مجھے 25 اگست 1965 میں فقر،(جنسی) پاکیزگی، اور اطاعت کا پانچ سالہ حلف اٹھوایا گیا۔ چیپل میں عبادت کے لئے گھنٹے کی آواز پرہم پرلازم تھا، کہ ہم فی الفور اپنے تمام کاموں سے رک جائیں۔ گفتگوکو درمیان میں ترک کردیں، لکھتے ہوئے جملوں کو ادھورا چھوڑ دیں۔ گھنٹے کی آواز کو خدا کی آواز باورکیا جائے۔ جو ہم کو تازہ ملاقات کے لئے پکارتا ہے۔ میں خود کو یقین دلاتی،کہ مجھے خدا سے ملاقات کا جو مسلسل انتظار رہا ہے، اس کی محبت سے بھرپور 'حضوری و موجودگی' کا باطنی تجربہ ہوسکے گا۔ لیکن یہ گھنٹآ خدا کی آواز نہ تھا، بلکہ صرف ایک عام بلاوا تھا۔ یہ مجھے خدا سے ملاقات کے لئے نہیں پکار رہا تھا۔ یہ میرے سرکش خیالات تھے، اس صبح راہبائیں اپنی اپنی پیشانیوں پر خاک ملوانے کے لئے گھٹنوں کے بل سرجھکائے چبوترہ نذرو نیاز Altar کے سامنے ایستادہ تھیں۔ پادری بڑبڑایا، " یاد رکھو آدمی، کہ تم خاک ہو، اور خاک میں ہی تمھیں لوٹنا ہے۔ اب خانقاہی طعام خانے میں راہبائیں قطار لگا کرکھڑی ہیں۔ اور اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کے لئے اعلانیہ توبہ کا اقرار کررہی ہیں۔ تاکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ' عظیم کاملیت' تک پہنچنے کے لئے جان لگا کرپختہ عزم و ارادہ پیدا کرسکیں۔ مستقل زکر و دعا کے لئے ہمیں پابند کیا گیا، کہ پورا دن بولنے سے بچیں۔ صرف دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد ایک گھنٹہ بولنے کی اجازت تھی۔ ہمیں خاموشی سے چلنے کی تربیت دی جاتی۔ دروازں کو کھولنا اور بند کرنا نہائت خاموشی سے کرنا ہوتا تھا۔ ہنسنا ہنسانا محدود تھا۔ اور اگر فرائض کے دوران بولنے کی ضرورت پڑجائے، تو دھیمی آواز میں چند الفاظ بولنے کی اجازت تھی۔
خانقاہ میں جب بھی ہم کمرے میں تاخیر سے پہنچتے، تو فرش کو بوسہ دینا ہوتا تھا۔ پہلے پہل تو یہ عمل مجھے نہائت عجیب لگا۔ لیکن چند ہی ہفتوں بعد یہ عادت ثانیہ بن گئ، کسی فرائض میں کوتاہی ہونی ہے تو فرش کو چومنا ہے۔ مجھے لگا میں خدا کو اپنا آپ دے دینے میں ناکام ہورہی ہوں۔ مجھ سے فرشی بوسہ، غلطیوں کے اعلانیہ اعتراف، طعام خانے میں سب کےسامنے توبہ و ندامت کا واشگاف اظہار پر دھچکے اور دہشت سی محسوس ہونے لگی۔ صلیب کی شکل میں اپنے بازو پھیلا کر پنج وقتہ دعائے خداوند پڑھنا سنسنی خیز ہسٹیریائی عمل دکھائی دیتا تھا۔ میں خدا کو پانے میں ناکام ہوگئی تھی، اور کامل طور پر سرتسلیم خم کرنے کی واضح مسافت کو طے نہ کرپائی۔ خانقاہ میں ہر شے اہمیت و عظمت سے جڑی ہوئی تھی،بلا پردہ کھڑکیاں، نفاست سے رکھے شمع دان، صاف ستھرے فرش، سخت ترتیب سے جڑی کرسیاں اور میزیں، سب کچھ اس بات کی دائمی یاددہانی تھی، ہم مادی اشیا سے ادنی ترین وابستگی بھی نہ رکھیں، کیونکہ ہم خدا کے لائق ہونا چاہتے ہیں۔۔ یہاں پر مطلق فرماں برداری، تعظیم ادب و آداب مطلوب ہیں۔ کلیسا میں جب ہم اپنے بڑوں سے بات کرتے، تو گھٹنوں کے بل ہوجاتے، تاکہ یہ یاد دہانی رہے، کہ وہ خدا کے قائم مقام ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
دلچسپی رہی تو سلسلہ بڑھایا جاسکتا ہے۔۔ مذاہب کی یہ سب نفسیاتی جعلسازیاں کیسے تشکیل پاتی ہیں۔۔ کیسے زہنوں کو بدل دیا جاتا ہے۔اور عقل کا درواہ بند کردیا جاتا ہے
میں فقط 17 سال کی تھی، جب میں نے دنیا ترک کی، اور جنسیت کے پختہ خوف کے ساتھ خانقاہی اسکول میں داخل ہوئی، قبل از نکاح جنس سے متعلقہ موہومہ خطرات میری روح میں سلگتےکلبلاتے رہتے تھے۔ اب ایسے ادارے میں آگئی، جو نوجوانوں سے مطلق فرماں برداری تسلیم و رضا کرواتے، یہاں قائم شدہ رسوم و آداب پر کسی کو سوال اٹھانے یا تنقید کی اجازت نہ تھی۔ خانقاہ میں ہم حالات حاضرہ سے باخبر نہ ہوتے تھے۔ ہم اخبار نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میں غم و غصہ سے معمور خانقاہ کی اسٹیبلش منٹ کے ہاتھوں مستقل گھٹن کا شکار ہوگئی۔
ہماری ایک ٹیچرمس فرینکلن کیتھولک داستانوں کی ان دوشیزہ کنواری ولیاوں کی داستانیں سناتی، وحشی درندے خوف سے ان سے الگ ہوجاتے، تلواریں ان کے جسموں کے اندر گھس نہیں سکتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر ان کو طوائف خانوں کے حوالے کیا جاتا، تو وہ ناقابل ' دخول ' ہی ثابت ہوتی۔۔ وہ ایک غیرمرئی ہالے میں لپٹی ہوتی۔ ان کے گرد ایسی فصیل ہوتی تھی، جو انہیں دنیا کے ہرشر سے محفوظ رکھتی۔۔ خانقاہ میں ہم کنواری مریم کے گیت گاتے تھے۔ مجھے 'عہد پاکیزگی' لینے پر فخر رہا تھا۔ ہمیں کلیسا کی زندگی میں جسمانی حدود و قیود کی مطلق پابند رہنے کی تربیت دی گئی تھی، راہباوں کو ہموار انداز میں ایک معتدل رفتار سے چلنا پڑتا تھا، حتی کہ اگر شدید عجلت کی ضرورت پیش آ جاتی تو انہیں بھاگنا سخت منع تھا، پہلے پہل یہ سب دقت طلب معلوم ہوا، ہم میں سے اکثر بالکل نوجوان تھیں۔ اور زینے پر بیک وقت دو دو سیڑھیاں پھلانگنے کی امنگ کو کچلنا ، یا کلاس میں تاخیر ہونے پر جلدی نہ سے نہ چل پڑنا واقعی ایک مشکل کام تھا۔ لیکن بتدریج میں نے اپنے آپ پر نگاہ رکھنا سیکھ لیا،
بہرحال " مذہبی حیا و وقار" کے ان اصول و ضوابط پر میں کبھی بھی مکمل طور پر قابو نہ پا سکی۔ جو ایک راہبہ کی عادات و اطوار کو منظم و مہذب کرنے کے لئے قائم کئے گے تھے۔ میں چلنے میں بد آہنگ تھی، اور آج بھی ہوں۔ میں اپنی ہم جماعتوں کی بلا آواز ، تیرتی ہوئی چال کو کبھی حاصل نہ کرپائی۔ جبکہ " آنکھوں کی حفاظت" یعنی زمین پر نگاہیں رکھنے کی خانقاہی عادت سے متعلق میں ہمیشہ نا امید رہی۔ اگر آس پاس سے کوئی آواز آ رہی ہے، یا کوئی کمرے میں داخل ہورہا ہے، تو میرے لئے یہ ناممکن ہوتا کہ میں نظریں اٹھا کر نہ دیکھوں۔ جب کہ یہ منع تھا۔ مجھے اپنے کلیسا کے بزرگ پادریوں کو بے باکی سے گھورنے اور اس کی بجائے عاجزانہ طور پر نگاہیں نیچی نہ رکھنے اکثر و بیشتر سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا۔ میرا ارادہ احترام نہ کرنے نہ ہوتا تھا۔ بس میں بات کرتے وقت سامنے والے کی آنکھوں میں دیکھنے کی عادی تھی۔ سو ان تمام ناکامیوں اور مجھ پر تھوپے گے خانقاہی نظم و ضبط کی وجہ سے میں آج تک رقص کے قابل نہ ہو پائی۔
“