VIDEOS POETRY ISLAM MOBILES RECIPES MORE ON ARTICLES
Home Urdu Articles Poetry Articles
’’شکوہ‘‘، ’’جواب ِ شکوہ‘‘ کا اسلوبیاتی مطالعہ
(Safdar Awan, )
تحریروتحقیق :طارق محمود ہاشمی
اقبال کا ایک شعر ہے، جسے اُن کے عجز کے طور پراکثر پیش کیا جاتا ہے:۔
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے(۱)
میرا خیال ہے اس شعر میں انکسار سے کہیں زیادہ شکوہ گزاری ہے کہ میری قلندری پر توسب خوش ہیں مگر میرا شعر کیا ہے اور شاعری کیا ہے، اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ اقبال اگر معاصر تنقید کے رویے ملاحظہ کرتے تو اپنے کلام کے محسناتِ شعری سے عدم توجہی پر شاید کوئی ہجو بھی رقم کرتے۔ ممکن ہے شعرِاقبال کی میری تشریح قبولیت کا شرف حاصل نہ کرے مگر اردو شاعری کے ایک عظیم کلاسیک کے فنی محاسن سے روگردانی پر احتجاج میرا استحقاق ضرور ہے۔
اقبال کی۱۳ شاہ کار نظموں کے تجزیے سے قبل اسلوب احمد انصاری نے اقبالیاتی تنقید کے ایک نقص کی طرف بجا طور پر اشارہ کیا ہے۔ اُن کے خیال میں:
’’اقبال پر تنقید کا مجموعی طور سے یہ نقص رہا ہے کہ اس میں زیادہ تر ان کے تصورات کے تجزیے اور ان کی تعبیر و تفسیر ہی سے سروکار رکھا گیا ہے۔ لیکن شاعری میں مجرد خیال کی اہمیت زیادہ نہیں ہوتی، بلکہ خیال اور فکر کے حسّی متبادلات قابلِ قدر ہوتے ہیں، بہ الفاظ دیگر یہ کہ خیالات یا مجردات کو محسوس طریقے پر محاکات اور علائم کے ذریعے کس طرح پیش کیا گیا ہے۔ اقبال کی بہترین نظمیں اور غزلیں فن کے ایسے ہی نمونے ہیں جن کی تعمیر و تنظیم میں فکر کو بھی دخل ہے لیکن وہ اس فکر کی موضوعی تجسیم بھی ہیں۔‘‘(۲)
اقبال نے اپنی فکر کی موضوعی تجسیم کے لیے فنی پیکر تراشی کے جوہنرآزمائے ہیں، اُن کے اخفا یا اُن سے عدم اعتنا کے کئی ایک اسباب ہیں مگر سب سے بڑا سبب ہماری تنقید اور اُن سے وابستہ ادبی تحاریک پر مقصدی اور افادی رجحان کا غلبہ ہے۔ادبِ عالیہ کی تخلیق کا وہ نکتہ جسے نہ تو ترقی پسند سمجھے اور نہ ہی اسلامی ادب کے علمبردار، اُسے بہت پہلے ان دونوں مخالف دھڑوں کے مشترکہ فکری مرشد حضرتِ اقبال نے پالیا کہ بڑی شاعری محض عظمتِ فکر سے نہیں بلکہ رعنائی اسلوب کی آمیزشسے معرضِ وجود میں آتی ہے۔اقبال نے جب ’’شکوہ‘‘ رقم کرنا چاہا تو ایک قطعے کے ذریعے اپنے بیان کے نرالے ڈھب کی سرشاری کو یوں بیان کیا:
منظور شکایت کا نرالا مجھے ڈھب ہے
شوخی مری ایسی ہے کہ مسجودِ ادب ہے(۳)
اور جب اپنے شکوے کا جواب تحریر کیا تو تعلّی کا اظہار کرتے ہوئے خدا کی زبانی اپنے حسن ِاداکو یوں سراہا:
شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تو نے
ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے(۴)
اقبال نے خدا سے شکوہ کس حسنِ ادا سے کیا اور وہ کیا نرالا ڈھب تھا، اس کی جانچ سے قبل بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری میں شکوہ شکایت کی اُس روایت کو دیکھ لیاجائے جس سے شکوہ وجوابِ شکوہ کے خالق نے اثر قبول کیا اور اُس اثر کی کچھ اسلوبی جھلکیاں اِن منظومات میں عکس پذیر بھی نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی قابلِ ذکر تخلیق میرؔ کے واسوخت ہیں، جن میں محبوب سے اُس کی بے اعتنائی اور اُس کی غیر پر توجہ کی شکایت کی گئی ہے:
طرز اے رشکِ چمن اب تری کچھ تازی ہے
ساتھ غیروں کے، مرے حق میں سخن سازی ہے
داغ رکھنے کو مرے اُن ہی سے گل بازی ہے
ہم دمی اُن سے، انھیں سب سے ہم آوازی ہے
گوش کر میرے بھی شکوے کی طرف گل کے رنگ
رکتے رکتے روشِ غنچہ ہوا ہوں دل تنگ(۵)
اسی طرح ایک اور واسوخت میں میرؔ نے محبوب سے عدم توجہی پر گلہ گزاری ایسی طرز میں کی ہے کہ اُس کی بازگشت اقبال کے شکوے کے اسلوب میں واضح سنائی دیتی ہے:
پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلب گار نہ تھا
ایک بھی نرگسِ بیمار کا بیمار نہ تھا
جنس اچھی تھی تری، لیک خریدار نہ تھا
ہم سوا کوئی ترا رونق بازار نہ تھا
کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے
آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ جلا سکتے تھے(۶)
میرؔ کے بعد غالب کی غزل میں بعض اشعار ظریفانہ اسلوب میں خدا سے شکوے کی ایسی مثالیں ہیں جن کی جھلک شکوے میں اختیار کیے گئے اسلوب میں دکھائی دیتی ہے اور ایک شعر تو اس مد میں ایسا ہے کہ اقبال کی ’’شکوہ‘‘ اس کی منظوم تفسیر معلوم ہوتی ہے:
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں(۷)
اقبالؔ کے اُستاد داغ دہلوی کی غزل پر بحث کرنے والے اسلوب کے لحاظ سے اُسے واسوخت قرار دیتے ہیں، مگر اُس کے لب و لہجے کی کاٹ کو روایتی طور پر محبوب کو جلی کٹی سنانے ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اردو تنقید نے داغ کی غزل کو اُس کے سماجی تناظر میں دیکھ کر اُس کے نفسیاتی عوامل پر غور کرنا معلوم نہیں کیوں مناسب نہیں سمجھا ورنہ اُن کے اشعار میں واسوخت کا ہدف خدا بھی ہے اور وہ نو آبادیاتی آقا بھی کہ جنھیں اقبال نے ’’شکوہ‘‘ میں غیر کہہ کر خدا کے اُن پر التفات کی شکایت کی ہے۔
حالِ دل تجھ سے دل آزار کہوں یا نہ کہوں
خوف ہے مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں
خوف ہے مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں
آخر انسان ہوں میں صبر و تحمل کب تک
سیکڑوں سن کے بھی دوچار کہوں یا نہ کہوں(۸)
___
کار پردازِ قضا دیکھیے کیا کرتے ہیں
روز ہم روزِ جزا روزِ جزا کرتے ہیں(۹)
اردو شاعری میں شکوہ شکایت کی روایت کے اس مختصر اور منتخب جائزے کا مقصد اقبال کے ہاں روایت کے شعور اور رسومیات کے اُس ادراک کی تحسین ہے جو کلامِ اقبال میں نہ صرف فکری سطح پر موجود ہے بلکہ اسلوب اور طرزِ اداکی سطح پر بھی جگمگاتی ہے۔ کلامِ اقبال میں روایت کے شعور کی تابانی محض اردو ہی تک محدود نہیں بلکہ عربی، فارسی اور ہندی کے شعری سرمائے کے اسالیب تک پھیلی ہوئی ہے۔ مذکورہ متنوع اسالیب کی تابانی جہاں اقبال کی دیگر شاہ کار نظموں میں جگمگاتی ہے، وہاں’’ شکوہ وجواب ِ شکوہ‘‘ میں بھی پوری طرح دمکتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ نظم حالی کی مسدس کی طرح ایک مذہبی تجربے یا قومی طرزِ احساس تک محدود نہیں ہے بلکہ شاعرانہ طرزِ اظہار کا بھی اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر عبدالمغنی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ:
’’شکوہ و جوابِ شکوہ کو مذہبی نظم قرار دے کر شاعری کی حیثیت سے رد کرنا سخت بے ذوقی کی دلیل ہے۔‘‘(۱۰)
اہلِ ذوق کے لیے اس نظم کی ابتدا ہی فنی لحاظ سے بہت پر کشش ہے۔ نظم ایک حرفِ استفہام سے شروع ہوتی ہے، اور شاعر اندرونی خود کلامی(Interior monologue) کے ذریعے اپنا نیا احساس زیاں رقم کرتا ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ ابتدائی بند میں اندرونی خود کلامی کے تقاضوں کے پیشِ نظر حرفِ ’’ن‘‘ کی صوت کی مسلسل تکرار ہے اور شمار کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ’’ ن‘‘ کی آواز کوئی ۱۸ بار دوہرائی گئی ہے جس کی صوت سے داخلی احساس کا تاثر اور زیادہ ابھرتا ہے۔
اس بند میں ’’ن‘‘ ہی کی آواز پر ختم ہونے والے چار اندرونی قوافی بھی ہیں جو ردیف کے بھی ہم قافیہ ہیں۔ پہلے بند کی دیگر آوازوں پر غور کریں تو حرفِ ’’م‘‘ کی آواز ۱۲ ، حرفِ ’’ر‘‘ کی ۱۲، حرفِ ’’ک‘‘ کی ۱۰ اور صفیری آوازوں کے حامل حروف کی ۱۰ بار تکرار ہے۔ اصوات کے اس انتظام اور امتزاج سے دورانِ قرأت کومل سروں کا احساس ہوتا ہے۔
اصوات کی تکرار اور اُس سے پیدا ہونے والا تاثر نظم کے تمام بندوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ بند میں بیان کیے گئے مضمون سے ایک معنوی ربط بھی رکھتا ہے۔ مثلاً جہاں اہلِ ایمان کی معرکہ آرائی کا ذکر ہے تو وہاں کرخت اور کھردری آوازیں ہیں، جن سے جنگ و جدل سے وابستہ جذبات کا تاثر اور زیادہ گہرا ہوتا ہے:
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے
تُو ہی کہہ دے کہ اُکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا، اُس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کُفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟(۱۱)
اقبال کلاسیکی اردو شاعری کی روایت سے فکری و فنی سطح پر کتنے آگاہ تھے۔ اس کا اندازہ شکوہ میں اُن صنائع شعری سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو اقبال نے استعمال کیے ہیں۔ خصوصاً رعایتِ لفظی اور صنعتِ مراعاۃ النظیر کو جس ہنر کاری سے برتا گیا ہے وہ تحسین طلب ہے۔ بعض رعایتیں کسی ایک بند کے لفظیاتی نظام تک محدود ہیں جبکہ بعض پوری نظم کا احاطہ کرتی ہیں۔ مثلاً نظم کی ابتدا میں بلبل کی رعایت سے اپنے مخاطب کو ہم نواکہاگیا ہے اور نظم کا اختتام اسی رعایت سے نغمہ اور لے کے الفاظ پر ہوتا ہے۔
صنعتِ مراعاۃ النظیرکوشعری لسانیات کے جدید ماہرین رسومیات (Conventions)قرار دیتے ہیں۔ اقبال کی ’’شکوہ وجوابِ شکوہ‘‘ کے مختلف بندوں میں ایک پوری ہنرکاری کے ساتھ چمن یا مے کدہ سے وابستہ الفاظ سے اس صنعت کا التزام کیا گیاہے۔ رعایتِ لفظی اور مراعاۃ النظیر کی طرح صنعتِتضاد کا استعمال بھی توجہ کھینچتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک مصرعے لائقِ مثال ہیں لیکن ایک جگہ اقبال نے اس صنعت کا ایسا قرینہ دکھایا ہے، جو شعری ہنرکاری کا بے مثال نمونہ ہے:
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم
بُوئے گُل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمت ترے محبوبؐ کی دیوانی تھی؟(۱۲)
اس بند میں پریشانی کو جمعیت ِ خاطر کہہ کر صنعت ِ تضاد کا ہنر کارانہ استعمال کیا گیاہے۔ ’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ کے اسلوب کے سلسلے میں یہ نکتہ بھی نہایت دلفریب ہے کہ اس نظم میں شعری بیان کا تمام تر نظام غزل کی روایتی شعریات سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لے کر اساطیرو تلمیحات تک اظہار کے تمام تر سلسلے کلاسیکی اردو غزل کی فضا سے جڑے دکھائی دیتے ہیں اور بندوں کے بعض ٹکڑے تو قطعی طور پر غزل کے شعر معلوم ہوتے ہیں:
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر(۱۳)
__
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے(۱۴)
__
بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن(۱۵)
’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ میں توجہ طلب محسناتِ شعری میں اس کی تمثالی فضا کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال نے اُمتِ مسلمہ کے عصری بحران اور غیروں کی تونگری ظاہر کرنے کے لیے گلستان اور اُس سے متعلقات کے ذریعے بڑی منفرد تمثال کاری کی ہے۔ اگرچہ علامات ِ چمن کے وسیلے سے فرد یا قوم کی زبوں حالی کا اظہار بھی غزل ہی کا خاصہ ہے تاہم غزل کا اختصار اُن جزئیات کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اقبال نے شکوہ میں بیان کی ہیں۔چمن سے متعلق تمثالوں کے علاوہ صحراسے وابستہ تمثالیں بھی اپنا ایک الگ تہذیبی جمال رکھتی ہیں۔ نجد کے دشت و جبل اور اونٹوں کے حدی خوانوں کی تصاویر اُس تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں، جہاں سے مسلم ثقافت کے سوتے پھوٹے۔ اقبال نے یہ تمثالیں کھینچتے ہوئے ایک خاص درد و سوز پیدا کیا ہے اور آنکھیں ان صحرائی تصویروں کو دیکھتی ہیں تو ریت کے ذرّوں کی چمک پلکوں پر قطرۂ اشک کی صورت ظاہر ہوتی ہیں۔
اقبال کی صحرائی تمثالوں میں اُن تلمیحات نے بھی اپنی جھلک دکھائی ہے جنھوں نے اُن کے نغمۂ ہندی کو حجازی لے سے آشنا کیا، اور وہ داستانی کردار بھی سامنے آتے ہیں جو عرب کی ریگِ صحراسے تعلق رکھتے ہیں مگر جذبۂ عشق کی بدولت فارسی اور اردو غزل کے چمنستان میں لالے کے داغ کی طرح روشن ہیں۔
اقبال کی مذکورہ تمثالوں سے صورتِ حال کا علامتی اظہار بھی ہوتا ہے اور فلسفیانہ خیالات کی ترسیل یا شکوہ مندی کے بعض دیگر پہلوؤں کا احاطہ بھی ، اور اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اقبال نے ان تمثالوں کے ذریعے اپنا دردِ رسالت قاری کے پردۂ ذہن پر بڑی کامیابی سے رقم کیا ہے۔ یہ تمثالیں کہیں تو محض منظر نگاری تک محدود ہیں تو کہیں ان کے اندر مناظرِ فطرت ایک کرداری روپ میں سامنے آتے ہیں اور یہ تمثالیں ایک تمثیلی ماحول پیدا کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے ابتدائی بند قابلِ توجہ ہیں، جن میں عالمِ افلاک کی منظر کشی کی گئی ہے اور خلائی مظاہر یعنی چاند، سیارے اور کہکشاں کے ساتھ ساتھ ملائکہ ٔ عرش مختلف کرداروں کی صورت میں باہمی مکالمہ کرتے دکھائے گئے ہیں۔یہاں اقبال نے انسانی شکوے کا جواب رقم کرنے کے لیے خدا کو ’’پیر گردوں‘‘ کا کرداری روپ دیا ہے۔
اپنے خیالات کی ترسیل کسی دوسرے کردار کی زبانی کرنے کی یہ وہ ٹکنیک ہے جسے ایلیٹ نے شاعری کی تیسری آواز (Third voice of poetry) قرار دیا ہے، اور یورپی شعرا خصوصاً براؤننگ کے ہاں اس کے استعمال کی متنوع جہتیں دکھائی دیتی ہیں۔ اقبال نے یہ ٹکنیک نہ صرف شکوہ و جوابِ شکوہ میں اختیار کی ہے بلکہ بانگ درا میں بچوں کے لیے تخلیق کی گئی نظموں سے لے کر ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘‘تک نظموں میں اظہارِ خیال کے لیے یہی پیرایہ اپنایا ہے۔ شاعری کی اس تیسری آواز کی ٹکنیک کا استعمال اقبال سے پہلے بہت کم ملتا ہے اور نظیر سے لے کر اقبال کے بعض رومانی معاصرین تک اگر کچھ نظمیں دستیاب ہوتی بھی ہیں تو اُن میں اس ٹکنیک کے وہ امکانات نہیں ملتے جو اقبال کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔
’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ اقبال کی اُن نمائندہ منظومات میں سے ہے جو اقبال کی دیگر طویل منظومات کی نسبت عام قارئین میں زیادہمقبول ہوئی۔ عام قاری میں اس کی مقبولیت کی وجہ اس کا نفسِ مضمون بھی ہے اور وہ اُسلوب بھی جو اس نظم میں اختیار کیا گیا۔
اقبال نے ’’شکوہ وجوابِ شکوہ‘‘ میں جہاں اہلِ ذوق کی تسکین کے لیے شاعرانہ وسائل کا استعمال کیا وہاں بعض بندوں میں ایسا پیرایہ بھی اختیار کیا جو اقبال کے ادبی مقام کے شایانِ شان دکھائی نہیں دیتا مگر چونکہ نفسِ مضمون کی ایک عام قاری تک ترسیل بھی مقصود تھی اور شدت جذبات یا برہمی کی کیفیات کا تقاضا بھی، تو اقبال نے بعض مقامات پر اپنے معیارِ شعر سے کم تر درجے کے مصرعوں پربھی اکتفا کر لیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر وہ یہ نظم ’’بالِ جبریل‘‘ کے دور میں تخلیق کرتے تو بعض بند یا مصرعوں میں ترمیم کرنے یا انھیں حذف کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔ اس نظم کی قرأت کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کے چوتھے بند سے لے کرگیارھویں بند تک اقبال کا قلم اُن کے دستِ شاعرانہ سے نکل کر ’’بازوئے مسلم‘‘ کی قوت کی نذر ہوگیا۔ ورنہ تیسرے بند میں جہاں مانندِ نسیم بوئے گل پھیلانے کی پریشانی کا ذکر آیا تھا تو وہاں بات کو گیارھویں بند میں محفلِ کون و مکاں میں سحروشام پھرنے سے جوڑ دیا جاتا ہے تو نہ تو ربط و تسلسل پر فرق آتا، نہ ہی رعایتوں کا دائرہ ٹوٹتا۔
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم
پھول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
شرطِ انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمت ترے محبوب کی دیوانہ تھی؟(۱۶)
محفلِ کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے
کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو، کبھی ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے(۱۷)
یہ میرا منصب ہے نہ میرے مقالے کے موضوع کا دائرہ کار کہ میں ’’شکوہ و جوابِ شکوہ‘‘ پر بات کرتے ہوئے اقبال سے بھی یہ شکوہ کروں کہ آپ نے اس نظم میں مسلمانوں کے محض عسکری کارناموں ہی کو اجاگر کیوں کیا اور علمی و تہذیبی معرکوں کا ذکر دبے لفظوں ہی تک محدود کیوں رکھا لیکن نظم کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے میں اپنا یہ احساس دَبا نہیں سکتا کہ محض جنگی فتوحات کے ذکر اور عسکری سورماؤں کی تحسین سے اس نظم کا اسلوب بھی قدرے متاثر ہوا ہے۔ میں اپنے ممدوح حضرتِ اقبال اور اُن کے مدّاحوں سے اس جسارت پرمعذرت چاہتا ہوں اورروحِ اقبال سے اس گذارش کے ساتھ اجازت طلب کرتا ہوں کہ :
ع: خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
حوالہ جات:
ا۔ اقبال،کلیاتِ اقبال، لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۹۷ء، اشا عت چہارم، ص ۳۷۹
۲۔ اسلو ب احمد انصاری، اقبال کی تیرہ نظمیں، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۷ء، ص ۱
۳۔ اقبال، باقیات ِ شعرِ اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر صابر کلوروی، لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۰۴ء، ص۳۴۱،۳۴۲۔
مذکورہ قطعہ ملاحظہ ہو:
منظور شکایت کا نرالا مجھے ڈھب ہے
شوخی مری ایسی ہے کہ مسجودِ ادب ہے
ڈر ایسا ہے اقبال کو اصنامِ چمن کا
گلشن میں سمیٹے ہوئے دامانِ طلب ہے
سچ وہ ہے، نہ بولیں تو خدا ہوتا ہے ناخوش
بولیں تو غضب یہ ہے کہ بندوں کا غضب ہے
مسجد سے سوئے چرچ گریزاں ہے دل اپنا
شاید یہ کسی مِس کی محبت کا سبب ہے
دل صورتِ آئینہ مصفّا ہوں تو کیا خوب
لاہور کی بستی کو یہ پیغامِ حلب ہے
پیغام کا مفہوم تو آساں ہے سمجھنا
پر اس کو مسلمان نہ سمجھیں تو غضب ہے
دکھلا بھی دیے آنکھ کو یورپ نے تماشے
کم بخت کو پھر بھی ہوسِ ملکِ عرب ہے
اس فقر سے ہو فخر نہ اسلام کو کیوں کر
یہ فقر وہی فخرِ شہنشاہِ عرب ہے
اس بزم میں اﷲ کی باتیں کرو اقبال
یہ لیگ کا جلسہ ہے، یہ اسلام کلب ہے
۴۔ کلیاتِ اقبال، ص ۲۲۸
۵۔ میر تقی میر، کلیات میر، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۴ء،ص۸۳۸
۶۔ کلیات میر، ص ۸۴۶
۷۔ اسد اﷲ خاں غالب، دیوانِ غالب، مرتبہ: حامد علی خان، لاہور: الفیصل، ۲۰۰۹ء، ص ۸۹
۸۔ داغ دہلوی، کلیات داغ، مرتبہ: ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، لاہور: الحمد پبلی کیشنز، ۲۰۱۳ء، ص ۴۴۵
۹۔ کلیا ت داغ، ص ۵۹۰
۱۰۔ ڈاکٹر عبدالمغنی، اقبال کا نظام ِ فن، لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۵ء، ص ۲۳۶
۱۱۔ کلیات اقبال، ص ۱۹۲
۱۲۔ ایضاً ، ص ۱۹۰
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۹۵
۱۴۔ ایضاً،ص ۱۹۶
۱۵۔ ایضاً، ص ۱۹۸
۱۶۔ ایضاً، ص ۱۹۰