علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی،شعبہ اردو میںمصلح قوم سر سید احمد خان کے جشن یوم پیدائش تقریبات کے تحت ایک آن لائن ادبی جلسہ کا انعقاد کیا گیا جسن میں طلبا اور اساتذہ نے محسن قوم و ملت سر سید احمد خان کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر طلبا نے سر سید کی تصنیفات سے اقتباسات،ان کے مختصر مضامین اورخدمات کا جائزہ پیش کیا جبکہ اساتذہ نے اپنے مقالات میں سر سید کی عصری معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے پیغام کو عام کرنے اور خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیا۔آغاز محمد صنور ریاض کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر خالد سیف اللہ نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ یوم جمہوریہ،یوم آزادی اور یوم سر سید تقریبات کا سلسلہ شعبہ اردو کی تقریب سے ہوتا ہے۔کووڈ ۱۹ کی وجہ سے آن لائن منعقدہ اس تقریب میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہا کہ ۱۸۵۷ کے بعد مسلمانوں کی پستی کو دور کرنے کے لئے سر سید احمد خان نے جو کوششیں کیں وہ رہتی دنیا تک ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔انھوں نے کہا کہ سر سید ہندوستان کی تمام اقوام کی ترقی چاہتے تھے۔انھوں نے مسلمانوں کی زیادہ پسماندگی کا خیال کرکے ان کی تعلیمی ترقی اور ذہنی تربیت پر زور دیا۔سائنٹفک سوسائٹی ،ایم اے او کالج اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام ان کے اہم کارنامے ہیں۔ایسی نابغئہ روزگار شخصیت کی خدمات کو یاد کرنا اور ان کے بتائے راستے سے فائدہ حاصل کرنا ہم سب کا مقصد ہونا چاہئے۔اس سے قبل صدر شعبہ اردو پرو فیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ دیرینہ روایت کے احترام میں اس جلسہ کا انعقاد خوش آئند ہے۔انھوں نے کہا کہ معمار قوم سر سید نے جذبات کی زیادتی سے ہونے والے نقصان کی نشاندہی کرتے ہوئے عقل و دانش سے کام لینے کو کامیابی کی کلید بتایا تھا۔انھوں نے کہا کہ سر سید نے جذبات پر قابو رکھنے کی تلقین کی اور طلبا کی تربیت پر خاص توجہ دی تھی ۔شعبہ اردو میں اس جلسہ کے ذریعہ بھی طلبا کی تربیت کی گئی ہے جس میں طلبا نے اساتذہ کی نگرانی میں مقالے تیار اور پیش کئے ہیں۔پروفیسر قمر الہدی فریدی نے ’’عہد حاضر میں سر سید کی معنویت ‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سر سید نے جذبات اور عقل کے درمیان توازن رکھنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ سر سید نے تعلیمی بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی تھی جس نے طول و ارض میں بیداری پیدا کی۔ عہد حاضر میں ایسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے۔پروفیسر فریدی نے خود احتسابی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ڈاکٹر امتیاز احمد نے سر سید پر آل احمد سرورکی تحریروں کے حوالے سے گفتگو کی ۔انھوں نے دنیاوی قدروں،روایت کی اہمیت،مذہبی طرز فکر،آزادیء تخیل ،عقلی دلائل جیسے نکات کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ سر سید نے کالج کے لئے کئی قربانیاں پیش کیں اور اس کی وجہ سے تہذیب الاخلاق کی اشاعت ملتوی کر نی پڑی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغام سر سید کو فروغ دیا جائے۔اس موقع پر محمد اویس،احمد صالح،صبا منور،محمد وسیم،عبدالکریم،محمد کونین رضا،نعمان خان اور متین اشرف نے سر سید کی تصانیف سے اقتباسات و مضامین نیز سر سید کی حیات و خدمات پرخود کے تحریر کردہ مضامین پیش کئے ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر معید رشیدی نے بحسن خوبی انجام دیے۔اس موقع پر کوآرڈینیٹرپروفیسر سید محمد ہاشم،پروفیسر سراج اجملی ،پروفیسر سیما صغیر،پروفیسر قاضی جمال حسین،ڈاکٹر سنجیدہ خاتون،ڈاکٹر فرقان سنبھلی وغیرہ موجود رہے۔