اردو غزل صدیوں کے سفر کے بعد اور شدید مخالفت کے باوجود اپنے دامن میں سینکڑوں تبدیلیاں اور مختلف جذباتی کیفیتیں لیکر آج بھی اسی طرح مقبول ہے جس طرح اپنی ابتداء میں تھی۔آج کی غزل مابعد جدید غزل ہے جس کے دامن میں روایت کی خوشبو بھی ہے ترقی پسندی اور سماجیات کے نعرے بھی ہیںمعاشرے کا کرب بھی ہے زمانے کی بدلتی ہوئی تصویریں بھی ہیں اور جدیدیت کی نئی فضابھی ہے۔غرض آج کی غزل نکتے میں دریائے معنی سمیٹے ہوئے ہے ۔جو صاحبانِ نظر ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کی غزل کے تقاضے کیا ہیں۔کس طرح دو مصرعوں کے چھوٹے سے ساغر میںبے کراں سمندر مقید کیا جاسکتا ہے اور کس طرح الفاظ کے صحیح اور متناسب استعمال سے شعر کو ماورائے زمان و مکان کیا جا سکتا ہے۔عصرِ حاضر میں اس سلسلے سے مختلف آوازیںہماری سماعتوں تک پہنچتی ہیںلیکن کچھ آوازیں وقتی طور پر اپنا سحر قائم کرتی ہیں تو کچھ دیر تک ہمارے تجربات و احساسات کی عکاس ہوتی ہیںتو کچھ آوازیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ آوازیں وقتی نہیں بلکہ فضائے کائنات میں ہمیشہ گردش کرتی رہیں گی اور آنے والی نئی نسلوں کو متاثر کرتی رہیں گی۔ایسی ہی آوازوں میں ایک آواز ڈاکٹر معراجؔ نقوی کی ہے۔جن کا تعلق نوریوں سرائے سنبھل کی علمی و ادبی سرزمین سے ہے جہاں سے علامہ معجز ؔسنبھلی جیسے نابغۂ روزگار نے اردو شاعری کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کو ادب میں فراموش نہیں کیا جا سکتا خصوصاً رثائی اور منقبتی ادب میں علامہ معجزؔ سنبھلی کی استاذی کا شہرہ تمام ادبی کائنات میں نظر آتا ہے۔ڈاکٹر معراج ؔ نقوی انھیں کے ادبی خانوادے سے وابستہ ہیں اور نوجوان نسل کے شعراء میں ان کی شاعرانہ واسعتیں قابلِ ستائش ہیں۔حال ہی میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام’’شدت‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے۔جس کی ادبی حلقوں میں پزیرائی کی جارہی ہے۔
’’شدت‘‘ کے مطالعے سے ڈاکٹر معراجؔ نقوی کی ادبی فکرو ذوق کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات و جذبات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عصرِ حاضر میں غزل کو کس صورت سے دیکھتے ہیں۔وہ غزل میں کس مضمون کی اشد ضرورت سمجھتے ہیں اور ان کی غزل کا لہجہ کیسا ہے؟۔کیا وہ روایت کے پاسدار ہیں یا مابعد جدیدیت کے علمبردار۔اس سلسلے سے غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں روایت کے ساتھ ساتھ جدید لب و لہجہ بھی مدغم ہوگیا ہے ۔وہ محض نئی شاعری کے محب نہیں بلکہ گذرے زمانے کی شعری خصوصیات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔سب سے بڑی بات ہے کہ وہ غزل کے فن کو اور اس کی اصل کو بخوبی جانتے ہیں اس لئے غزل کو غزل کے رنگ میں ہی اکثر مقامات پر پیش کرتے ہیں۔غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا ہے تو پھر اس سلسلے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل میں محبوب کی جنس واضح ہونی چاہئے اور بعض شعراء کے یہاں واضح بھی ہے کہ ان کا محبوب ان کا جنسِ مخالف ہے۔ڈاکٹر معراجؔ نقوی اسی روش کے مسافر ہیں ۔ان کے یہاں صاف ظاہر ہے کہ ان کی محبوب کوئی دوشیزہ یا خاتون ہی ہے۔مثال کے لئے کچھ اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:
پہنی پرانی چولی تو اس کو پتہ چلا
کتنا غموں کے دور میں ڈھیلا ہوا بدن
مہندی سے کبھی لکھتی تھی ہاتھوں پہ مرا نام
اب اشکوں سے سوکھے ہوئے پتوں پہ لکھا کر
وہ دور ہوگئی اب تک جو میرے پاس میںتھی
وہ جس کے جسم کی خوشبو مرے لباس میں تھی
ان تمام اشعار سے واضح ہے کہ ان کی محبوب کوئی صنفِ نازک ہی ہے جس کے عشق میں وہ اشعار رقم کرتے ہیں۔
کسی زمانے کی غزل ہو اس میںعشق کا جذبہ ہی غالب نظر آتا ہے۔ڈاکٹر معراجؔ نقوی جذباتِ عشق کا شدت سے اظہار کرتے ہیں وہ انھیں پردۂ اخفا میں نہیں رکھتے کہتے ہیں:
تیرا غم وحشت کا اکثر جب پہلو بن جاتا ہے
دل کا سارا درد امڑ کر تب آنسو بن جاتا ہے
یعنی وہ اظہار عشق اور عشق کی تکلیف کو پوشیدہ نہیں رکھتے بلکہ بغیر کسی جھجھک کے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر دیتے ہیں۔
عشق وصال کا خواہاں ہوتا ہے اور وصال و ہجر کے چرچے غزل کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن جب ہم روایتی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں زیادہ تر ہجر اور فراق کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ جدید دور کا کرشمہ ہے کہ جہاں ناممکن بھی ممکن ہو چکا ہے اور اسی کا رنگ غزل میں بھی دکھائی دیتا ہے اب یہ مشکل نہیں کہ محبوب وصال کے لئے آمادہ نہ ہو۔جب ہم اس ضمن میں ڈاکٹر معراجؔ نقوی کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ وصال کے شاعر ہیں فراق کے نہیں۔مثلاً:
ترے بدن کی مسافت کو طے کیا تو مگر
پڑا ہوا ہے ابھی تک مرا نڈھال بدن
اس نے بانہوں میں بھر لیا مجھ کو
میں بھی اس سے لپٹ کے بیٹھ گیا
ظاہر ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار میں وصال کی داستان بیان کی گئی ہے ۔اور یہ ان کے خالص جذبات ہیں جو بلاجھجھک وہ بیان کرتے ہیں۔ان کے اظہارِ جذبات ہی کی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اکثر ’’بدن‘‘ جیسا لفظ کئی مقامات پر ملتا ہے جس میں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبات کی شدت آشکار ہے۔مثلاً:
مرے وجود پہ غالب تھا رات ایک بدن
تمام رات میںانگڑائیوں سے لڑتا رہا
دیکھوں اسے تو آنکھوں میں گھلتا ہے شہد سا
اس کمسنی میں کتنا رسیلا ہوا بدن
پہلے بھی لاجواب تھا معراجؔ وہ مگر
میں نے چھوا تو اور گٹھیلا ہوا بدن
ظاہر کہ مندرجہ بالا اشعار میں لفظ’’بدن‘‘ رومانی کیفیتوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر معراجؔ نقوی کے عشقیہ جذبات کا منعکس بھی ہے لیکن ایسا نہیں کہ انھوں نے ’’بدن‘‘ کا استعال لذتِ وصال کے تحت ہی غزل میں پیش کیا ہو۔ان کے یہاں’’بدن‘‘موت و حیات کے تناظر میں بھی موجود ہے۔کہتے ہیں:
یہ کہہ کے روح نے اک شب بدن اتار دیا
اتار پھینکا کہ یہ پیرہن پرانا تھا
ظاہر ہے کہ وہ غزل کے دامن کو محدود نہیں رکھتے بلکہ وسعتیں پیدا کرنا ان کا شعار ہے۔
انسان پر ایک سا حال کبھی نہیں رہتا اگر وصال ہے تو ہجر بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر معراجؔ نقوی وصال کے شاعر ہونے کے باوجود کہیں کہیں ہجر کی تکلیف کا بھی ذکر کر جاتے ہیںجس کے سبب سے وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں ۔مثلاً:
مجھ سے تنہائی ہر اک شب یوں ملا کرتی ہے
اک پریشان ملے جیسے پریشان کے ساتھ
آخر کس سے مل کر روئوں کس سے اپنا درد کہوں
پورے گھر میں ویرانی ہے اور بستر پر سناٹا
بن ترے نیند بھی نہیں آتی
کیسی عادت خراب ہوگئی ہے
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہاں ’’تنہائی‘‘ صرف ہجرِ محبوب کی کیفیت کا مظہر ہی نہیں بلکہ یہاں’’تنہائی‘‘ ایک علامت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔بغور دیکھیں تو انسان ہر طرح سے اکیلا یا تنہائی کاشکار ہی ہے۔صبح سے شام تک متعدد لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیںلیکن یہ ضروری نہیں کہ جن سے ملاقات ہوتی ہو وہ پسندیدہ ہوں یا ایک دوسرے کا درد سمجھنے والے ہوں۔کیونکہ اکثر ملاقاتیں ضرورت کے تحت کی جاتی ہیں اور جب تھکا ماندہ انسان اپنے بستر پر اپنے دن بھر کے معمولات کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے تنہائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
علامت نگاری ہر دور کی غزل میں قدم قدم پر اپنا جادو بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے اس سے جہاں شعر کا دائرہ وسعتیں حاصل کرتا ہے وہیں اس کے صحیح استعمال سے شاعر کی قادر الکلامی کا بھی احساس ہوتا ہے۔آج کے دور کی شاعری میں بھی علامت نگاری نظر آتی ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کا بے جا اور غیر ضروری استعمال بھی کیا ہے جس سے شعر چیستان یا پہیلی بن کر رہ جاتا ہے اور شعر میں حد درجہ ابہام نظر آنے لگتا ہے۔ڈاکٹر معراجؔ نقوی کوعلامت نگاری میں مہارت حاصل ہے وہ علامتوں کا بر وقت اور بر محل استعمال کرتے ہوئے اپنی شاعری کی انفرادیت قائم کرتے ہیں۔مثلاًان کے یہاں غزال،دیا،نہر،پیاس،سمندر،سورج،مہتاب،دھوپ،صحرا اور شجر وغیرہ جیسے الفاظ علامت نگاری کا حق ادا کرتے ہیں۔کچھ اشعار دیکھیں:
رکھا تصویر میں بھی پیاسے غزالوں کا خیال
میں نے دریا بھی بنایا ہے بیابان کے ساتھ
ہماری پیاس انھیں معتبر بناتی ہے
یہاں پہ آکے سمندر بھی خاک چھانتے ہیں
اپنی وسعت اپنی طغیانی کہاں لے جائے گی
نہر یہ سمٹی بھی تو پانی کہاں لے جائے گی
کبھی سورج کبھی مہتاب بنا لیتا ہوں
روشنی کے سبھی اسباب بنا لیتا ہوں
عمر بھر دھوپ سے لڑنے کی یوں تیاری کی
تپتے صحرائوں میں کثرت سے شجر کاری کی
ظاہر ہے مندرجہ بالا اشعار کی قرأت علامتوں کے تقاضے کے تحت کی جائے تب ان اشعار کے اسرار و رموز زیادہ واضح ہوسکیں گے اور ظاہر ہوگا کہ یہ اشعار کسی خاص موضوع یا وقت کے رہینِ منت نہیں بلکہ ان کی اشعار میں گہرائی و گیرائی کی لاکھوں وادیاں آباد ہیں۔
علامت کے ساتھ ساتھ غزل میں ہمیشہ سے بہترین تشبیہات کی بھی فراوانی رہی ہے۔آج کے دور میں بھی اس سے کوئی شاعر تہی دامن نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے برتنے کا سلیقہ ہر شاعر کے بس میں نہیں ہے۔ڈاکٹر معراجؔ نقوی یہاں بھی کامیاب ہیں۔کہتے ہیں:
مثال اس کی ہے بالکل طوائفوں جیسی
حسین جتنی ہے اتنی خراب ہے دنیا
ظاہر ہے کہ دنیا کو طائف سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کی موصوف کا مشاہدۂ کائنات نہایت عمیق ہے اور وہ دنیا کی حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں۔
تلمیح بھی ہمارے ادب کا حصہ رہی ہے شعراء نے اپنے اپنے انداز میں اس کو اپنی شاعری میں پیش کیا کہیں یہ واضح انداز میں ہوتی ہے تو کہیں شعر میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جس سے قاری کا ذہن لاکھوں پردوں کے باوجود اصل کہانی یا مقصد تک پہنچ جاتا ہے۔ڈاکٹر معراجؔ نقوی تلمیح کے بیان کا بھی ہنر خوب جانتے ہیں۔مثال کے لئے دو اشعار دیکھیںجن میںواضح تلمیحات موجود ہیں:
خطائے حضرت ِ آدم فریب ِابلیسی
وہ کیا سوال تھا جس کا جواب ہے دنیا
دیوتائوں کی لڑائی میں یہ امرت کا کلش
ہے یہی ڈر نہ کہیں زہرِ ہلاہل ہوجائے
پہلا شعر حضرتِ آدم کی تخلیق اور ابلیس کی کارگذاری کا واقعہ بیان کرتا ہے تو دوسرا شعر ہندو دیومالائی تلمیح پر مشتمل ہے جس میں سمندر منتھن کے واقعے کا بیان ہے۔
اب کچھ ایسے اشعار دیکھیں جن میں ایسے الفاظ ہیں جو اصل واقعے کی طرف صرف اشارہ کرتے ہیں۔جیسے:
اس سے تو اچھا تھا کہ ہم بھی ستمگر ہوتے
کس قدر زخم ملے کارِ مسیحائی میں
شعر میں لفظ ’’مسیحائی‘‘ حضرت عیسیٰ مسیح کے واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔ایک شعر اور دیکھیں:
طلسمِ کن فیکوں کس نے پڑھ کے پھونک دیا
ذرا سی خاک ہوئی کیسا باکمال بدن
ظاہر ہے شعر میں’’کن فیکوں‘‘خلقتِ کون و مکان اور تخلیقِ آدم کی طرف ذہن مبزول کرتا ہے۔اسی طرح ان کے یہاں اشعار میں’’ کربلا‘‘کی تلمیح بھی نظر آتی ہے:
موجوں کے بل نکال روانی سے جنگ کر
اے شاہزادے پیاس کے پانی سے جنگ کر
بس ترے غم کو سمجھتا ہے عبادت اپنی
وہ جو اک تیرا عزادار چھپا ہے مجھ میں
ان اشعار میں پیاس،غم اور عزادار جیسے الفاظ سے ظاہر ہے کہ شاعر اشارے میں کربلا اور امام حسینؑ کی شہادت اور ان پر گریہ کرنے کی بات کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں منفرد اور خوبصورت تراکیب کا استعمال بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔مثلاً:
بیت الصنم سا لگتا ہے سارا جہاں مجھے
پتھر کے سب بدن ہیں کہاں آدمی رہے
شعر میں ’’بیت الصنم ‘‘ کی ترکیب شاعر کی انفرادیت اور ندرت کی ضمانت ہے۔
مابعد جدید غزل میں ندرت اور چونکانے کاعمل قدم قدم پر نظر آتا ہے۔بعض شعراء اس سلسلے سے سامنے کی بات کو ایساجاذب نظر بنا دیتے ہیں کہ قاری انھیں بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔بعض کے یہاں غیر شاعرانہ الفاظ کا بھی ایسا استعمال ہوتا ہے کہ تحسین کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔اس سلسلے سے ڈاکٹر معراجؔ نقوی کے دو اشعار دیکھیں۔جن میں ان کا نیا ذہن کافرماء نظر آتا ہے۔کہتے ہیں:
بچا لیا مجھے لائٹ نے وقت پر آکر
اندھیرا ورنہ مجھے نوچ کھانے والاتھا
جو کل تلک بڑا ڈرتی تھی کاک روچوں سے
وہ آج چھپکلی پکڑے ہوئے پلاس میں تھی
ان اشعار میں لائٹ، کاک روچ،چھپکلی اور پلاس ظاہر ہے غیر شاعرانہ الفاظ ہیں لیکن کمال کی بات ہے کہ یہ الفاظ اس طرح اشعار میں پیوست ہوگئے ہیںکہ شاعر کا کلام منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ جاذبیت و جالبیت کا متحمل نظر آتا ہے اور کوئی بھی جدید ذہن بغیر تعریف کئے نہیں رہ سکتا۔
غرض کہ آج کی غزل کا کوئی ایک موڈ یا کوئی مخصوص مزاج نہیں یہ کسی ازم یا تحریک کی پابند نہیں،کسی محدود راستے کی مسافر نہیں ۔آج کی غزل جذبات کی شدت کا معقول اظہار ہے۔میں سمجھتا ہوں آج کے نئے لہجوں میں ڈاکٹر معراجؔ نقوی کا لہجہ اپنی پہچان آپ ہے۔ان کے یہاں جہاںروایت کا احترام ہے وہیں جدید لہجے کا پھرپور استعمال بھی ہے ۔ان کے یہاں مایوسی نہیں حوصلہ پایا جاتا ہے۔وہ اداسی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے۔خوش رہنا اور خوشی بانٹنا ان کا شغل ہے۔ان کی غزلوں کے ردیف دلکش،انوکھے اور نرالے ہیں ۔مختصر طور پر ان کے مجموعۂ کلام’’شدت‘‘ کو پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار میں اپنے جذبات و احساسات کو بغیر تردد و تبدل کے پیش کردیا ہے اور یہ ایک بڑی بات ہے ۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب ادب میں ان کی منفرد پہچان قائم کرنے کے لئے جہاں معاون ثابت ہوگی وہیں آنے والی نئی نسلیں ان کے کلام سے استفادہ کریں گی۔