ایک امریکی ٹی وی شو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں میزبان اپنے طنزیہ فقروں اور جارحانہ سوالات کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ لیکن اس روز ایسا نہیں تھا۔ سامعین اور میزبان، اس مہمان کی باتیں توجہ سے سن رہے تھے کیونکہ مہمان بل گیٹس تھے۔ انہوں نے اچھی باتیں کیں لیکن غیرمعمولی نہیں۔ ان سے انٹر ایکٹو ٹی وی کے بارے میں سوال کیا گیا۔ ان کے جواب میں کچھ نیا یا اچھوتا نہیں تھا۔ ویسا جواب درجنوں دوسرے پروفیشنل دے سکتے ہیں لیکن ہر کوئی ان کی رائے سننے کا انتظار کر رہا تھا کہ “بل گیٹس اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟” بل گیٹس دنیا کے سب سے امیر شخص رہ چکے ہیں۔ فی سیکنڈ آمدنی سو ڈالر سے زیادہ ہے۔ لیکن کیا ان میں ایسا کچھ خاص ہے جس کی وجہ سے وہ سو ڈالر فی سیکنڈ کماتے ہیں یا پھر اتنا کمانے کی وجہ سے وہ خاص بن گئے ہیں؟
بل گیٹس نہ صرف دنیا کے امیر ترین شخص رہ چکے ہیں بلکہ ذاتی زندگی میں بھی ان میں کئی قابلِ تعریف صفات پائی جاتی ہیں۔ ان کی قائم کردہ گیٹس فاوٗنڈیشن کا مشن اور دنیا کو بہتر بنانے کا عزم قابلِ تعریف ہیں۔ اور ان کی شہرت اس قدر ہے کہ سازشی نظریات بنانے والے لوگ جن کو دنیا میں چند ہی لوگوں کے نام آتے ہیں، وہ بھی اپنی کئی سازشی تھیوریاں ان سے منسوب کرتے ہیں۔ بل گیٹس یہاں تک پہنچے کیسےَ؟
اگست 1980 میں IBM کے انجنیر ایک نئے پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ یہ خفیہ پراجیکٹ پرسنل کمپیوٹر بنانے کا تھا۔ اس سلسلے میں اس ٹیم کا ایک گروپ سیئٹل پہنچا۔ بل گیٹس اس وقت ایک نوجوان انجینر تھے جو ایک چھوٹی کمپینی چلا رہے تھے۔ آئی بی ایم کو ایک پروگرام کی ضرورت تھے جو اس کمپیوٹر کا آپریٹننگ سسٹم ہو۔ اس گروپ نے گیٹس سے رابطہ کیا۔ انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ یہ نہیں بنا سکیں گے اور ایک مشہور پروگرامر گیری کلڈال کی طرف بھیج دیا جو ڈیجیٹل ریسرچ میں تھے۔ آئی بی ایم اور کلڈال کے مذاکرات اچھے نہیں رہے۔ پہلے ان کی ٹیم جب کلڈال کے پاس پہنچی تو کلڈال کی بیوی، جو کہ ان کی کمپنی کی بزنس منیجر تھیں، انہوں نے اس بات چیت کو خفیہ رکھنے کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اگلی کوشش میں اس ٹیم کا رابطہ کلڈال سے ہو گیا لیکن بات طے نہ ہو سکی۔ اس دوران اس ٹیم میں سے ایک ممبر جیک سیمز نے بل گیٹس سے دوبارہ ملاقات کی۔ کلڈال کے بنائے پروگرام سے ملتا جلتا سسٹم سئیٹل کمپیوٹر پراڈکٹس کمپنی بیچنے کو تیار تھی۔ سیمز کے مطابق، گیٹس نے کہا کہ یا تو آئی بی ایم خود اس کو خرید لے یا پھر میں خرید لیتا ہوں۔ سیمز نے بل گیٹس کو ایسا کرنے کو کہا۔ بل گیٹس نے پچاس ہزار ڈالر ادا کر کے اس کو خرید لیا، اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اس کا نام DOS رکھا۔ اس کو آئی بی ایم کو لائسنس کر دیا۔ اس کے مالکانہ حقوق گیٹس کے پاس رہے اور آئی بی ایم نے اس کی فی کاپی فیس ادا کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ یہ آپریٹننگ سسٹم اس وقت کے دوسرے سسٹمز سے بہتر نہیں تھا لیکن مقبول ہو گیا۔ پرسنل کمپیوٹر کی مارکیٹ کسی کے بھی اندازے سے زیادہ پھیلی۔ لوگ ڈوس اس وجہ سے خریدتے تھے کہ دوسرے بھی یہی خریدتے تھے۔ یہ مائیکروسوفٹ کا بریک تھرو تھا۔
اگر کلڈال اپنی شرائط پر زیادہ اصرار نہ کرتے، اگر آئی بی ایم کے پاس بہتر وژن ہوتا۔، اگر سیمز اور گیٹس کے درمیان اتفاقی ملاقات نہ ہوتی، اگر یہ سب کمپیوٹر کے انقلاب کے شروع میں نہ ہوا ہوتا ۔۔۔ بل گیٹس اپنی تمام تر قابلیت اور بزنس کی صلاحیت کے باوجود شاید بس ایک اور سافٹ وئیر کی کمپنی کے مالک ہوتے، نہ کہ دنیا کے امیر ترین شخص۔ اسی وجہ سے ان کے ٹی وی انٹرویو پر دئے گئے جوابات بس ویسے ہی تھے جسے کسی اور ٹیکنالوجی پروفیشنل کے۔ لیکن سننے والوں کے لئے ان کی کہی باتوں کے شوق سے انتظار کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کیا کہا جا رہا ہے۔
شہرت، اچھی ہو یا بری، لوگوں کے الفاظ میں خود اپنا بہت سا وزن ڈال دیتی ہے۔ یہ مشہور ہو جانے والے پر منحصر ہے، کہ وہ اس وزن کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ بل گیٹس کی خوش قسمتی نے ان کو امیر اور مشہور کر دیا۔ باقی دنیا کی خوش قسمتی کہ وہ اپنی دولت اور شہرت، دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے ئے استعمال کر رہے ہیں۔
ساتھ لگی تصویر بل گیٹس اور پال ایلن کی، آئی بی ایم سے معاہدہ کئے جانے کے چند روز بعد کی ہے۔