زبانوں کی داستان میں ایسا سحر بھرا ہوتا ہے کہ پڑھتے سنتے انسان صدیوں کے تہذیبی و ثقافتی سفر میں کھو سا جاتا ہے۔ دنیازبانوں کا نقارخانہ رہی ہے‘جس میں کئی زبانیں وجود میں آئیں اور دم توڑ بیٹھی اور کئی اپنے وجود کے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے آگے بڑھ گئیں۔ زبانوں کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ کون سی زبان کب اور کیسے وجود میں آئی‘ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب مذہبی‘ تہذیبی اور لسانی و سائنسی سطح پر تحقیقی‘تجزیاتی اور قیاسی فکر ونظر سے موضوع بحث بنتے آئے ہیں۔ کئی زبانیں ایسی بھی ہیں کہ اگرچہ وہ اپنی طویل تاریخ رکھتی ہیں لیکن ان میں سے چند ہی عالمی سطح پرعلمی وادبی منظر نامے پر پھیلی ہوئی ہیں اور باقی اپنا لسانی وادبی تشخص مخصوص خطے تک برقرار رکھنے کی حامل نظر آتی ہیں۔ شینا زبان بھی ایک ایسی قدیم زبان ہے جو ہندآریائی کے دردی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس زبان کی صرفی ونحوی اورلسانی و صوتیاتی نظام پر دردی‘سنسکرت اور فارسی زبانوں کے کافی اثرات ہیں۔تاریخی تناظر میں شینا زبان کا شمار قبل مسیح کی زبانوں میں ہوتا ہے‘اور کہا جاتا ہے کہ یہ زبان قریباَ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ جغرافیائی سطح پر اس کے بولنے والے زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقہ جات (دردستان)میں موجود ہیں۔ اس کے بعد اس زبان کے بولنے والے دراس (کرگل) اور چند دوسری جگہوں پرموجود ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی تعدادقریباَ پینسٹھ لاکھ (650000)ہے۔چند برس قبل جموں وکشمیر کلچرل اکادمی کی طرف سے کرگل میں پانچ روزہ لٹریری کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا جس دوران جموں وکشمیر اور لداخ کے کئی ادباء اور شعراء میں شینا زبان بولنے اور لکھنے والے ادباء اور شعراء نے بھی نثری اور شعری تحریریں اور تخلیقات پیش کی تھیں‘جو سامعین کو بے حد پسند آئی تھیں۔اس طرح اس زبان اور اس کے بولنے والوں کا تعارف ہوا۔ چند برس بعد دراس کی ایک متحرک ادبی تنظیم”ادارہ علم نما دراس“ کی ادبی کانفرنس(3ستمبر2018) میں وہاں کے ایک محنتی‘با صلاحیت اور علم دوست محقق اور افسانہ نگار محمد شفیع ساگر کا تعارف ہوا۔ اس ادبی کانفرنس کے روح رواں شبیر مصباحی اور محمد شفیع ساگر ہی تھے۔ بعدازاں‘ انہوں نے علمی تحفہ بصورت کتاب ”شینا لوک ادب“ (مصنف:محمد شفیع ساگر۔صفحات:190‘سن اشاعت 2017ء۔زیر اہتمام: جموں کشمیر درد شین ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن یونٹ کرگل) سے نوازاتھا۔ چونکہ راقم کو کثیر تعداد میں کتابیں موصول ہوتی ہیں‘جن کے مطالعہ اور کچھ نہ کچھ لکھنے کے لئے وقت بھی درکار ہوتا ہے۔ چند روز قبل کتب خانے میں تلاش کے دوران یہ کتاب نظر آئی۔اب مطالعہ کرنے کے بعد حق مطالعہ کے بطور چند باتیں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
”شینا لوک ادب“ تحقیقی‘ادبی اور ثقافتی نوعیت کی ایک ایسی کتاب ہے جو دراس کے مختصر لیکن جامع تعارف‘ شینا زبان وادب اور اس زبان کے لوک ادب(Folk Literature)مع اردوترجمہ کے شعری اور نثری نگارشات کامعلومات افزا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب درجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے:
’شینا رسم الخط۔۔۔ ضیاسے سامون تک‘’دراس مختصر تعارف‘’شینالوک ادب‘’ماپونیے گائے(ماپون کے گانے)‘’چھلنچے گائے(باراتیوں کے گیت)‘’شادی کا طریقہ‘’شینا دردی سماج میں دال کاہن کی اہمیت‘’اونگالیے‘’پاکستان گلگت اور دراس میں دالوں کو تیار کرنے کا طریقہ‘ ’دال چمرسنگھ اور گلگت کی بھوتنی‘۔
ابتداء میں علاقہ دراس کے جغرافیائی‘موسمی‘ تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی موضوعات و مسائل کی عمدہ معلومات فراہم کی گئی ہے۔ دراس یعنی دردوں کی سرزمین(Land of Dardas)سطح سمند رسے 10660فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ یہاں پر زیادہ تر دردقوم آباد ہے‘جوگلگت دردستان سے یہاں آکر آباد ہوئی تھی۔ کتاب میں دراس کی تاریخی‘ ثقافتی اور سیاحتی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:
”دراس پورے لداخ کا آئینہ ہے۔ یہاں ہر قسم کا کلچر دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ پہلے زمانے میں سینٹرل اشیا کی تجارت کی وجہ سے دراس سیاحت کے لئے ایک اہم جگہ تھی لیکن آزادی کے بعد سنٹرل اشیا کی تجارت ختم ہوگئی
اور دراس سیاحت کے نقشے سے غائب ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اپریل اور مئی کا مہینہ کافی خوبصورت اور خوشگوار ہوتا ہے۔ گوکہ ان مہینوں میں بھی سردی ہوتی ہے اور برف بھی چار پانچ فٹ تک ہوتی ہے مگر دن کو دھوپ میں خوب تپش ہوتی ہے۔۔۔۔۔
پہاڑوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پہاڑوں کی پالش کی گئی ہو۔ جون اور جولائی کے مہینے بہت ہی خوبصورت اور خوشگوار ہوتے ہیں۔ ان مہینوں میں پوری دنیا سے سیاح خاص طور سے ہندوستان کے مختلف شہروں سے سیاح کثرت سے آتےہیں۔۔۔۔ان مہینوں میں موسم کافی خوشگوار ہوتا ہے۔“ (کتاب۔ شینا لوک ادب‘صفحہ:15;16)
دراس 1999ء کی کرگل جنگ(Kargil War) کے بعد میڈیا اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا‘ یہاں پر سیاحت کی ایک اور وجہ اس جنگ کی یاد میں فوج کی طرف سے بنایا گیا کرگل وارمیموریل (Kargil War Memorial)بھی ہے‘جہاں پر سیکڑوں سیلانی آتے رہتے ہیں۔ دراس کا درہ زوجیلہ‘ جس کو شینا زبان میں ”جوجی کھن“ کہا جاتا ہے‘ تاہم یہ زوجیلہ کے نام سے ہی مشہور ہے‘ کھٹن سفر اور سطح سمندر سے11575فٹ بلندی کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہمالیائی کوہ سلسلہ کا یہ بلند پہاڑ کشمیر سے دراس سفر کرنے کے درمیان آتا ہے۔ کتاب میں اس پہاڑ سے متعلق لوک کہانیوں‘ سرما میں سفری مشکلات اور ان مشکلات کے ازالہ کے لئے بن رہی ٹنل کا بھی ذکر ہوا ہے۔ زوجیلہ کے کھٹن سفر سے متعلق شینا زبان کی ضرب المثل بھی پیش ہوئی ہے یعنی”مالو پوچا رے نیکھا تو کھن“(زوجیلہ ایسی جگہ ہے جہاں باپ اپنے بیٹے سے وفا نہیں کرتا۔)‘اس تعلق سے ایک باپ اور بیٹے کی کہانی بھی پیش ہوئی ہے جوکہ زوجیلہ کے سفر سے تعلق رکھتی ہے جب باپ خوف کے مارے بیٹے کو چھوڑ کرچلا جاتا ہے اور بیٹا سردی کے باعث مرگیاتھا۔اس مضمون میں کئی گاؤں سے متعلق دلچسپ باتیں بتائی گئی ہیں۔ جن میں مٹائن/پاندراس‘ گوشن‘مراد باغ‘ ترونگجن‘ لموچن‘ٹسبو‘بھیمبٹ‘چوکیال‘ دندل‘ تھسگام /شمشاہ اور کھربو‘کاکسر‘چھانی گنڈ اور کرکت وغیرہ شامل ہیں‘علاوہ ازیں اس علاقے کے مذہب‘پیشہ اورزبان سے متعلق بھی عمدہ جانکاری فراہم کی گئی ہے۔بقول مصنف‘اس علاقے کاقدیم مذہب اگرچہ ’بون مت‘ تھاجوکہ بعد میں بدھ ازم کے اثرات سے بھی متاثر ہوا۔ تاہم اب یہاں پر مسلمان ہی آباد ہیں۔
کتاب کے مرکزی موضوع”شینا لوک ادب“ پر ایک عمدہ مضمون لکھا گیا ہے‘جس میں ”شینا لوک ادب کے اندر شینا زبان کے قدیم وجدید گانے‘داستانیں‘ پہلیاں‘ضرب المثل‘محاورے وغیرہ شامل ہیں“ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کتاب کے اگلے حصوں میں لوک گیت‘ قصہ کہانیوں وغیرہ کا تحقیقی نوعیت سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ’گیتوں میں ’ماپونئے گائے“ (ماپون کے گانے)‘یہ شادی بیاہ کے موقعے پر گائے جاتے تھے‘پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے اور کئی لوک گیتوں کو بھی پیش کیا گیا ہے؛جیسے:
شود اد وپو چو کئی پاشوک داو۔۔۔۔۔پلاشے جا دیرینی جوک دینا
مالا لوبی لالو کئی پاشوک داو۔۔۔۔۔ پلاشے جاویر ینی جوک دینا
(سفید بزرگ کے پوتے نے پگڑی باندھی‘ لوگ اس پگڑی کی کتنی عزت کرتے ہیں ماں کے لا ڈلے نے پگڑی باندھی ہے‘ لوگ اس پگڑی کی کتنی عزت کرتے ہیں)
مجموعی طور پر کتاب کا مطالعہ دراس کی سرزمین‘تہذیب وکلچر‘ لوک ادب اور شینا زبان سے متعلق تحقیقی انداز کی معلومات افزاء معلومات فراہم کرتاہے۔ لوک ادب کے گیتوں‘اصطلاحوں‘ قصہ کہانیوں وغیرہ کا خوبصورت اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کی تیاری میں مصنف کئی علاقوں کا سفر کرتا رہا ہے اور کئی لوگوں سے ملاقات کرکے مواد جمع کرتا آیا ہے‘جو کہ تحقیقی کام کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ جس کو دیکھ کر کتاب اپنی افادیت میں اضافہ کرتی ہے۔ شینا زبان کے رسم الخط سے متعلق مضمون”شینا رسم الخط ضیا سے سامون تک“ میں بالتفصیل روشنی ڈالی گئی ہے اورلسانی تحقیق کے بعد مسعود حسن سامون کے ایجاد کردہ تحقیقی رسم الخط کو ترجیع دی گئی ہے اور ان کی کتاب”شینا رسم الخط وصوتی نظام“میں پیش ہوئے مباحث کا ذکر بھی ہوا ہے۔ کتاب سے متعلق عبدالمجید لون صحراؔ‘رضا امجد 'ذاہد بڈگامی کے مضامین اور مصنف محمدشفیع ساگر کا پیش لفظ بھی شامل ہے۔ مضامین میں کتاب کی سراہنا کرتے ہوئے اس کی اہمیت وافادیت پر بھی حوصلہ افزا تاثرات پیش ہوئے ہیں۔