کچھ باتیں، کچھ واقعات اور کچھ شخصیات … بچپن کے حوالے سے کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں۔ ایک بزرگ آتے تھے انہوں نے پاؤں میں چرمی موزے پہنے ہوتے تھے۔ تہمند، چرمی موزے اور کْھسہ نما جوتے ان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے۔ ایک اور بزرگ تشریف لاتے تو بوٹ پہننے کیلئے جیب سے لوہے کا ایک ہموار چوڑا ٹکڑا نکالتے جسے وہ چمچ کہتے تھے۔ جوتا پہنتے وقت وہ اس چمچ کو جوتے کے پچھلے حصے کی دیوار کے اندر رکھتے تھے۔ ہینڈل انکے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جوتے کے آگے کے حصے میں پاؤں کا پنجہ ڈالتے تو ایڑی چمچ کے ساتھ پھسلتی ہوئی بڑی سہولت کے ساتھ خود بخود اندر چلی جاتی۔استعمال کرنے کے بعد وہ کبھی بھول کر بھی جوتے کے اس چمچ کو باہر نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ جیب میں ڈال لیتے تھے۔
تقریباً دو سال پہلے مجھے احساس ہوا کہ جوتے پہنتے وقت دقت ہوتی ہے۔ وہ بزرگ یاد آئے۔ مجھے جوتوں والے چمچ کی ضرورت محسوس ہوئی [کیا اس چمچ کا عمر کے ساتھ کوئی ربط ہے ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرطور میں نے کسی نوجوان یا جوان شخص کو یہ آلہ سہولت استعمال کرتے نہیں دیکھا۔]ایک دکان سے مجھے وہ چمچ مل گیا لیکن خیال آیا کہ چمچ لمبے سائز کا ہونا چاہئے، یوں کہ جوتے پہنتے وقت جھکنا نہ پڑے۔ تلاش کی کہیں نہ ملا۔ پھر لاہور کراچی جانا ہوا تو وہاں بھی نہ ملا۔ واشنگٹن ڈی سی گیا تو تلاشِ بسیار کے بعد ہینڈل والا چمچ ملا۔ تین ماہ پہلے کینیڈا میں تھا تو دو نئی قسم کے چمچ دیکھے۔ ایک ایسا تھا کہ ایک طرف سے جوتوں والی چمچ لگی تھی اور دوسری طرف سے" کْھر کو
"(BACK- SCRATCHER)
تھا جس سے پیٹھ اور کندھوں کے ان حصوں پر کْھجلی کی جاسکتی ہے جہاں ہاتھ نہیں پہنچتے۔ دوسرا تقریباً اڑھائی فٹ لمبا تھا اور بناوٹ ایسی تھی کہ کمال سہولت سے جوتا پہنا دیتا تھا۔ میں نے دونوں خرید لئے، آتے وقت کْھرکو والا تو آ گیا لیکن دوسرا وہیں رہ گیا۔
(Shoe- Horn)
کہتے ہیں۔
ہارن کا لغوی معنی سینگ ہے۔ ابتداء میں شو ہارن سینگ سے بنائے جاتے تھے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی کی بات ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے یہ آلہ موجود نہیں تھا۔ چاندی، پیتل، تانبے ، ایلومینیم اور ہاتھی دانت کے شو ہارن بھی بنتے رہے۔ اسکے موجد کا نام تاہم نہیں معلوم۔ اگرچہ بل کے سینگوں سے بنے ہوئے شو ہارن اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں لیکن آجکل پلاسٹک اور دھات ہی کے زیادہ تر بن رہے ہیں۔ استعمال کرنیوالوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ کچھ لمبے ہینڈل والے چاہتے ہیں اور کچھ چھوٹے لیکن بہت مضبوط جو بھاری جوتوں کے ساتھ کام آ سکیں۔یہ بھی یاد رہے کہ سارے شو ہارن سستے یا عام نہیں ہوتے۔ رالف لارن مشہور ڈیزائن کمپنی ہے۔ اس کا بنا ہوا شو ہارن بیس ہزار روپے میں ملتا ہے۔ یہ نوادرات کے طور پر بھی پائے جاتے ہیں۔ انگلستان کے ایک صاحب کے پاس 1905 کا بنا ہوا شو ہارن ہے۔ اس کا دستہ خالص چاندی کا ہے اور انہوں نے کم از کم قیمت ساڑھے تین ہزار روپے رکھی ہے۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو یہ شو ہارن فروخت کر دیا جائیگا۔ بہت سے لوگ شو ہارن جمع کرتے ہیں اور یہ ان کا اس طرح کامشغلہ ہے‘ جیسے ٹکٹ جمع کرنیوالوں کا ہوتا ہے۔ اس وقت ایک شخص کے پاس جس کا نام جان موکلر ہے، دنیا میں سب سے زیادہ شو ہارن ہیں۔ ابتداء میں اس کا ارادہ تھا کہ ذاتی استعمال کیلئے ایک آدھ خریدے لیکن شوق کا کوئی مول نہیں اس کو شو ہارن جمع کرنے کی لت پڑ گئی۔ اب اس کے پاس آٹھ سو پندرہ شو ہارن ہیں۔ اس نے انہیں ترتیب سے رکھا ہوا ہے اور کیٹلاگ بنائے ہوئے ہیں۔ اس ذخیرے میں چاندی پیتل تانبے، سٹین لیس سٹیل، ایلومینیم، ہاتھی دانت، لکڑی، پلاسٹک اور کچھوے کی کھال سے بنے ہوئے شو ہارن شامل ہیں۔ یہ دنیا کے مختلف ملکوں کے بنے ہوئے ہیں۔
یہ ساری تمہید بے غرض نہیں۔ میں نے شو ہارن کی بناوٹ، طریقِ استعمال اور فوائد پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ شو ہارن کا آمریت کیساتھ گہرا تعلق ہے۔ آپ ایوب خان کا نام سنیں گے تو ساتھ ہی معاً آپکو الطاف گوہر یا قدرت اللہ شہاب یاد آ جائیں گے۔ ایوب خان نے جو ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا تھا، اسکے خالق الطاف گوہر ہی تھے لیکن آپ قائِداعظم یا لیاقت علی خان کا نام لیں گے تو کسی چمچے کسی شو ہارن کا نام آپ کو یاد آئے گا نہ کوئی ایسا آلہ وہ استعمال کرتے تھے۔ ضیاء الحق پاکستان پر حکومت کرنیوالوں میں چالاک ترین تھے۔ انہوں نے ایک دو شو ہارن پر اکتفا نہیں کیا۔ ان کے پاس درجنوں کیا بیسیوں چمچ تھے اور ہر قسم کے لمبے ہینڈل والے بھی ، مضبوط دستوں والے بھی اور ایسے بھی جو ایک طرف سے انہیں جوتے پہناتے تھے اور دوسری طرف سے ان کی پیٹھ بھی کھجلاتے تھے۔ ان میں سیاست دان بھی تھے، صحافی بھی اور عباؤں اور دستاروں والے بھی۔ امید ہے آپ کے ذہن میں ان کے نام آ گئے ہوں!۔
جنرل مشرف برسر اقتدار ہوئے تو انہوں نے بھی ضیاء الحق کی پیروی کرتے ہوئے مختلف متعدد اور متنوّع، شو ہارن اکٹھے کئے لیکن ان کا کمال یہ تھا کہ کچھ کو استعمال کرنے کے بعد پھینک بھی دیتے تھے۔ چنانچہ جن شو ہارنوں نے انہیں پہلے دن اقتدار کا جوتا پہنایا، وہ کچھ عرصہ بعد پس منظر میں چلے گئے۔ بیورو کریسی میں سے جو شو ہارن انہوں نے پہلے دن پکڑا، آخر تک اسی کو استعمال کیا اور اس نے بھی جوتے پہنانے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن ان کا اصل شو ہارن ایک سیاسی جماعت تھی اس نے ان کی تن من دھن سے خدمت کی۔ ہروقت انکی جیب میں رہتی۔ جب بھی انہیں جوتا پہننا ہوتا، یہ انکی جیب سے نکلتی، انکے جوتوں کے پچھلے حصے میں سر دیتی۔ ان کی ایڑھی کو اپنے سر سے گزارکر جوتے میں مقیم کرتی اور فوراً انکی جیب میں واپس چلی جاتی! اس سیاسی جماعت کا دستہ چاندی کا ہے۔ یہ نوادرات میں سے ہے۔ کبھی اس کا نام ری پبلکن پارٹی تھا‘ کبھی کنونشن مسلم لیگ! اور پھر قاف لیگ
آجکل یہ نادر شو ہارن برائے فروخت ہے لیکن کوئی بولی دینے والا میسر نہیں آ رہا! لیکن جنرل مشرف کا اصل کارنامہ ایک ایسا شو ہارن تھا جس کے دوسرے طرف کْھرکو لگا ہوا تھا۔ یہ ایک مذہبی رہنما تھے۔ جوتے بھی پہناتے تھے اور پیٹھ بھی کھجاتے تھے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے، شو ہارن اور آمریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہماری سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت کیلئے ’’جدوجہد‘‘ کرتی ہیں، اصلاً آمریت پر مبنی ہیں۔ ساری ون مین شو ہیں۔ ہر سربراہ نے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ مددگار بطور منشی رکھے ہوئے ہیں۔ جو لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔ انگریزی میں تقریریں لکھ کر دیتے ہیں، منشور قسم کے تکلفات تصنیف کرتے ہیں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں یا غیر ملکی عمائدین سے ملاقات کے وقت سیٹھ صاحبان کی معاونت کرتے ہیں۔ کیا اس قبیل کے اصحاب کو شو ہارن کہنا چاہئے؟ مجھے نہیں معلوم! میں اس گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ شو ہارن سونے کا بھی ہو، پلاٹینیم کا بھی ہو، اس میں ہیرے کیوں نہ جڑے ہوئے ہوں، رہے گا وہ شو ہارن ہی، وہ جوتے کا مالک نہیں بن سکتا۔ پہنانے والا ہی رہے گا ، پہننے والا کبھی نہیں بنے گا۔ اگر آپ کو میرے اس نکتے سے اختلاف ہے تو آپ شوق سے اختلاف کریں لیکن میری پیٹھ پر کْھجلی ہو رہی ہے، ہاتھ وہاں پہنچ نہیں رہا، ازراہ لطف و عنایت یہ شو ہارن جو میں کینیڈا سے خرید کر لایا ہوں، اٹھائیے۔ اسکے ایک سرے پر کْھرکو لگا ہے، ذرا میری پیٹھ پر اس سے کھجلی کر دیجئے!۔
جوتے کے اس چمچ کو شو ہارن
http://columns.izharulhaq.net/2009_12_01_archive.html
“