ہمارے دور میں سکولوں میں ایک پی ٹی ماسڑ ہوتا تھا جس کے ذمہ دو تین کام ہوتے تھے ، بچوں کو وہ ایکسرسائز یعنی پی ٹی کرتا تھا ، کوئی ماسڑ چُھٹی پہ ہوتا تو اس کا پیریڈ لیتا تھا یا پھر صبح موٹا سا ڈانڈا لے کے گیٹ پہ کھڑا ہو جاتا تھا اور دسمبر کے مہینے جو بچے لیٹ آتے وہ ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پہ زور زور سے دو دو ڈنڈے مارتا تھا اگر کسی دن وہ دو کی بجائے پانچ ڈنڈے مارتا تو پتہ چل جاتا ماسڑانی نے اج ماسڑ جی کو بغیر ناشتے کے سکول بیجھا ہے یا ماسڑ جی کو اج اپنی شلوار میں آزاربند خود ڈالنا پڑا ہے
کل میں نے فیس بک پہ ایک ویڈیو دیکھی جس میں چترال کے سکول کا ایک ماسڑ چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے بچیاں کو جو چار پانچ سات سال کے ہونگے لیٹ آنے پہ ایک موٹے اور لمبے سے ڈنڈے کے ساتھ اس طرح مار رہا تھا کہ کوئی جانوروں کو بھی اس طرح نہیں مارتا ہوگا اگر کوئی بچہ ایک ڈانڈا کھا کر بھاگ جاتا تو وہ اسے واپس بلا کر ڈنڈوں کے مارنے کی تعداد پوری کر رہا تھا بچے ڈنڈے کھاتے اور خود کو اس درندے سے بچانے کے لیے سارے میدان میں دوڑتے پھرتے تھے
میں سوچ رہا ہوں ہمارا معاشرہ کتنا اذیت زدہ ہو گیا ہے تشدد زدہ ہو گیا ہے غیرت زدہ ہو گیا ہے مذہبی زدہ ہو گیا ہے ،، بازار میں جائیں تو بسوں کاروں رکشوں کے ہارن ہم پہ تشدد کر رہے ہوتے ہیں گھر میں بیٹھیں تو آٹھ آٹھ دس دس سپیکروں سے اذانیں نعتیں اور خطبے تشدد کر رہے ہوتے ہیں ٹی وی کے اُگے بیٹھیں تو ٹاک شو میں بیٹھے لو گ منہ سے جھاگ نکالتے گلے پھاڑ پھاڑ کر سیاست دانوں کو گالیاں اور رو رو کر ملک کے سپاہ سلار کو ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی دُعایں ہم پی تشدد کر رہی ہوتی ہیں اوریا مقبول جان یہ بتا بتا کر ہم پہ تشدد کر رہا ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود پہ تشدد کرانے سے انہیں تسکین ہوتی ہے عورتوں کو خود پہ تشدد کرانے سے مزا آتا ہے
سولہ سالہ بھائی اپنی بہن کو قتل کر کے اس کی لاش گلی میں رکھ کو ہنس ہنس کر اپنے موبائل سے کسی کے ساتھ چیٹ کر رہا ہے اور لوگ پاس کھڑے ہنس ہنس کے باتیں کر تہے ہیں
باپ بھائی چاچے مامو لڑکی کو ہائی کورٹ کے باہر اینٹیں مار مار کے اسے سنگسار کر رہے اور وکیل انسانی حقوق کے مقدمے کی سماعت کے لیے قریب سے تیزی کے ساتھ دوڑ رہے ہیں
ایمبولینس سے ایک ادمی نکلتا ہے اور لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے مجھے راستہ دو مگر لوگ اسے مار کر اسی ایمبو لینس میں اسے ڈال دیتے ہیں
کسی وزیر کسی ؤڈیرے کے بچےکی پجارو کو کوئی کانسٹیبل روکتا ہے تو بچہ گھر جا کے بندوق اُٹھاتا ہے اور واپس آ کر اس کانسٹیبل کو قتل کر دیتا ہے
کانسٹیبل رکشے والے پہ تشدد کرتا ہے ، رکشے والا اپنا غصہ سواری پہ اتارتاہےاورسواری گھر جا کے اپنے بچوں اور سارے دن کے کام کرتی تھکی بیوی پہ تشدد کر کے اپنا غصہ نکال رہا ہے
ایک شہر کے پولیس کا ایک ایس پی ایک مجرم کو پکڑتا ہے اس کا مار مار کر مار دیتا ہے پھر اس کی لاش کو اپنی جیپ کے پیچھے باند کر سارے شہر میں جیپ چلاتا ہے کچھ ہی عرصے بعد اسی شہر میں چند لڑکے دو بھائیوں کو کر کٹ کے کھیل میں لڑائی ہونے کی بنا پہ ان کا باند کر اُلٹا لٹکا کر لاٹھیوں ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں اور ہجوم اپنے موبائل سے فلم بتا رہتا ہے
بسوں سے مخصوص ناموں والوں کو اتارا جا تا ہے ان کی گردنیں مذہبی کھردرے چھروں سے کاٹ کر الگ کی جاتی ہیں اور ان گردنوں کو ان کے بالوں سے پکڑ کر مذہبی قہقہے لگاتے فلمیں بنائی جا رہی ہیں
فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلا جا رہا ہے اور فوجی ٹارچر سیلوں میں لوگوں کے ناخن اکھاڑ رہے ہیں ان پہ تشدد کر کر کے ان سے اعترافی بیان لے رہے ہیں
مگر کل تو انتہا ہو گئی
سندھ کی پولیس کا آئی جی ٹی وی پہ لوگوں کو کہہ رہا تھا
جن لوگوں کے پاس قانونی اسلحہ ہے کیا انہوں نے یہ اسلحہ
شوکیسوں میں رکھنے کے لیے رکھا ہے لوگ یہ اسلحہ لے کر باہر نکلیں اور ان مجرموں کو ختم کریں
ملک میں خانہ جنگی کرانے کا اس سے قیمتی مشورہ اور کوئی نہیں ہو سکتا
یہ بستی کب محبت کرنے لگے کی
کب سب۔ مل کر محبت کی نظم۔ لکھیں گے
————-
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154404929088390
“