شو کمار بٹالوی جب لندن میں چھ مہینے رہ کر آیا تو میں اسے ملنے گیا۔۔۔۔۔
میں نے شو سے کہا کہ مجھے لندن کی کوئی بات سناو،کیسے ہیں وہاں کے لوگ؟
شو بولا : " سارے پونڈز کے بھوکے ، ہر کوئی شاعر ہر کوئی ادیب ، انہوں نے برطانیہ فتح کرلیا ہے۔وہ پنجاب سے آئے شاعروں کی خدمت تو کرتے ہیں مگر ان سے نفرت بھی کرتے ہیں۔مجھے وہاں پاکستان کی ایک شاعرہ – سر ڈاکٹر محمد اقبال کی پوتی ملی ، نہایت خوبصورت لڑکی تھی۔مجھ پر دل و جان سے فدا ہوگئی۔اس کے لو لیٹرز ، اور دو چار لڑکیوں کے ، میں نے ان لڑکیوں کا اچار ڈالنا ہے؟مجھے شراب پلا کر میرے گیت سنتے تھے۔میں نے کہہ دیا کہ ایک شام کا پانچ سو پونڈ لونگا۔انہوں نے گھٹنے ٹیک کر پیسے دیے۔میں تو شاعر ہوں۔۔شو۔۔ان کا باپ۔۔۔مگر وہ لڑکی۔۔سائرہ بانو یا نسیم بانو مجھ پہ فدا ہوگئی۔مجھے کیا پرواہ۔۔مجھے گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ارونا۔۔۔وہسکی ، میرے بچے،میرا بیٹا۔۔"
ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے شو کی حالت واضح ہورہی تھی۔کرچی کرچی ہوا من ، ٹوٹتے الفاظ بے ربط فقرے۔۔وہ ایسے بات کررہا تھا جیسے مجھ سے نہیں کسی اور سے بات کررہا ہو۔
کئی دن بعد اطلاع ملی کہ شو بیمار ہے۔میں اسے ملنے گیا تو بالکل الٹی سیدھی بے تکی باتیں کررہا تھا۔مجھے آج تک اس کا زرد چہرہ اور مرجھائی آنکھیں یاد ہیں۔۔۔۔۔
شو کو ایک دن اسپتال ملنے گیا تو وہ پرائیوٹ روم میں چارپائی پہ لیٹا تھا۔دوائی کی شیشیاں ، اسپتال کی گھٹن۔۔اس کی پیروں میں وہی دراز قد خوبصورت لڑکی بیٹھی تھی جو اس کے گھر میں روٹیاں پکا رہی تھی۔( غالبا اس کی کوئی مداح)
ایک رات شو اسپتال سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ میں اسپتال میں نہیں مرنا چاہتا۔اسے پھر زبردستی داخل کرایا گیا اور اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔
وہ بستر پہ پڑا اونچی اونچی دھاڑیں مار مار کر روتا اور چیختا چلاتا۔۔"میں مررہا ہوں۔۔۔کہاں ہیں میرے یار دوست۔۔۔کتو ! میں جارہا ہوں۔۔ڈھونڈتے پھرو گے شو کو"
مگر کسی یار دوست کے پاس فرصت نہیں تھی۔کافی ہاوسز میں شاعروں ادیبوں اور پروفیسرز کی بیٹھکیں جمتی تھیں۔مگر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ شو کو ملنے اسپتال چلے جاتے۔
پھر ایک دن اطلاع ملی کہ شو نے مجھے فورا ملنے کا کہا ہے۔صبح کو شو بٹالہ جارہا ہے۔آدھی رات کا وقت تھا۔میں نے سوچا کہ صبح سویرے چلا جاون گا۔۔دل میں یہ خوف بھی تھا کہ شو اگر اس دفعہ بٹالہ چلا گیا تو نہ جانے کب ملاقات ہو۔غرض صبح ساڑھے پانچ بجے جب اس کے دوست کے گھر پہنچا جہاں شو ٹھہرا تھا۔معلوم ہوا کہ شو آدھ گھنٹہ قبل بٹالے کیلیے نکل چکا ہے۔میں فورا لاری اڈے کی طرف بھاگا۔۔بسوں میں آدھ گھنٹہ تلاش کرتا رہا۔۔مگر شو ٹیکسی میں اپنے بیوں بچوں کے ساتھ بٹالہ گیا تھا۔راستے میں 22 سیکٹر کے جنگلے کے پاس ٹیکسی رکوائی جہاں وہ دوستوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔۔ باہر نکلا اور نفرت کے ساتھ تھوکا اور بولا " کبھی نہیں آونگا اس کتے شہر میں۔"
بٹالے میں کچھ دن قیام کے بعد وہ اپنے سسرالی گاوں پٹھانکوٹ چلا گیا۔وہاں بھی رات کے وقت دیوانگی کی حالت میں چلاتا۔ساری ساری رات نیند نہیں آتی تھی۔بے بسی سے تمام رات روتا رہتا۔۔۔"ہائے میں اکیلا رہ گیا۔۔کہاں ہیں میرے یار دوست؟"۔۔۔۔
گیدڑوں کے رونے کی آواز میں شو کمار کی سسکیاں دب جاتی۔6 مئی 1973 کو شو کی آتما کو ہمیشہ کیلیے شانتی مل گئی۔
" حسین چہرے " از بلونت گرگی مطبوعہ نویوگ پبلشرز
ترجمہ : حسنین چوہدری