مغل بادشاہت قائم ہونے سے قبل سرزمین ہندستان پر صرف پانچ برس حکومت کرتے ہوئے شیر شاہ نے پورے غیر منقسم بھارت پر جو گہرے نقوش چھوڑے ہیں انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن افسوس کہ اس عظیم بادشاہ کو دانستہ طور پر فراموش کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ بہار کے تاریخی شہر سہسرام میں مدفن اس بادشاہ کے روضہ کو گرچہ محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ سیاحت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ لیکن پچھلے دروازے سے اس روضہ پر قبضہ کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ ان غاصبانہ کوششوں کے خلاف سہسرام کے لوگ مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں اور حکومت بہار اور متعلقہ محکمہ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس اس جانب حکومت بہار اور ان محکموں نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اس سال سہسرام کے ایک ادارہ ’ہمنوا‘ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے شیر شاہ کو ان کے 477 ویں یوم وفات پر ”شیر شاہ سوری کو یاد کیا جانا ضروری“ کے عنوان تحت 21-22 مئی کو ایک سیمینار منعقد کرتے ہوئے شیر شاہ کو یاد کرنے یا یاد کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو قابل ستائش ہے۔ ان دنوں جب کہ ہندستان کے مسلم بادشاہوں کو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے فراموش کرنے اور ان کی کردار کشی کی دانستہ کوششیں کی جارہی ہیں، ایسے میں شیر شاہ کے شان دار کارناموں کو سامنے لانا ضروری ہے۔ بہار کی سرزمین پر شیر شاہ کی بادشاہت نے بہار کو ایسی پہچان دی، جس کے نقوش صرف باقی ہی نہیں، بلکہ آج بھی عوام فیضیاب ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن افسوس کہ آج اس عظیم بادشاہ کی قدر دانی نہیں ہے۔ جب کہ شیر شاہ نے بہار کو بھارت کے نقشہ پر ایک بہت ہی اہم مقام دیا ہے، جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس بادشاہ نے اپنی تقریباً پانچ سال کی حکمرانی میں جس طرح لمبی سڑک، گریند ٹرنک روڈ کی تعمیر کرائی، جگہ جگہ سرائے، سڑک کنارے درخت، محصولات، اور ڈاک وغیرہ کے تاریخی انتظام کرائے، یہ سب آج بھی قائم ہیں۔ مؤرخوں نے بھی شیر شاہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اس کے اچانک ایک حادثاتی موت کے دس سال کے اندر ہی اس سوری خاندان سے عنان حکومت چھن گئی اور جب مغل اس ملک پر برسر اقتدار ہوئے تو مغل بادشاہوں نے شیر شاہ اور اس کے کارناموں کو پوری طرح دانستہ طور پر فراموش اور نظر انداز کیا۔ مؤرخوں کو بھی اس جانب راغب نہیں کیا۔ لیکن کالکا رنجن قانون گو نے 1921 ء میں شیر شاہ پر ایک کتاب بہت ہی محنت اور جستجو کے ساتھ ضرور لکھی۔ لیکن اس میں بھی بہت ساری باتیں ایسی ہیں، جو متنازع ہیں۔پھر بھی شیر شاہ کے متعلق کچھ حقائق میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ شیر شاہ کی حکمرانی کے دوران صوبہ بہار میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں سامنے آئیں۔ جن کا تذکرہ تاریخ شیر شاہ ”Sher Shah and his times“مصنف کالکا رنجن قانون گو میں بہت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
شیر شاہ کا اصل نام فرید خاں تھا۔ اس کے والد کا نام حسن سور تھا۔ حسن سور کے باپ کا انتقال ہریانہ کے نارنول میں ہوا تھا، جس کا وہاں مقبرہ بھی تھا۔ شیر شاہ کی ولادت کے سلسلے میں دو تاریخ بتائی جاتی ہے، اوّل 1473ء اور دوسری تاریخ 1486ء۔ بہرحال ان میں سے جو بھی سنہ ہو، لیکن پیدائش نارنول (ہریانہ) میں ہوئی۔ اس کے دادا کے انتقال کے بعد اس کے والد حسن سور نے سلطان سکندر لودی کے ایک امیر جمال احمد خاں کے یہاں ملازمت حاصل کر لی تھی۔ جس نے سہسرام اور خواص پور جو کہ قلعہ روہتاس کے تحت تھے، جاگیر کے طور پر دیے۔ اس کے زیر حکم پانچ سو سوار تھے۔ فرید خاں کے سات بھائی تھے، جن سے فرید خاں کا ہمیشہ اختلاف رہا۔ اس دوران فرید خاں اپنی اوائل عمری میں ہی بے سر و سامانی کے عالم میں جون پور کے مدرسوں اور خانقاہوں میں علم و ہنر حاصل کرنے میں منھمک ہو گیا۔ شیر شاہ کو دینیات اسلامی میں بھی مہارت حاصل تھی۔ بعد میں وہ آگرہ بھی گیا اور سلطان ابراہیم کے ایک سردار دولت خاں کے یہاں ملازمت اختیار کر لی۔ حسن خاں کے انتقال کے بعد دولت خاں نے ہی اس جاگیر کے پرگنے فرید خاں (شیر خاں) کے حوالے کیے۔ جن کا وہ عرصہ تک انتظام کار رہا۔
جب پانی پت میں سلطان ابراہیم کی شکست ہوئی اور اس پر بابر نے فتح پائی تو اس دور میں فرید خاں پھر بہار آگیا اور سلطان محمد کے یہاں ملازمت کرنے لگا۔ اسی دوران اپنے آقا بہار خاں کے ہمراہ ایک دن شکار کھیلنے کے لئے جنگل گیا اور جنگل میں سامنے آئے شیر کو فرید خاں نے اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے ختم کر دیا۔ یہ دیکھ کر جہاں بہار خاں ششدر رہ گیا، وہیں بہت خوش بھی ہوا اور خوشی میں اس نے فرید خاں کو شیر خاں کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند حلال خاں کا اتالیق بھی مقرر کیا۔ بعد میں بنگال کے حکمراں کے ایک امیر اور حاجی پور، بہار کا حکمراں مخدوم عالم سے شیر خاں کی دوستی ہو گئی۔ بنگال کے سلطان نے شیر خاں پر فتح حاصل کرنے کے لیے فوج بھیجی، لیکن شیر خاں نے اپنی شجاعت اور جواں مردی سے ان پر خود ہی فتح پا لیا اور ابراہیم کو قتل کر، اس کا سارا اثاثہ اور مال و دولت شیر خاں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس شجاعت اور دولت کے باعث اس کی اہمیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا آیا جب شیر شاہ پورے بہار پر قابض ہو گیا۔ اپنی تخت نشینی کے بعد شیر شاہ نے کئی اہم اور تاریخی کام کیے۔ علاء الدین کی بسی بسائی دلّی کو اجاڑ کر ایک نیا شہر فیروزآباد کے نام سے تین کوس کی لمبائی میں بسایا۔ اسی دور میں شیر شاہ نے بنگال سے روہتک (ہریانہ) تک شاہراہ بنائی۔ جس میں خاص بات یہ تھی کہ آگرہ سے مانڈو تک ہر کوس پر ایک سرائے، مسجد اور پختہ کنواں تعمیر کراتا گیا۔ مسجد میں ایک مؤذن اور امام کی بھی تقرری کیا۔ سڑک کے دونوں طرف درخت لگوائے، تاکہ آنے جانے والے مسافروں کو چھاؤں ملے۔ شیر شاہ، حج کے لیے جانے والوں کو، لوٹنے والے قزلباشوں کے لیے فکر مند تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح حرمین شریفین کے تعاون سے حج پر جانے والوں کو اس پریشانی سے نجات دلائے۔ شیر شاہ نے 1545ء میں کالنجر کو فتح کرنے کے لیے اس کے قلعہ کا اپنے فوجیوں کے ساتھ محاصرہ کر لیا۔ جہاں اس کے سپاہی سُرنگوں کے ذریعہ قلعہ کے اندر داخل ہو گئے اور شیر شاہ اپنی نگرانی میں باروددی گولہ سے قلعہ پر حملہ کر رہا تھا کہ اچانک ایک گولہ قلعہ کی دیوار سے ٹکرا کر شاہی لشکر کی جانب لوٹ آیا اور پھٹ پڑا۔ جس کے نتیجے میں وہاں پر موجود سارے گولے پھٹ پڑے اور ہر طرف آگ لگ گئی۔ جس میں خود شیر شاہ بھی گھِر گیا اور اس کا سارا جسم جھلس گیا۔ جھلسے جسم کو لے کر وہ اپنے خیمہ میں آگیا اور اپنی تکلیف کی شدّت کے باوجود وہ اپنے سپاہیوں کا فتح کے لیے حوصلہ بڑھاتا رہا۔ اس وقت ایک غیبی مدد کی بھی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔ آخر کار شیر شاہ کو فتح ملی، لیکن خود جانبر نہ ہو سکا اور وہیں فوت ہو گیا۔ چونکہ شیر شاہ کا آبائی قبرستان سہسرام میں تھا۔ اس لیے اس کی لاش کو سہسرام میں لاکر سپرد خاک کیا گیا۔ بعد میں اس قبرستان کو ایک شان دار یادگار میں بدل دیا گیا، جو آج بھی شیر شاہ کے مقبرہ کے نام سے مشہور ہے۔ شیر شاہ نے پندرہ برسوں تک سرداری کی اور صرف پانچ سال تک خود مختار بادشاہ رہا۔ شیر شاہ کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے سلیم خاں کو، جو اس وقت پٹنہ میں موجود تھا، تخت نشینی کے لیے بلایا گیا اور تخت نشیں کیا گیا۔ اس کے بعد اس کا بڑا بھائی عادل خاں تھوڑے دنوں کے لیے تخت نشیں ہوا۔ سلیم خاں کی بادشاہت زمانے تک رہی۔ اس کا دارالخلافہ گوالیار بھی رہا۔ اس کے مقعد میں زخم ہونے کے باعث 1553ء میں اس کی وفات ہوئی اور اسے بھی سہسرام میں ہی شیر شاہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اس نے تقریباََ 9 سال تک حکومت کی۔ سلیم شاہ کا دولت خاں سے عشق کے قصّے بھی کافی مشہور ہیں۔
شیر شاہ کے متعلق مشہور تاریخ داں کالکا رنجن قانون گو نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ شیر شاہ دنیا کی ان ممتاز ہستیوں میں سے ایک ہے، جس کے ساتھ تاریخ نے انصاف نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی وفات کے دس سال کے اندر نہ صرف اس کا خاندان نیست و نابود ہو گیا بلکہ عنان حکومت اس قبیلے کے ہاتھ سے نکل کر جس اجنبی قوم کے ہاتھ میں پہنچی اس کا ہند پر صدیوں اقتدار قائم رہا۔ جس کے باعث شیر شاہ کے کارناموں پر توجہ نہیں دی گئی۔ قانون گو کے مطابق اکبر اعظم کے بعد اگر کسی کو قابل حکمراں تسلیم کیا جا سکتا ہے تو وہ شیر شاہ ہی ہے۔ حقیت یہ ہے کہ شیر شاہ کے بارے میں تاریخ کی زبان، خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، جس کی وجہ کر شیر شاہ سے متعلق تاریخ میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ بہار کے تعلق سے شیر شاہ اور اس کی تاریخ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں نے مختصراََ اس کا ذکر کر دیا ہے، تاکہ بہار کی تاریخ جب کبھی لکھی جائے، تو شیر شاہ کی تاریخی حکمرانی اور اس کے شان دار کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...