شوگر کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ آدمی جس چیز سے بھاگتا یا خوفزدہ ہوتا ہے، وہی اسے اپنی گرفت میں لیتی ہے ۔ بیماری انسان کے ساتھ رہی ہے، زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہر ایک کو اس کاسامنا، تجربہ ، مشاہدہ ہوتا ہے۔ مجھے عرصے سے یہ خوف لاحق تھا کہ ذیابیطس(Diabetes)یاعوامی زبان میں شوگر کی بیماری نہ ہوجائے۔ اس کے لئے باقاعدگی سے ٹیسٹ تو کراتا رہتا، مگر لائف سٹائل یعنی طرز زندگی میںجو تبدیلیاں لانی ضروری تھیں، وہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کا منطقی نتیجہ نکلا اور آخر تین ماہ پہلے ڈاکٹر نے یہ خبر سنا دی کہ بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ اب شوگر کی بیماری بھی آپ کی زندگی کے ساتھ سفر کرے گی۔ پہلا ہفتہ شاک ، دوسرا انفارمیشن جمع کرنے اور تیسرا، چوتھا ہفتہ اپنے آپ کو یہ بتانے ،سمجھانے میں لگا کہ جو زندگی رب تعالیٰ نے باقی رکھی ہے، وہ اب مختلف انداز میں بسر ہوگی۔ پچھلے تین ماہ کے دوران کئی دلچسپ تجربات ہوئے، نت نئے مشورے اور شوگر ختم کرنے کے جادو ئی نسخے اور مشورے بھی ملے۔ حکمت، ہومیوپیتھک سے لے کر نجانے کون کون سے علاج کے فارمولے، نسخہ جات احباب نے مفت فراہم کئے۔ مختلف انداز میں اس بیماری کو سمجھنے کی کوششیں کیں اور آخر کار چندنتائج اخذ کرنے میں کامیاب رہا۔
اندازہ تو تھا، مگر پہلی بار اس کا حقیقی معنوں میں اندازہ ہوا کہ یہ دونوں بیماریاں بلڈ پریشر، شوگر کس قدر عام ہوچکی ہیں اور اب لاکھوں یا ملینز میں نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانی اس کا شکار ہیں۔ شائد ہی کوئی خوش نصیب گھر ہوگا، جہاں ان دونوں کے سایے نہیں پہنچے ۔ جس قدر بڑے پیمانے پر یہ بیماریاں پھیل چکی ہیں، ان کے تدارک، علاج کے لئے حکومتی یا سماج کی سطح پر کی گئی کوششیں ایک فی صد بھی نہیں ہوئی ہیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر جاوید اقبال ملک اس پر ہمیشہ کڑھتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے نصاب میں ان بیماریوں سے بچاﺅ کے طریقے بتانے چاہئیں اور عملی زندگی میں ہر جگہ پر ایسے سنٹر ہوں جہاں سے معلومات حاصل کی جا سکیں، ان کا علاج کیا جا سکے ۔ڈاکٹر جاوید ملک خود میڈیکل کے علاوہ مختلف ایشوز پر لکھتے رہتے ہیں، ایک بار میری درخواست پر انہوں نے شوگر کے حوالے سے خاصا تفصیلی لکھا اور جسم، آنکھوں پر اس کے اثرات کے حوالے سے میگزین میں باقاعدہ سلسلہ چلایا۔ بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، وہ ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے، اپنی شوگر کہانی کو کالم کا حصہ صرف اس لئے بنا رہا ہوں کہ ممکن ہے ا س سے قارئین کو فائدہ ہو سکے۔
میری خوش قسمتی کہ بلڈ شوگر کی رپورٹ آتے ہی میں نے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے فوری طوپر پر مشورہ کیا۔ ڈاکٹر عاصم نہایت عمدہ تجزیہ کار اور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھہ تعلیم کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، اگرچہ انہوں نے اسے اپنا پیشہ نہیں بنایا،لیکن انہیںمیڈیکل سائنسز میں گہری دلچسپی ہے اور وہ اس حوالے سے خود کو اپ ڈیٹ رکھتے ہیں۔انہوںنے اگلے ہی روز بلایا اور ایک معلومات سے لبریز لیکچرخاکسار پر انڈیل دیا۔ پینسل ہاتھ میں پکڑے میں نوٹس بناتا رہا اور وہ اس کے مختلف پہلوﺅں کو واضح کرتے رہے۔ بعد میں انٹرنیٹ پر خاصی ریسرچ کی ، مختلف میڈیکل لٹریچر پڑھا، اور پھر معروف فزیشن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عمران حسن خان سے اس پر گھنٹہ بھرکی نشست رکھی۔
اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تین چار بنیادی باتیں سمجھ لیں۔ سب سے پہلی اور اہم ترین یہ کہ شوگر اور بلڈ پریشر ایسی بیماریاں ہیں جنہیں کنٹرول یا مینیج تو کیا جا سکتا ہے، ان کا اس طرح کا علاج نہیں، جس کے بعد یہ ختم ہوجائیں۔ عام فہم الفاظ میں یوں سمجھ لیا جائے کہ انسانی جسم میں بعض ایسی تبدیلیوں یا خرابیوں کے بعد یہ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ،جو علاج سے مکمل ختم نہیں ہوسکتیں۔ ایسے کوئی جادوئی کیپسول یانسخہ جات نہیں، جن کے استعمال سے شوگر کی بیماری جڑ سے ختم ہوجائے ۔ ایسے تمام دعوے جھوٹ اور غلط ہیں۔ شوگر ختم کرنے کے کسی نسخے کی طرف جانے، اپنا پیسہ اور وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی مستند ڈاکٹر سے مشورہ اور علاج کرانا چاہیے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس کے علاج کے لئے ادویات ضروری ہیں، مگر ان سے بھی کہیں زیادہ اہمیت خوراک (Diet)اورایکسرسائز کی ہے۔ مناسب ، صحت مند خوراک کھا کر اور روزانہ صرف تیس منٹ پیدل چل کر آپ اپنی شوگر کو (HbA1cکے مطابق)پورے ایک پوائنٹ نیچے لا سکتے ہیں۔ HbA1cپچھلے تین ماہ کی شوگر ناپنے کا ٹیسٹ ہے، عام طور پر جس کی شوگر چار سے ساڑھے پانچ تک ہے، وہ نارمل سمجھی جاتی ہے، ساڑھے پانچ سے ساڑھے چھ کا مطلب الارم ہے، یعنی اس آدمی کاشوگر میں مبتلا ہونے کے قوی امکانات ہیں، ساڑھے چھ سے اوپر کا مطلب عام طور پر شوگر کی بیماری سمجھی جاتی ہے۔ سنا ہے کہ امریکی ڈایابیٹک ایسوسی ایشن نے اپنی کسی تازہ اشاعت میں اسے تھوڑا سا مزید بڑھادیا ہے، مگر ہمارے ہاں ابھی یہی پیمانہ رائج ہے۔ شوگر کے مریض ہر تین ماہ کے بعد یہ ٹیسٹ کراتے ہیں ، جس میں مختلف نتائج آتے ہیں، کسی کی ساڑھے سات تو کوئی آٹھ، ساڑھے آٹھ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ آدھے گھنٹے روزانہ کی واک اور خوراک پر کنٹرول کے ذریعے اس میں ایک پوائنٹ کی کمی لائی جا سکتی ہے اور یاد رکھیں کہ یہ بہت اہم اور بڑی بات ہے۔ ڈاکٹر عام طور پرشوگر کی مثال چارپائی کی دیتے ہیں، جس کے چار پائے ہیں اور ایک بھی اگر ٹوٹا ہو تو توازن بگڑ جائے گا۔ پہلا پایہ یا ٹانگ خوراک، دوسری ورزش، تیسری دوائی اور چوتھا ٹینشن یا سٹریس سے محفوظ رہنا۔ ہمارے جیسے ممالک اور ماحول میں یہ چوتھا فیکٹر اکثر کنٹرول سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے میں پہلے دو کو بہتر طریقے سے مینج کر کے ہم تیسرے کی مدد سے بیماری کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ دوائی کھانا بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے اور اجازت کے بغیر ازخود دوائی چھوڑ دینے کا فیصلہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ میری دونوں بڑی بہنوں کو یہ مرض لاحق ہے۔ ایک بارانہیںایک غیر ملکی معروف فزیشن کا قول سنایا کہ جو شخص آپ کو دوائی چھوڑ دینے کا مشورہ دیتا ہے ، وہ بے وقوف ہے یا آپ کا دشمن، اس لئے دونوں صورتوں میں اس مشورے کو فوری رد یا نظرانداز کر دیں اور صرف مستند ڈاکٹر یعنی کسی ایم بی بی ایس کے مشورے پر انحصار کریں۔
ورزش کے حوالے سے زیادہ بات اس لئے نہیں کروں گا کہ ابھی خاکسار خود اس میدان میں ناپختہ اور اناڑی ہے۔ اگر واک کی عادت ہوتی تو یہ مسائل لاحق ہی کیوں ہوتے۔ لاہور کے ممتاز روحانی سکالر اور صاحب عرفان بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب نے مجھے دو سال پہلے ایک ملاقات میں اچانک تنبیہ کی کہ فوری طور پر تیز واک کی عادت ڈال لوں، ورنہ صحت کے حوالے سے کئی مسائل لاحق ہوجائیں گے۔ شاہ صاحب کی بات کبھی نہیں ٹالتا اور ان کے مشورے کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، اس کے باوجود کوتاہی ہوتی رہی اور جس کا اندیشہ تھا، وہ ہوگیا۔ اب اللہ نے چاہا تو باقاعدگی کی جائے گی۔ خوراک کے حوالے سے دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ شوگر یا ذیابیطس کی حقیقت یہ ہے کہ انسانی جسم میں لبلبہ یا پنکریاس قدرتی طور پر انسولین بناتا ہے جس کا کام خون میں شوگر کی سطح کو کم کرنا ہے، وہ جسم کو شوگر خاص سطح تک رکھنے اور سٹور کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جب کسی بھی وجہ سے لبلبہ اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو خون میں شوگر کی سطح بڑھ جاتی ہے۔انسانی جسم اپنے انداز میں اس بڑھتی ہوئی شوگر سے جان چھڑاتا ہے، وہ پیشاب کے راستے یہ شوگر جسم سے نکال دیتا ہے، اس سے اچانک کمزوری یا نقاہت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ شوگر میں انسولین اسی لئے لی جاتی ہے کہ قدرتی طریقے سے لبلبہ انسولین یا بنا نہیں رہا یا جتنی چاہیے اتنی نہیں بنا سکتا۔ اگر شوگر کا مناسب علاج نہ ہو، تو جسم جب شوگر کی کمی پائے گا تو وہ چربی پگھلا کر اپنی ضرورت پوری کرے گا، اس کے ساتھ مسلز بھی پگھلیں گے ۔ شوگر کے مرض میں جو لوگ اچانک دبلے یا کمزور ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے ۔بہتر یہ ہے کہ آپ ایکسرسائز کے ذریعے اپنا وزن کم خود گھٹائیں، اس سے آپ کے مسلز مضبوط ہوں گے اور صرف نقصان دہ چربی گھٹے گی۔یہ بھی یاد رکھیں کہ کھانے کی ہر چیز سے شوگر یعنی انرجی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے خوراک وہ کھائی جائے ، جس میں کیلوریز کم ہوں اور جو قدرے پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہو۔ جتنی آپ ریفائن شکل میں شوگر والی چیزیں کھائیں گے ، اتنی تیزی سے جسم میں شوگر کا لیول بڑھے گا۔ چینی، مٹھائی، بیکری آئٹم، کولڈ ڈرنک، تلی ہوئی چیزیں، نان وغیرہ اپنی خوراک سے نکالنے ہوں گے۔جو کا دلیہ، چوکر والے آٹے کی روٹی، بران بریڈ استعمال کریں، سلاد خوب کھائیں، اگر ممکن ہو تو ایک ٹائم خوب کھالینے کے بجائے چار پانچ بار تھوڑا تھوڑااور صحت مند غذا لیں۔ اس سے شوگر کی سطح بتدریج اور سست رفتار سے بڑھے گی اور معاملات کنٹرول میں رہیں گے۔ کبھی ہوٹلنگ کرنا یا دعوت میں جانا پڑے تو اس کی سزا مزید آدھے گھنٹے کی واک اور آئندہ دنوں میں مزید احتیاط ہے۔ شوگر کہانی پیش خدمت ہے۔حرف آخر یہی کہ شارٹ کٹ کوئی نہیں، اس کے ساتھ اچھے سے زندہ رہنا سیکھنا پڑے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔