے سے سوال کیا گیا ..روح قبض کرتے ہوئے کیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ تمہارے ہاتھ کانپ گئے ہوں ، جواب ملا ..دو بار ایسا ہوا ..جنگل کے ویرانے میں ایک نو مولود اپنی ماں کے ساتھ تھا کہ روح قبض کرنے کا حکم ہوا –.اور اس وقت جب شداد اپنے لشکر کے ساتھ اپنی تعمیر شدہ جنت کے دروازے پر پہلا قدم رکھنے والا تھا کہ آواز آیی اندر جانے نہ پاے .روح قبض کر لو .آواز ابھری ..جانتے ہو وہ بچہ کون تھا ؟..یہ وہی بچہ تھا جس نے بعد میں شداد بن کر خدائی کا دعوا کیا ..
سوچتا ہوں ، مجھے یہ کہانی کیوں یاد آی ..؟ شجاع ، شداد نہیں تھے .شجاع نے کبھی کویی دعوا نہیں کیا ..مگر جب فالج کا حملہ ہوا ، یہ انکی زندگی کے بہترین دن تھے .جب سیاست سے ادب تک وہ ایک نیی لکیر کھینچنے کے خواہشمند تھے ..وہ ایک انقلاب شاعری کی دنیا میں چاہتے تھے .. رشک فارسی ، مصرعہ ثانی کی غزلیں پڑھ جائیے تو ایسے لگتا ہے ، مختلف مقامات پر شجاع غالب سے ٹکر لے رہے ہوں ..بات ٹکر لینے کی نہیں ہے ..شجاع نے مزاج ایسا بنا لیا تھا کہ وہ اپنے ہر شعر میں پر فیکٹنس اور انفرادیت چاہتے تھے ..اور دوستوں کی غزلیں انہیں پسند نہیں آتی تھیں ..وہ بیباک تبصرہ کرتے تھے اور اس لئے انکے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی .اس بچے کا نصیب تھا کہ دشت کی ویرانی اسے محلوں تک لے آیی . خدا بننا منظور نہ ہوتا تو شاید شداد کی حقیقت کچھ اور ہوتی ..خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا ..شجاع نے یگانہ بننے کی کوشش بھی کبھی نہیں کی . مگر ان کے پٹھانی تیور نے انکا نقصان کیا اور جب پولیس کی نوکری سے فارغ ہو کر وہ خود کو مکمل طور پر اردو کے سپرد کرنا چاہتے تھے ،بیماری نے بہت حد تک ان کو توڑ ڈالا ..یقینی طور پر بہت سے خواب ٹوٹے ہونگے ..تخلیقی جنت کا تصور بھی کھو گیا ہوگا مگر اس کے باوجود شجاع نے خود کو زندہ رکھا ، ہاں بیماری کے بعد ان کی شاعری سامنے نہیں آیی .مگر شجاع کے پاس جو بھی شعری سرمایہ ہے ، وہ بھی کم نہیں ہے . ..انکی شاعری بلند درجے کی شاعری ہے .ایسی شاعری جس پر گفتگو کی ضرورت ہے .
ہو تا نہیں کچھ اپنی دعاؤں میں اثر دیکھ
جا آرزوئے وصل، کوئی دوسرا گھر دیکھ
الحاد سے مہنگا مجھے ایمان پڑے گا
چھت ٹوٹی تو کمرے میں فلک آن پڑے گا
اردو سے عشق کی داستان —داسٹوری آف اے رئیل مین۔
ویکیپیڈیا سے ملنے والی اطلاع کے مطابق شجاع خاور دہلی سے رکھنے والے اردو شاعر تھے اور پولیس سرویس میں بڑے عھدے پر تھے۔. ان کی شہرت کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ جنتا پارٹی کے اقتدار کے دور میں 1977ء میں اندرا گاندھی کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ پولیس کے جتھے کا وہ حصہ تھے.شجاع خاور 23 دسمبر 1948ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام شجاع الدین تھا۔ ان کے والد کا نام امیر حسین تھا.1964ء سے شجاع نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا..
اچھی بری ہر طرح کی یادیں شجاع خاور کے ساتھ وابستہ ہیں . دلی میں میرے ناول بیان کا اجرا ہوا .اس موقع پر راجندر یادو ،مشہور صحافی سیما مصطفیٰ ، ڈرامے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ حبیب تنویر ، پروفیسر قمر رائیس بھی شامل تھے .یہ وہ زمانہ تھا جب شجاح ادب سے سیاست کی دنیا میں خود کو آزما رہے تھے ..دو پارٹیاں بدلی تھیں ..وہ کہیں ، کسی ایک مقام پر زیادہ دنوں تک رہ بھی نہیں سکتے تھے .. اس دن پروگرام کے دوران شجاع سے میری کچھ کہا سنی ہوئی ..شجاع اپنے تیور کے ساتھ تھے ..اور یہی تیور انکی ذات کو خاص بناتا تھا ..پروگرام کے دوسرے ہی دن ان پر فالج کا حملہ ہوا .اس کے بعد شجاع سنبھل نہیں سکے . دوسرے دن سب سے پہلے میرے ایک قریبی دوست کا فون آیا ..
— یار ، تم نے شجاع کو کل کیا کہہ دیا تھا ..؟
میں نے ..؟
شجاع اسپتال میں ہیں .فالج کا حملہ ہوا ہے .
مجھے اس وقت دوست کا مذاق کرنا پسند نہیں آیا .میں صدمے کی کیفیت میں تھا .. میری آواز بھرایی ہوئی تھی .. تم نے مصرع ثانی اور رشک فارسی کا مطالعہ کیا ہے ؟ کویی اپنے شعری مجموعے کا نام ایسے رکھتا ہے کیا ..؟ پولیس والا ہے مگر گہری فکر رکھتا ہے .. شجاع کے کتنے ہی شعر یاد آتے چلے گئے .
اصل نہ ہوا کچھ بھی بجز حسرتِ دیدار
اور حسرتِ دیدار بھی ، دیدار تلک ہے
—-
ہ جنونِ شوق خاورؔ یہ رہ وفا کی منزل
کبھی خار گل ہوئے ہیں ، کبھی گل کو خار سمجھے
قربتیں تم سے بڑھاتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں
جن کو ہوتا ہے بچھڑنا وہ ملا کرتے ہیں
سوچتا ہوں کہ نئے نام دوں ، آنکھوں کو تری
جام ، مے ، جھیل ، کنول ، تیر کہاں تک آخر
کالج کے دنوں میں ،میں نے ایک ناول پڑھاتھا…. داسٹوری آف اے رئیل مین۔ جنگ کے دوران ایک حادثے میں ایک سپاہی کو جب ہوش آتا ہے تو وہ خود کو برف پوش وادیوں میں پاتا ہے۔ اس کا ایک پاﺅں جواب دے چکا تھا— لیکن وہ زندگی کی امید نہیں چھوڑتا اور ایک دن اپاہج ہونے کے باوجود وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، جو کچھ وہ کھو چکا تھا۔ شجاع خاور پر فالج کاحملہ ہوا تھا لیکن یہ ان کی قوت ارادی تھی جس نے انہیں نہ صرف زندہ رکھا تھا بلکہ وہ ہم سب کے لیے زندگی کا ایک ایسا استعارہ بن گئے تھے، جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
وہ بہت بڑے شاعر تھے اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس بھی تھا۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جن کے پاس اپنا مخصوص لب ولہجہ تھا۔ تصنع سے الگ جیتی جاگتی ہنستی مسکراتی زندگی کو وہ ہر بار ایک نئے موضوع کے اسرارورموز سے گزارتے ہوئے نئے شعری رویوں کو فروغ دیئے تھے۔ شستہ زبان اور رنگینی بیان کے طلسم سے وہ اپنے شعری آھنگ میں ایک ایسی توانائی پیدا کرتے تھے، جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ شجاع شاعری میں درد ویاس کے قائل نہیں تھے۔ ان کے حصے میں ایک حسین زندگی آئی تھی— وہ میرسے متاثر ضرور تھے لیکن اظہار بیان کی سطح پر وہ سودا کی گھن گرج اورجوش کے زیادہ قریب تھے۔ وہ شاعری کی مروجہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے نئے رنگوں کا استقبال کرتے تھے۔ وہ تجربوں کے قائل تھے اور ہر تجربہ ایک نئے شجاع خاور کو سامنے لے آتاتھا۔ اورغور کیجئے توشجاع نے اپنی پوری زندگی میں اپنے نام کا کتنا خیال رکھا۔ شاعری ہو یا زندگی ،آخری وقت تک یہ شجاعت کارنگ ہی ان کی تخلیقی توانائی کاحاصل رہا— اس لیے جب تک اردو زبان زندہ ہے، شاعر آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے مگر دوسرا شجاع خاور مشکل سے ملے گا۔ یہ نام ہی ان کی شناخت اور شاعری اسی تیور کا نمونہ—
زندگی سے جنگ —
یادوں کے جزیرے سے گزرتاہوں تو کتنی ہی تصویریں جھل مل کرتی ہوئی سامنے آجاتی ہیں۔وہ مشاعرے کے علاوہ سیمیناروں میں بھی نظر آتے ..وہ بلاوے کا انتظار نہیں کرتے تھے . اردو سے عشق کا یہ انداز مجھے اور کہیں نظر نہیں آتا . ان دنوں شجاع خاور پرسیاست کا رنگ چڑھ رہاتھا۔ ۔ میں ان سے ناراض تھا۔ شجاع کی ایک خوبی یا کمزوری یہ تھی کہ وہ ہوا کی سمت نہیں چلتے تھے— وہ جب بھی چلے ہوا کے مخالف۔ سیاسی پارٹیاں بدلنے کا فیصلہ بھی اسی نظریہ کی دین ہے۔ مجھے یقین ہے اگر ان پر فالج کاحملہ نہ ہوا ہو تا تو وہ اپنے عہد کی سیاست میں بھی بہت دور تک جانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ خبریں ملتی رہتی تھیں۔ ان سے مل کر آنے والے بتاتے کہ شجاع کمزور ہوگئے ہیں، ٹوٹ گئے ہیں۔ مگر مجھے یقین تھا، بڑا سے بڑا حادثہ بھی شجاع کو توڑ نہیں سکتا۔ وہ صحت سے کمزور ہوسکتے ہیں مگرزندگی کی جو توانائی قدرت نے انہیں عطا کی ہے، وہ انہیں ٹوٹنے نہیں د ے گی۔ اور یہی ہوا—’داسٹوری آف اے رئیل مین‘ کی طرح انہوں نے اتنے بڑے حادثہ کو جھٹک کر زندگی کو خوش آمدید کہا اور پہلے سے کہیں زیادہ محفلوں اور سے می ناروں میں نظرآنے لگے۔ موت ہار گئی تھی۔ زندگی جیت گئی تھی۔ اور اتنے بڑے حادثہ کے بعد بھی سترہ برس تک موت کو ٹال دینے کاحوصلہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ شجاع ہی کرسکتے تھے۔ اور اس یقین کے ساتھ کہ اب کوئی دوسرا شجاع خاور ہمارے درمیان نہیں آئے گا۔
سن ۱۱۰۲ءجے،این،یو میں ڈاکٹر محمد حسن پر دوروزہ سے می نار رکھاگیا۔ سے می نار جس ہال میں تھا، وہاں شجاع جیسے بیمارآدمی کے لیے جانا آسان نہیں تھا—مگرشجاع وہاں بھی موجود تھے۔ اور صرف موجود ہی نہیں تھے بلکہ اب وہ بولنے بھی لگے تھے۔ فالج کے حملے کے بعد انہیں بولنے میں خاصہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔ مگر وہ شجاع ہی کیا، جو محض سے می نار میں اپنی جھلک دکھا کر خاموش رہ جائے۔ اسی زمانے میں افسانہ نگار سلام بن رزاق دہلی تشریف لائے تو انیس اعظمی نے دہلی اردو اکادمی میں ایک شام سلام کے نام کا اہتمام کیا۔ وہاں بھی آگے کی صف میں شجاع موجود تھے۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ شام کا دھندلکا چھا چکا تھا۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی مگر شجاع خاور جیسے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ اردوکے سچے عاشق کی طرح وہ نہ صرف اپنی موجودگی درج کراتے بلکہ ہم جیسوں کے لیے سبق بھی بن جاتے کہ زندگی بغیر شمشیر وسناں کے یوں بھی لڑی جاتی ہے۔
شجاع چلے گئے لیکن ایسی یادیں چھوڑ گئے ہیں جنہیں فراموش کرنا آسان نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نہ صرف ان کی شاعری پر گفتگو کے دفتر کھلنے چاہییں بلکہ ان کی ہمہ جہت شاعری کے ساتھ ان کی شخصیت پر بھی کھل کر باتیں ہونی چاہییں — وہ ہیرو تھے ۔ ہیرو ہیں۔ اور رئیل ہیرو کبھی نہیں مرتا۔
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“