”طالبان دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث نہیں۔اگر ہیں تو اسکی پشت پناہی امریکہ بھارت اور اسرائیل کر رہے ہیں۔“
یہ بیان ایک معروف مذہبی سیاسی جماعت کے سابق امیر نے گزشتہ ہفتے دیا ہے۔
طالبان پر یہ الزام پہلی بار نہیں لگا۔ نادان دوست یہ کام ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ آپ طالبان کے طریقِ کار سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ انکے فہمِ اسلام کو غلط قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، طالبان کےساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔
یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس موضوع کی کئی تہیں ہیں اور یہ تہیں نظر آتی ہیں اور نہیں بھی آتیں۔ بنیادی سوال اس ضمن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جن کارروائیوں کو دہشت گردی کہتے ہیں، کیا طالبان یا شدت پسند بھی اسے دہشت گردی ہی سمجھتے ہیں؟
آپ نے عوام میں سے بہت سوں کو، بلکہ اکثر کو، یہ کہتے سُنا ہو گا کہ یہ جو بازاروں میں یا مزاروں پر یا مسجدوں میں دھماکے کرتے ہیں تو یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے کیونکہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو یوں بے دریغ نہیں ہلاک کر سکتا۔ ایک عام آدمی، جس کی مسلمانوں کی تاریخ سے زیادہ واقفیت نہیں، یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مسلمانوں میں ایسے شدت پسند شروع سے چلے آ رہے ہیں جو بہت سے مسلمانوں کو مسلمان مانتے ہی نہیں۔ وہ جن لوگوں کو ہلاک کر رہے ہوتے ہیں، وہ انکی دانست میں مسلمان نہیں ہوتے۔ ہم اگر اس سارے مسئلے کو اس تناظر میں دیکھیں تو بہت سی گرہیں کھلنے لگ جائیں گی۔
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ اسلامی شدت پسندوں پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ حالیہ تاریخ میں ایسے الزام الجزائر کے اسلامی شدت پسندوں پر بھی لگائے گئے۔۱۹۹۱ء میں میں جب اسلام پسند الجزائر میں انتخابات جیت گئے تو انہیں اقتدار سے روکنے کےلئے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک کھلی دھاندلی تھی۔ اسلام پسندوں کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور ہزاروں ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ عسکری مزاحمت کی شکل میں سامنے آ یا۔ دھاندلی اور ظلم کا منطقی نتیجہ یہی تھا اور ایسے مواقع پر ہی توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ الجزائر کے اسلامی مزاحمت کار یہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ شروع میں تو پولیس اور فوج حملوں کا ہدف تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، سول آبادیاں بھی ان حملوں کا نشانہ بننے لگیں۔ 1992 ء اور 1997 ء کے درمیانی عرصہ میں، جعلی انتخابات کرائے گئے۔ اسلام پسند مزید مشتعل ہوئے اور پورے کے پورے گائوں ہلاک کئے جانے لگے۔ پیرس اور یورپ کے دوسرے مقامات پر بم دھماکے انکے علاوہ تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے لندن میں ابو حمزہ نامی ایک خطیب نے جو الجزائری مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیا کرتے تھے، ٹیلی فون پر شدت پسندوں کے ایک کمانڈر سے گفتگو کی اور اس سے پوچھا کہ جی آئی اے (الجزائری مسلمانوں کی مسلح جماعت) سول آبادیوں کو کیوں ہلاک کر رہی ہے۔ حاضرین مجلس کے سامنے ٹیلی فون کی آواز بلند کی گئی۔ کمانڈر کا کہنا تھا کہ جو سول آبادیاں سرکاری جماعت کی حمایت کرتی ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتی ہیں کیوں کہ ”صرف جی آئی اے اصل اسلام کی نمائندگی کرتی ہے۔“
یہ ہے شدت پسندوں کا نکتئہ نظر! اُنکے نزدیک امریکہ کی حمایت کرنےوالی حکومت اور اسکے ملازم سزا کے مستوجب ہیں۔ فوجیوں اور پولیس کے خاندان بھی سزا کے مستحق ہیں اور وہ عوام جو امریکہ کےخلاف جدوجہد نہیں کرتے وہ بھی گردن زدنی ہیں۔ یہ شدت پسندوں کا نکتئہ نظر ہے۔ اس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ شدت پسند جو دھماکے کر رہے ہیں، ان کی پشت پر امریکہ ہے عجیب سی بات ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلمان مسلمان کو ہلاک نہیں کر سکتا لیکن اگر کوئی کسی کو مسلمان سمجھے ہی نہیں تو پھر ؟ آخر وہ گروہ جو امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو چھوڑ کر الگ ہو گیا تھا، دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھ کر ہی تو قتل کرتا تھا۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہ شام کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو خبر ملی کہ یہ گروہ مسلمان عورتوں اور بچّوں کو بے دریغ قتل کر رہا ہے۔ آپ کو ان کی سرکوبی کے لیے اپنے سفر کا رُخ بدلنا پڑا۔ آپ کی وارننگ سے بہت سے افراد اس گروہ کو چھوڑ گئے لیکن اٹھارہ سو افراد ایسے تھے جو ہر حال میں آپ سے جنگ چاہتے تھے۔ ناچار آپ کو ان پرتلوار اٹھانا پڑی ۔ روایات کے مطابق ان میں سے صرف نو افراد بچ سکے۔ یہ لوگ انتہا پسندتھے۔مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے اور اختلاف ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے توازن اور انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ فرد سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سخت غصے کی حالت میں توازن برقرار رکھے اور گروہ سے تقاضا کرتا ہے کہ جنگ کے دوران توازن پر قائم رہے۔ جنگ کے جو اصول اللہ کے آخری رسول نے وضع فرما دئیے وہ قیامت تک کےلئے ہیں‘ اگر کفار مسلمانوں پر ظلم کریں تو اسکے جواب میں مسلمان ظلم نہیں کر سکتے۔ کفار سے مسلمانوں کی سرزمین خالی کرانے کےلئے جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جنگیں مسلمانوں کو لڑنا پڑیں گی لیکن جنگ کے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر! یہی تو وہ اصول ہیں جو مسلمانوں کو امریکیوں سے اور فرانسیسیوں سے اور انگریزوں سے اور روسیوں سے الگ کرتے ہیں! غیر مسلم ہر مرد عورت بوڑھے بچے کو بلا امتیاز قتل کر دیتے ہیں۔ وہ شہروں پر ایٹم بم تک گراتے رہے ہیں، کبھی لوگوں کو گیس چیمبرز میں بند کر کے اور کبھی قصبوں اور بستیوں کو نذرِ آتش کر کے آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہ صدیوں سے ایسا کر رہے ہیں لیکن ایک سچا مسلمان اس طرح نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کے رسول نے مسلمانوں پر پابندیاں عائد کی ہیں اور یہ پابندیاں کوئی شخص نہیں تبدیل کر سکتا۔ عورتیں اور بچے؟؟ اللہ کے رسول نے تو درختوں اور کھڑی فصلوں کو بھی جنگ کے دوران چھیڑنے سے منع فرما دیا۔
آخر ایک عام پاکستان امریکہ کےخلاف کر بھی کیا سکتا ہے؟ وہ امریکہ سے شدید نفرت کرتا ہے لیکن وہ تو اپنی حکومت تک کو سیدھے راستے پر نہیں لا سکتا! وہ بجلی اور پانی سے محروم ہے اُس کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا ہے۔ ریاست اُسے نہ سکیورٹی فراہم کر رہی ہے نہ اُسکی بنیادی ضروریات کی ریاست کو فکر ہے۔ عوام کی اکثریت کے پاس ذاتی چھت تک نہیں، ایک چھوٹا سا طبقہ ملک کے وسائل پر قابض ہے اور ظلم پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس طبقے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں شامل ہیں۔ ان مجبور، مظلوم اور مقہور عوام کو امریکہ کے جرم کی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے!
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہُنر میں یکتا تھے
بے سبب ہُوا غالب دشمن آسماں اپنا
http://columns.izharulhaq.net/2011_06_01_archive.html
“