ماموں شوکت علی عرف شوکی کے دونوں شکاری کتے بالکل سامنے نظریں گاڑھے بیٹھے ہوئے تھے. میں اور ماموں کِیکر کے نیچے بیٹھے کتوں کو دیکھ رہے تھے. اچانک دونوں کتوں کے کان کھڑے ہو گئے اور جسم تنی ہوئی کمان کی طرح.. میرے جسم میں ایک جھرجھری سی چلی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں دونوں کتے سرپٹ بھاگ رہے تھے، ایسی رفتار کہ دھول کا سانس بھی پھول جائے. کہیں کسی خرگوش نے سر اٹھایا تھا
ہم پانچوں دوست نمبردار رفیق کے ٹیوب ویل پہ بیٹھے تھے، رنگ کی بازی چل رہی تھی، ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے کہ ولیا کانا ادھر آ پہنچا. نام تو اس کا ولی شیر تھا اور مجید مراثی کا بیٹا تھا، مگر سب کے نام الٹ پلٹ کرنے کی قدیم روایت پہ چلتے ہوئے وہ ولی شیر سے سے پہلے وَلیا ہوا اور پھر بھینگا ہونے کے کارن کانا بھی کہلانے لگا. ہمارے اس سوال پہ کہ "کدھر جا رہے ہو" اس نے بتایا کہ آگے زمینوں پہ اس کی ماں چوہدری نذیر کی فصل کاٹ رہی ہے، اسی کی مدد کو جا رہا تھا. میرے چچا زاد طارق نے پہلے چوہدری نذیر کی فصل میں گالیوں سے کیڑے ڈالے، پھر وَلیـے کانے کے بھینگے پن پہ دو چار جگتیں ماریں اور پھر اسے پکوڑے اور چٹنی لانے واپس گاؤں کی طرف بھیج دیا. وہ 'جی چوہدری جی' کہہ کے واپس مڑ گیا
تین بھائیوں ، جن میں سے بڑا فوج میں اور دوسرے دو پولیس میں افسر تھے، کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن تھی وہ، جانے اب اس لاڈ پیار کا نتیجہ تھا یا خدا کی فراغت کا شاخسانہ کہ "آسیہ" بلا کی حسین نکلی تھی. گھنگھریالے بال ، آنکھوں پہ کھینچے ہوئے دو کمان، آنکھوں میں کاجل کھینچ لے تو سارا گاؤں ان دو آنکھوں میں سمو لے. کھڑی ناک، گردن جیسے اعتماد کا مینار کھڑا ہو . نئی نئی جوانی کے صحیفے اس پہ اترے تھے. حُسن اپنی جگہ ہے اور اترتی جوانی اپنی جگہ، مگر ان دونوں کا امتزاج تھی آسیہ. گویا قیامت پہ قیامت ڈھا دی گئی تھی اور اس گاؤں کا کوئی لڑکا ہی ہو گا جو اس قیامت سے نظریں ہٹا اور اس کا خیال جھٹلا سکتا ہو. جہاں سے وہ گزرتی وہاں ٹھنڈی آہوں کی آندھیاں چلا کرتی تھیں. بڑے بھائیوں کا خوف اور اس پہ آسیہ کا اپنا اعتماد، سب لونڈوں کے گرم جذبات اپنی ہی ٹھنڈی آہوں کے ہاتھوں سکون پاتے تھے. سب کان کھڑے آنکھیں گاڑھے تنے ہوئے ارمان اور جذبات لیے پھرتے تھے کہ کہیں وہ خرگوش سر اٹھائے
باجرے کی فصل قریب قریب تیار تھی، گاؤں کے باھر چھے فٹ سے اوپر کے باجرے کے کھیت کھڑے تھے. ہم آٹھ لڑکے اپنے دوست بلال کے ڈیرے پہ ٹائیٹینک دیکھ رہے تھے اور پینٹنگ بنانے والا سین بار بار پیچھے کر کے دیکھے جا رہے تھے کہ مانی دوڑتا ہوا آیا اور ہم سب کو ماں بہنوں کی گالیاں دینے لگا. اس کے منہ سے گالیاں اور تھوک ایک ساتھ نکل رہے تھے. میں نے مانی کو کھینچ کے نیچے بٹھایا اور بار بار پوچھا کہ ہوا کیا ہے
"تم لوگ یہاں پینٹنگ گیلی کرتے رہو کُتو.. وہاں وَلیا کانا کاروائی ڈال گیا ہے، آسیہ اور وَلیا کانا دونوں باجرے کے کھیت میں….."
کتوں کے کھڑے کان گر گئے تھے اور وہ اپنی ہی اڑائی دھول چاٹ رہے تھے