شیرشاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔جو نسلاً پٹھان تھے۔ شیر شاہ سوری کی پیدائش 1486 ء میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حسن خان سوری تھا۔شیر شاہ سوری کے آباء کا تعلق افغان قبیلہ سورسے تھا۔ دہلی میں جب لودھی خاندان جو کہ نسلاً افغان تھے، کی حکومت قائم ہوئی تو بہت سے افغان سردار دہلی کی طرف کھنچے چلے آئے ۔ انہی سرداروں میں شیر شاہ کے دادا ابراہیم خان سوری بھی تھے ۔ شیر شاہ کے والد حسن خان کو سکندر لودھی نے سہسرام کی جاگیر عطا کی تھی۔ شیر شاہ اپنے والد کے آٹھویں فرزند تھے۔ جب دہلی کے تخت پر قابض ہوئے تو شیر شاہ کا لقب اختیار کیا اور سوری خاندان (سوری سلطنت) کی بنیاد رکھی۔ فرید خان (شیرشاہ) کا رجحان بچپن ہی سے حاکمانہ رہا۔ وہ بچپن میں گھر سے فرار ہوکر جونپو ر کے نواب کے یہاں ملازمت کرنے چلے گئے۔ شیر شاہ کے والد نے اصرار کیا کہ تعلیم کی خاطر واپس آجائے۔ اس پرفرید خان نے واپس جانے سے منع کردیا اور جونپور میں تعلیم مکمل کرنے پر اسرار کیا۔ جونپور میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کی اور فن سپاہ گیری میں بھی مہارت حاصل کی ۔ بعد ازاں محکمۂ مالیات سے جاگیر کے نظم ونسق کی تربیت حاصل کی اور بہار کے ایک نواب بہار خاں لوہانی کے یہاں ملازمت اختیار کرلی۔ اسی دوران ایک دفعہ فرید خان کا سامنا ایک شیر سے ہوگیا۔ فرید خان نے تنہا ہی اس شیر کا کام تمام کردیا۔اس پر نواب بہار خان لوہانی نے انھیں ’’ شیر خان ‘‘ کا لقب عطا کیا اور اپنے لڑکے شہزادہ جمال خان کے لیے اتالیق کی حیثیت سے تقرر کیا۔
جب ہند میں مغلوں کی آمد اور لودھی خاندان کا خاتمہ ہوا تب شیر شاہ مغلوں کی جنگی مہارت سے کافی متاثر ہوکر بابر کی فوج میں شامل ہوگئے۔ شیر شاہ کی اعلیٰ صلاحیتوںکو دیکھتے ہوئے بابر نے اسے سہسرام کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ شاہی دستر خوان پر شیر شاہ نے بادشاہ کے سامنے سے خوان کھینچا اور بلا تکلف تلوار سے گوشت کاٹ کا کر کھانے لگے۔بابر کو یہ ناگوار گزرا ۔ بابرکو اسی وقت شیر خان ( شیر شاہ) کے دل میں مغل حکمرانوں کے لیے نفرت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ شیر خان کی آزادانہ طبیعت بابر کی ماتحتی زیادہ دن برداشت نہ کرسکی اور وہ جلد ہی بہار لوٹ آئے اورکم سن شہزادہ جمال خان جو کہ نواب بن چکے تھے، کی اتالیقی پر دوبارہ فائز ہوگئے۔ ریاست کا سارا نظم شیر خان کے ہاتھوں میں آگیا اور جمال خان برائے نام نواب رہ گیا، جسے دیکھ کر نواب کے بھی دل میں اندیشہ پیدا ہونے لگا۔اسی درمیان شیر خان نے چنار کے قلعہ دار کی بیوہ سے شادی کی جس کے بدلے میں چنار کا قلعہ شیر خان کے قبضہ میں آگیا۔
شیر خان کے بڑھتے رسوخ کو جمال خان اور اس کے افغان امراء برادشت نہیں کرپائے ۔انھوں نے شیر خان کے خلاف بنگال کے نواب محمود شاہ سے مدد طلب کی، لیکن قسمت شیر خان کے ساتھ رہی۔ افغان امراء و نواب بنگال شکست سے دوچار ہوئے۔ شیرخان کے جنگی جوہر میں اضافہ ہونے لگا۔ مغل بادشاہ ہمایوں جب گجرات کی مہم پر تھا تب موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شیر خان نے (1538 میں) بنگال پر حملہ کردیا۔ نواب بنگال اس کا مقابلہ نہ کرسکا اور بھاری تاوان اور کچھ اہم علاقے شیر خان کے قبضے میں دے کر صلح کرلی۔ ہمایوں کو حالات کا علم ہوا تو وہ شیرخان سے مقابلہ کرنے کے لیے آپہنچا، مگر شیر خان کے سامنے ٹک نہ پایا اور شیر خان کو بطور نواب قبول کر کے واپس چلا گیا۔ لیکن شیرخان نوابیت پر اکتفا کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اس نے دسمبر 1539 میں اپنی بادشاہت کااعلان کردیا اور سلطان العادل کا لقب اختیار کیا ۔ اب فرید خان سوری شیرخان سے شیر شاہ سوری بن گیا۔ شیر شاہ نے سوری خاندان کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد ہمایوں نے دوبارہ (مئی 1540) میں شیر شاہ پر حملہ کیا مگر سخت ناکامی ہاتھ آئی اور سارا شمالی ہند شیر شاہ کے زیر تسلط آگیا۔ہمایوں جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ افغان سردار جو ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی خاطر ہمیشہ خانہ جنگی میں مصروف رہتے تھے، شیر شاہ نے سلطان بنتے ہی تمام افغان سرداروں میں اتحاد قائم کرنے کی کو شش کی، جس میں کافی حد تک وہ کامیاب بھی ہوا۔ بادشاہ بننے کے بعد شیر شاہ کو بہت کم وقت مل پایا۔ ایک جنگی مہم کے دوران شیر شاہ کے بارود کے ذخیرہ میں آگ لگ گئی جس سے شیر شاہ شدید زخمی ہوگئے اور اسی حالت میں 22 مئی 1545 میں انتقال کر گئے۔ انھیں سہسرام (بہار) میں دفن کیا گیا۔
اس نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر سہسرام کو ہی پسند کیا تھا جہاں اس کی سوری قوم کا اکثریت تھا اس لیے اپنی زندگی میں ہی کیمور کی پہاڑی پر مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس کے چاروں جانب مصنوعی جھیل پھیلی ہوئی ہے۔
شیر شاہ سوری کے بعد سوری سلطنت کو کوئی بھی قابل جانشین نہ مل سکا۔ 1545 سے لے کر 1556 کے مختصر عرصہ میں اس خاندان کے چھ فرمانروا تخت نشین ہوئے، جن میں سے بعض کے حصے میں صرف چند ماہ کی حکومت آئی ۔ اس کے بعد ہمایوں نے دوبارہ حملہ کر کے سوری سلطنت سے تخت واپس حاصل کرلیا ۔
شیر شاہ کے کارنامے:
شیرشاہ سوری کی شخصیت اور ان کی خوبیاں ان کے مخالفین کو بھی ان کا مداح بنا دیتی ہیں۔ شیر شاہ کو حکومت کے لیے بہت کم وقت مل پایا (دسمبر 1539 سے 22 مئی 1545)، یعنی تقریباً پانچ سال ایک ماہ، لیکن اس مختصر سی مدت میں بھی شیر شاہ سوری نے وہ کارنامے و اصلاحات انجام دیے جن کی مثال ہندوستان کے کسی حکمراں کے دور میں نہیں ملتی، چاہے اشوک اعظم ہویا بادشاہ اکبر، یا پھر اورنگ زیب ہی کیوں نہ ہو۔ شیر شاہ نے ریاست سے جرائم کاخاتمہ کرنے کے لیے کڑے اقدامات کیے نیز ملوث پائے گئے افراد کے لیے کڑی سزائیں تجویز کیں۔ سپاہیوں کو نقد تنخواہ دینے کا نظام قائم کیا۔ سکوں کے نظام میں بہتری لائی گئی ۔ سونے چاندی اور تانبے کے سکوں کو رواج دیا اور ہر سکے کی قیمت متعین کی۔ شیر شاہ ایک بہادر جنرل کے ساتھ انصاف پسند ، مدبر حکمراں اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔ ان کی انہی صفات نے انھیں عوام کی نظروں میں مقبول بنا یا۔ اپنے انہی کارناموں کی بدولت وہ تاریخ میں نمایا ں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے کارناموں کو سراہتے ہوئے حکومت ہند نے شیرشاہ سوری کے نام سے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیاتھا۔
شاہراہ اعظم (جی ٹی روڈ):
شیر شاہ سوری کے عظیم کارناموں میں سے ایک کارنامہ شاہراہ اعظم کی تعمیر ہے جس کی وسعت افغانستان سے بنگلہ دیش تک ہے ۔ یہ سڑک افغانستان کے شہر کابل سے شروع ہوتی ہے اور پاکستان میں پشاور ،لاہور سے ہوتی ہوئی دہلی اور دہلی سے الٰہ باد ،بنارس، مرشد آباد سے ہوتے ہوئے کلکتہ اور پھر ڈھاکہ جاتی ہے۔
شاہراہوں کی حفاظت اور مسافروں کو سہولت:
شیر شاہ نے ملک کے تمام اہم راستوں کی حفاظت کے لیے راستوں پر جگہ جگہ سرائیں تعمیر کروائی جہاں مسافروں ،قافلوں کے ٹھہرنے کا انتظام ،مسجد، پانی کے لیے کنواں ، رہزنوں سے حفاظت کے لیے حفاظتی دستہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ ہر ایک کوس (تقریباً ساڑھے تین کلو میٹر) پر ایک سرا یا فوجی چھائونی ہوتی جو راہگیروں کو تحفظ فراہم کرتی تھی۔ہر سرا ئے میں ہندو مسلم دونوں عوام کے اعتبار سے مخصوص طعام کا نظم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سڑکوں کے دونوں کنارے پھل دار درخت لگوائے۔
ڈاک کے نظام کی اصلاح:
ڈاک وقت پر پہنچے اور حکومتی انتظامات میں تیزی آئے، اس کے لیے جگہ جگہ راستوں پر ڈاک کے لیے مخصوص چھائونیاں قائم کیں، جہاں ڈاک کے ذمہ داران کے لیے تازہ دم گھوڑے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ تجارتی قافلوں کو قزاقوں کے ڈر سے نجات ملی۔
زرعی اصلاحات:
شیر شاہ نے زراعت کے میدان میں بھی کافی اصلاحات کیں۔ ملک بھر میں کسانوں کی زمین کی پیمائش کے لیے ایک پیمانہ مقرر کیا اور اسی پیمائش کی مناسبت سے فصلوں پر ٹیکس کی شرح عائد کی۔اگر کسی سال فصل اچھی نہ ہوتی یا کسانوں کو نقصان ہوتا تو ٹیکس معاف کردیا جاتا اور سرکاری خزانے سے کسانوں کو معاوضہ دیا جاتا۔ محصول کے نظام کو بہتر بنایا۔ بہتر انتظامیہ کے پیش نظر ریاست کی مختلف صوبوں، ضلعوں ،پرگنوں میں تقسیم کی اور ہر حصہ پر ایماندار عاملوں کا تقرر کیا۔
بلاشبہ شیر شاہ سوری کا دور ہندوستان کا ایک سنہری دور تھا۔شیر شاہ سوری ایسا فرماں روا تھا جس کی ستائش نامور مؤرخین اور عالمی مبصرین کرتے رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کا پہلا حکمران تھا جس نے عوامی فلاح کی جانب اپنی بھرپور توجہ دی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو تاریخ کی کتب میں سنہرے حروف میں تو لکھے ہی گئے، ان کے نقوش آج تک موجود ہیں۔۔!!!!