شرینگل کے پختون
16 جولائی 2018ء
میں نے تھل کمراٹ جانا تھا لیکن ڈائریکٹ گاڑی نہ ملنے کی وجہ سے شرینگل کی گاڑی میں سفر کرنا پڑا.
مردان سے اڑھائی گھنٹے کے سفر کے بعد میں تیمر گرہ پہنچا۔دن کا ایک بج رہا تھا اور میرے بارہ، کیوں کہ وہاں سے بھی تھل کوہستان کے لیے ڈائریکٹ سواری نہیں ملی۔ ایک چھپر ہوٹل میں کھانا کھایا اور اسی سے معلومات لیں۔اس کے مطابق مجھے اپر دیر جانا چاہییے وہاں سے تھل کی سواری مل جائے گی۔
میں پھر اڈے میں گھس گیا اور پشتون بھائیوں کا سر کھانے لگا جب مجھے لگا کہ اب وہ میرا سر نہ پھاڑ دیں،تب میں نے شرینگل جانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ معلومات کی روشنی میں مجھے شرینگل زیادہ بہتر لگا،اس کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ شرینگل، کمراٹ کے راستے میں آتا ہے.
تو میں شرینگل میں تھا. جہاں بہت زیادہ پختون تھے بل کہ شدید پختون تھے. یہ ایک چھوٹا سا اور بل کھاتا ہوا بازار تھا. جس کی دکانیں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں اور چھوٹی تھیں. میں سڑک گردی کرنے لگا.میرے دائیں طرف دکانوں کے پار دریائے پنجکوڑہ کے کنارے ایک یونیورسٹی تھی، شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی، جس میں ہر طرف ہریالی تھی اور کلاسز کے کمرے بنے ہوئے تھے.اس کے پار دریا تھا اور دریا کے اوپر پہاڑ کھڑے تھے جو سورج کی روشنی میں چمکتے تھے.
ابھی میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ پیچھے سے کسی نے پکارا. میں کسی فلمی ہیرو کی طرح پلٹا اور سلطان راہی کی طرح تن کر کھڑا ہو گیا. میری آنکھوں پر دھوپ والا چشمہ تھا اور کمر پر رک سیک جھول رہا تھا.
"بھائی صاحب آپ کدھر جائے گا؟" آنے والے نے عجلت سے پوچھا.
"کمراٹ ویلی" میرا مختصر سا جواب تھا.
"کمراٹ کے لیے اب کوئی گاڑی نہیں ملے گا آپ کوئی کار کروا لیں."
میں نے اس سے کرایہ پوچھا تو اس نے 2500 بتایا.
"نہیں نہیں میں تو عام سواری سے ہی جاؤں گا." میں گھبرا اٹھا کیوں کہ اتنا کرایہ دینے سے میری جیب کا ہاضمہ خراب ہونے کا اندیشہ تھا.
میں چلتا گیا آگے جا کر کچھ پختونوں نے مجھے گھیر لیا اور آپس میں شدید پشتو میں باتیں کرنے لگے. اشارے میری طرف تھے. مجھے لگا شاید میری سپاری لی گئی ہے. بعد میں ایک پٹھان بھائی کے توسط سے پتا چلا کہ یہ سب کاروں والے ہیں جو مجھے اجنبی جان کر اپنی اپنی کار میں بٹھانے کے خواہش مند ہیں تاکہ مجھ سے کرایہ اینٹھ سکیں.
میں آہستہ سے وہاں سے کھسک گیا اور واپس چل پڑا.میں بازار کا جائزہ لے رہا تھا اور دکانوں کے درمیاں سے جھانکتی ہوئی یونیورسٹی کو بھی دیکھتا جا رہا تھا جو کافی نیچے دریائے پنجکوڑہ کے پاس تھی اور پہاڑ اس کے اوپر جھکتے تھے.
اچانک مجھے ایک وین دکھائی دی جو خالی کھڑی تھی. میں اس کی طرف لپکا اور ڈرائیور سے تھل جانے کا پوچھا. وہ وہیں جا رہے تھے. میری تو لاٹری نکل آئی.یہ وین خراب ہو گئی تھی اور ٹھیک ہو کر واپس تھل جا رہی تھی اور اس میں تھل کمراٹ کی ایک ہی سواری بیٹھی تھی جو یقیناً میں تھا.
لیکن میں کون ہوں
میں تو فنا ہوں
پھر یہ کون ہے
میرے اندر سے آواز آئی
یہ میں ہوں.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“