شیراز حیدر کا مکان، ہماری تعمیر اور گولڑہ کا دورہ
میں اسلام آباد میں ہوں ، جاوید انور صاحب کی برکت سے ریلوے ریسٹ ہاوس میں ٹھہرا ہوں۔ ایچ ایٹ کا قبرستان میرے سامنے ہے ، دائیں ہاتھ اکادمی ادبیات پاکستان کا دفتر ہے، پچھلی طرف اوپن یونیوسٹی ہے، اگواڑے میں مقتدرہ قومی زبان ہے ۔ عین پاس الشفا انٹر نیشنل ہاسپٹل ہے ۔آپ سمجھیے اِس وقت مُردوں ،ذہنی بیماروں اور بیماروں کے درمیان بیٹھا ہوں اوریہ تحریر کھینچ رہا ہوں ۔ کل صبح کا ناشتہ مَیں نے اور سید منظر نقوی اور جاوید انور صاحب نے سید وقار شیرازی کے حسنی لنگر سے کیا اور ایسا کیا کہ میری دو مہینے کی ڈایٹ چوپٹ ہو گئی ۔اُس کے بعد ڈی ایچ اے کا دورہ فرمایا ،جہاں میں نے اور میرے بھائی علی اشرف نے مل کے شیراز حیدر کا مکان بنایا ۔ مکان کی تصویریں دکھاتا ہوں ۔ وہیں افتخار عارف صاحب سے گھنٹوں ملاقات کی ،بہت یادیں ،باتیں ،یادداشتیں سنیں سنائیں ، چغلی کسی کی نہیں کی ۔ تعریفیں زیادہ تر اپنی ہی کیں۔ تین بجے وآپس آئے ،زیف سید کو ساتھ لیا اور گولڑہ ریلوے میوزیم کا دورہ کرنے نکل گئے ۔ وہاں محمد جاوید انور صاحب نے میوزیم کی بُرقع کشائی کے لیے اسلام آباد کے کچھ ادیبوں اور شاعروں کی محفل جما دی ۔میوزیم بہت خوب تھا ۔
بعد از دیکھنے میوزیم کے اور ریلوے کی تاریخ کے اور گولڑہ سٹیشن کی لیںڈ سکیپ کے ، مشاعرہ ذات کی کوئی چیز شروع ہو گئی ۔ سید منظر نقوی صاحب مفت میں ہاتھ لگے تھے ،اُنھیں صدارت سونپ دی۔ تب سٹیج سیکٹری کھڑے ہوئے ،ایک گھنٹے میں اپنے آنے والے ناول کا تعارف کرایا پھر اسٹیج دوسرے شاعر کو تھمایا ، اُنھوں نے دو میل لمبی دو نظمیں سنائیں ۔ ہم نے جب مشاعرے کی اِس خُوبُو کو دیکھا تو زیف سید اور وقار شیرازی کے ہمراہ بھاگ نکلنے کا عندیہ کیا اور چلے آئے گولڑہ پیر مہر علی شاہ کے آستانے پر ۔ اِس آستانے کی خوبی یہ ہے کہ ہر طرف سنگِ مر مر کا سفید پتھر نہایت خوبی اور بیش قیمتی سے لگا ہے ۔ خلقت کا جم غفیر تھا ، پیسوں غلہ یہاں کا آج بھی بہت بڑا ہے ۔ ہم کوئی بیس برس پہلے یہاں تشریف لائے تھے اور دو واقعے یہاں گزرے تھے ۔آپ بھی سُن لیجیے ۔ اول تو یہ تھا کہ پیر نصیر الدین نصیر گدی نشین تھے ، روزانہ سہہ پہر سماع کی محفل جماتے تھے ، کوئی ڈیڑھ ہزار کا مجمع ارد گرد ہوتا تھا ۔ سب سے پہلے اُن کے سامنے بیرونِ ملک سے آئی ہوئی ڈاک کھولی جاتی تھی ۔
جس میں خطوط کے ساتھ چیک ہوتے تھے ۔ وہ خطوط بغیر پڑھے ایک طرف رکھے جاتےاور چیک پڑھ کر دوسری طرف رکھتے تھے ۔ گھنٹہ بھر میں چیکوں کا ڈھیر لگ جاتا تھا ۔ کئی خطوں میں چیک کی بجائے پیسے نکلتے تھے ، اُن کی بھی وہی ترتیب ہوتی ۔ اُس کے بعد مریدین کی سلامی شروع ہوتی ۔ اِس نیاز میں بھی ایک ٹیلہ کھڑا ہو جاتا ۔ جیسے جیسے ٹیلہ اونچا ہوتا جاتا ،پیر صاحب کے چہرے کے نور میں اضافہ ہوا جاتا ، اسی کی روشنی میں اہلِ ایمان کی جنت تھی ۔ تب محفل سماع شروع ہوتی اور شام کی اذان سے ذرا پہلے ختم ہوتی ۔ بعد ازمغرب لنگر خانہ کھلتا ، اُس میں پہچان رکھے ہوئے مریدوں کو جانے کی اجازت ہوتی ۔ اب سُنیے ایک لنگڑا آدمی رات گئے پکڑا گیا جو آستانے کے غلے کا معائنہ کر رہا تھا ۔ رات بھر اول اُس کی صحت کی درستی نگہبان کرتے رہے ، دوسرے دن پیر نصیر الدین نصیر کی بارگاہ میں بمع غلہ پیش کیا گیا ۔ حکم ہوا اِس کی دوسری ٹانگ پر ڈنڈے مبارک مارے جائیں ۔ ہم یہ منظر دیکھنے سے گھبرائے اور کثیر مجمعے سے باہر آئے ۔
دُور تک چور ھذا کی درود و صلوات ہمارے کانوں میں آتی رہی ۔ چلتے چلتے ہم مرگلہ کی طرف جا نکلے ۔ یہاں ایک دوسرا واقعہ ہوا ۔ ایک بڑا سا شفاف پانی کا نالہ بہے جاتا تھا ۔ وہاں بہت سے لڑکے بالے غوطے لگاتے تھے اور نہاتے تھے۔ ہمارا اپنی جی للچایا ،سمیت کپڑوں کے چھلانگ لگا دی اور خوب نہائے ۔ گھنٹہ بھر کی تیراکیوں کے بعد باہر آئے تو اچانک ہمیں خیال ہوا کہ بھائی یہ پانی آخر کہاں سے آتا ہے ، وہ چشمہ دیکھنا چاہیے ۔ ایک لڑکے سے پوچھا ،میاں صاحب زادے ذرا بتایو یہ ندی کہاں سے نکلتی ہے؟ اُس نے کہا شہر سے نکلتی ہے ۔ ارے ، کیا شہر میں کوئی چشمہ ہے ؟ کہنے لگا نہیں ۔ تو پھر ؟ بولا لوگوں کے گھروں کا پانی ہے ۔ ہم نے وضاحت چاہی ۔ بولا یار کیوں دماغ کھاتے ہو ۔ اب ہم اُس ندی کے ساتھ ساتھ مکرر گولڑہ کی طرف لوٹے ۔ جیسے جیسے گولڑہ بستی کی طرف قریب ہوتے جاتے تھے،ندی کا پانی گدلا ہوا جاتا تھا اور بستی میں داخل ہونے پر کھُلا کہ یہ تو ساری بستی کے گٹر کا گندا پانی تھا اور بہتے بہتے دُور تک جا کر اور پتھروں اور گھاس پھونس اور ریت سے گزر کر ذرا نکھر جاتا ہے ۔ اور اُسی گٹروں کے پانی میں ہم نہائے ہوئے ہیں ۔ بس پھر نہ پوچھیے ہماری حالت کیا ہوئی ، قے اور اُبکائیاں آنے لگیں ۔ ہم فوراً ایک حمام میں گھس گئے ،رگڑ رگڑ کا جسم کو صاف کرنے لگے ، بے شمار کُلیاں کیں، کلمے پڑھ پڑھ کر خلق کو صاف کیا اور نہائے ۔ اُس کے بعد وہاں سے بھاگے اور گولڑہ جانے سے توبہ کی ۔ ہمیں شکایت اپنے سے نہیں اُن لڑکوں سے تھی کہ بھائی دیکھو ہم تو مسافر تھے ،کچھ پتا نہ تھا مگر یہ لڑکے تو مقامی تھے اور سب جانتے تھے کہ یہ گولڑہ کے گندے پانی کا نالہ ہے، پھر بھی اُسی میں نہائے جاتے ہیں ۔ تو بھائی آج بھی لوگ وہیں نہاتے ہیں ، دربار اور آستانہ پہلے سے زیادہ مرمریں ہو گیا ہے ، مگر گندے پانی کا نالہ وہیں ہے اور مزید گندہ ہو گیا ہے ، لوگ بھی وہیں ہیں ۔اور نہاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ اصل میں گندے پانی کا نالہ ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔