اردو کے چار معروف ادیبوں اور شعراء کے سانحہ ارتحال پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے کانفرنس حال میںایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد لاک ڈائون اور سوشل ڈسٹنسنگ کی شرائط و ضوابط کی پاسداری کے ساتھ کیا گیا۔اس موقع پر تعزیتی قرارداد پیش کرنے کے ساتھ دو منٹ کی خموشی اختیار کرکے مرحومین کے لئے دعا کی گئی۔صدر شعبہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے کہا کہ پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی،مظہر محمود شیرانی ، مجتبی حسین،آصف فرخی جیسی معروف علمی و ادبی شخصیات کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔انھوں نے کہا کہ مجتبی حسین دہلی میں رہے تو ادبی محفلوں میں خوب شرکت کرتے تھے،آصف فرخی اپنے والد کی طرح خود بھی عمدہ علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔مظہر محمود شیرانی نے اپنے والد اختر شیرانی کی جگہ دادا کی علمی و تحقییقی روش کو اپنایا ۔اسلم فرخی نے محمد حسین آزاد پر وقیع علی و تحقیقی کام کیا تھا آصف فرخی پیشہ سے معالج ہونے کے باوجود اپنے والد کی علمی وراثت کے امین تھے۔سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی شعبہ اردو کے ڈائریکٹر پروفیسر سید محمد ہاشم نے کہا کہ مشترکہ تہذیب کی نمائندہ شخصیت گلزار دہلوی کے لباس،گفتگو،اور لہجے سے اردو کی نفاست جھلکتی تھی۔وہ انتہائی عقیدت سے نعتیہ کلام پڑھتے اور ہر ایک سے خلوص کے ساتھ ملتے تھے۔سہ ماہی ’فکر و نظر‘ کے مشتاق یوسفی نمبر کے سلسلے میں مجتبی حسین نے فون کرکے خود ایک مضمون ارسال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے کہا کہ گلزار دہلوی اردو تہذیب میں رچے بسے شخص تھے۔ان میں خالص اردو پن تھا۔اب ایسے لوگ کم ہوتے جارہے ہیں۔پروفیسر مولا بخش نے کہا کہ مجتبی حسین کے خاکے بہت پسند کئے جاتے ہیں اور انھوں نے خاکہ نگاری کی تاریخ میں اپنی منفرد شناخت قائم کی۔انھوں نے کہا کہ گلزار دہلوی نے طویل عمر پائی لیکن آخری عمر تک چاک و چوبند رہے۔
نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے پروفیسر سیدسراج اجملی نے گلزار دہلوی کی وفات پر لکھی تاریخیں پیش کیں اور تعزیتی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ادبی ،تہذیبی اور ثقافتی خدمات کے اعتراف میں دنیا بھر میں اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی تعزیتی قرارداد پیش کرتے ہوئے پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہا کہ وہ اپنی ۳۵ سالہ تدریسی خدمات کے دوران بھی ادبی تحقیق میں مسلسل مصروف رہے۔انھوں نے مقالات محمود شیرانی اور ’حافظ محمود شیرانی کتابیات‘ ترتیب دی جوان کا اہم کارنامہ ہے۔ڈاکٹر امتیاز احمد نے آصف فرخی کی افسانہ نگاری،تنقید،ادبی صحافت اور ترجمہ نگاری کا جائزہ پیش کیا جبکہ ڈاکٹر معید الرحمن نے کہا کہ مجتبی حسین کی ادبی شناخت کا مرکزی حوالہ طنز و مزاح ہے۔اس سے قبل جلسہ کا آغاز ڈاکٹر عرفان ندوی کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ڈاکٹر خالد سیف اللہ،ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی،ڈاکٹر مامون احمد،ڈاکٹر محمد زکریہ،ڈاکٹر فرقان سنبھلی،ڈاکٹر حامد رضا وغیرہ نے شرکت کی۔اختتام پر دو منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہوئے مرحومین کے لئے دعا برائے ایصال ثواب کی گئی۔