بن جوسہ مشاعرے کی دعوت کیا ملی کہ جھیل کی طلسماتی فضاؤں نے حصار کھینچ لیا۔ وادیء پرل کا یہ انمول نگینہ دیکھنے سیلانی کھنچے چلے جاتے ہیں۔ دیو قامت درخت، سبزہ زار، چہچہاتے پرندے، ڈبکیاں لگاتے ابابیل، تیرتی بطخیں، پرسکون اور پرسکوت کشتیاں، سجے سجائے گھوڑے۔۔۔ کیا ''فیسی نیشن'' ہے۔
جنت نظیر کشمیر کا ماضی بے شمار تہذیبی رنگا رنگی لیے ہوئے ہے۔ کبھی ڈل کنارے شالیمار، نشاط، نگین، چار چنار میں رقص، موسیقی اور شاعری کی محفلیں جمتی تھیں۔ کشمیر اب پھر تہذیبی انگڑائی لینے لگا ہے۔ تھوڑا عرصہ پہلے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے تحت کشمیر کا پہلا مشاعرہ راولاکوٹ میں ہوا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شعر کشمیر کا اٹوٹ انگ ہو گیا۔
حسن ظہیر راجہ کی ہم سفری نے راستے کو سخن کے رنگوں اور خوشبوؤں سے بھر دیا۔ یہ نشاط دریا کے ساتھ ساتھ کٹی پھٹی ''شہ رگ'' کو دیکھ کر ٹوٹ گیا۔ اگر آزاد پتن کا نام لکشمن پتن ہی رہنے دیا جاتا تو کم از کم لفظ آزاد کی حرمت پر حرف تو نہ آتا۔ کشمیر کا '' دردی '' کاشر یاد آ گیا ؎
اے پیار میں اجڑی ہوئی وادی! کوئی رستہ؟
اے درد کے مقبوضہ علاقے! کوئی منزل؟
راستے میں ''کاشر دیش ہوٹل'' میں لفظ دیش پر چائے کی پیالی میں جب طوفان برپا ہوا تو میرا دھیان اکہتر کی طرف چلا گیا۔ کاش! اٹھتالیس کی طرف بھی جاتا؎
بس اتنے پہ بس نہیں کشمیر
ہم تھے آزاد کے علاوہ بھی
سخن کے مقامی حلقوں میں بن جوسہ مشاعرہ اتنا اٹھا ہوا تھا کہ بن جوسہ روڈ کے بیٹھنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ مصطفٰے زیدی کے ساتھ ساتھ کاشر بھی یاد آتا رہا ؎
تو اس کا عادی نہیں ہے سو احتیاط سے چل
ہمارے گاؤں کی پتھریلی ہے زمیں میرے دوست
بن جوسہ کی وجہ شہرت اس کی جھیل ہے لیکن ڈوگرہ جبر کو للکارنے والے کیپٹن حسین خان شہید اور سردار بہادر علی خان شہید کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ اب ادبی محاذ پر یہ علم شوزیب کاشر نے اٹھایا ہوا ہے۔
بن جوسہ جانے کب سے آباد ہے۔ آبادی کا اندازہ اس کے تعلیمی اداروں کی کثرت سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن آج مرکز نگاہ تفہیم العلوم ہائی اسکول بن جوسہ تھا۔ تقریب شروع ہو چکی تھی۔ صاحبِ شام کی کہی نعت کی خوشبو سے بن جوسہ کی فضائیں معطر تھیں ؎
پوشاک عمل جامہ کردار پہن لوں
سر تا بقدم اُسوہ سرکار پہن لوں
ایماں کے لیے حسن عمل بھی ہے ضروری
یہ کیا کہ فقط جبہ و دستار پہن لوں
مشاعرے میں صاحبِ نظامت، صاحبِ خمیازہ اور صاحبِ صدارت تینوں مترنم تھے۔ لیکن آواز کا جادو عطاس احمد عطاس، امتیاز شائق اورمیزبانِ خاص فاروق صابر نے جگایا۔ ناظمِ مشاعرہ صداقت طاہر کے طاہرِ خیال کی اڑان دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک پردرد نظم سے وہ افسوں پڑھا کہ مشاعرہ ابتدا میں ہی انتہا کو چھونے لگا۔
کاشر نے کہا ہے کہ ''کیل سے میرپور تک تیری غزل کی دھوم ہے'' گو کہ کاشر کی غزل کی دھوم پورے عالمِ اردو میں ہے لیکن بن جوسہ کے مشاعرے میں کیل سے میرپور تک کے شعرا موجود تھے۔ جنہوں نے لفظوں کو وہ معنی پہنائے کہ بن جوسہ کے تابدار موتی داد کے لیے بے تابانہ اٹھنے لگے۔
زعفران کا کشمیر سے خصوصی تعلق ہے۔ اس لیے اہلِ کشمیر کی طبیعتوں میں درد کے ساتھ لطافت کا تناسب بھی بہت ہے۔ حمید کامران اور عبدالبصیر تاجور نے محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ تاجور نے خمیازہ پر بطرزِ یوسفی لطیف اظہار بھی کیا اورصاحبِ کتاب کی جون ایلیائی نسبتوں پر چٹخارہ دار گفتگو کی۔
ایک منکوحہ گھر پہ ہوتی ہے
اک پری زاد کے علاوہ بھی
جونؔ سے نسبتِ تلمّذ ہے
میرؔ اُستاد کے علاوہ بھی
مشاعرے میں دریا موضوعِ سخن رہا۔ کشمیر کے وسائل کے حوالے سے اہلِ کشمیر کا اضطراب واضح طور پر ان کے اشعار میں جھلکتا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ نیلم و روبی کے لیے تحریکِ مزاحمت کا آغاز ہو گیا ہے ؎
یہ وہ غم ہے کہ نہیں جس کی تلافی ممکن
چھین کر لے گئے اغیار مقدر میرا
کشمیری مشاعروں کا لو بلڈ پریشر نارمل کرنے میں کاشر کی حشرخیز داد کا بڑا دخل ہے۔ داد کی یہ کاشری ادا منتشر مشاعرے کو کامیاب شو میں بدل دیتی ہے۔ لیکن اس مشاعرے میں وہ فاتحانہ سکون میں تھے۔ سخن کی شاہراہ پر شوزیب نے اتنی تازہ لکیریں کھینچی ہیں کہ ان کا مہاتمائی اطمیان قابلِ فہم ہے۔
بنجوسہ جھیل کے قریب ایک ہوٹل میں شاندار ڈنر کا اہتمام تھا۔ پہاڑوں کی اس آغوش میں رات کی تمام تر رنگینیاں اترنے لگی تھیں۔ اصرار بھی بہت تھا، دل بھی مصر تھا، قدم بھی بوجھل تھے۔۔۔۔ لیکن اٹھانے پڑ گئے؎
ہر آن سیاحت میں ہے پاؤں کا پہیہ
گاہے کوئی منزل ہے تو گاہے کوئی منزل