دو ہزار نو کی جولائی کا دسواں دن تھا۔ اس دن بھی مملکتِ خداداد میں لوڈشیڈنگ زوروں پر تھی۔ اس دن بھی صدر، وزیراعظم، وزرائ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے محلات میں اس قدر ٹھنڈک تھی کہ مکینوں کو کمبل اور رضائیاں کرنا پڑی تھیں۔ خدا کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں اس دن بھی آقاؤں اور غلاموں کی زندگیاں الگ الگ بسر ہو رہی تھیں۔ انکے محلے الگ الگ تھے، ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے الگ الگ تھے۔ انکی خریداری کے بازار الگ الگ تھے۔ یہاں تک کہ غلاموں اور آقاؤں کے لباس بھی الگ الگ تھے۔ جولائی کا دسواں دن تھا۔ گرم اور حبس آلود موسم میں وہ وزارتِ خارجہ میں چار بجے تک بیٹھا کام کرتا رہا۔ اس وزارت کا سارا حساب کتاب اسکے ذمے تھا۔ ایک تھکا ہوا دن کاندھوں پر لادے وہ اٹھا، چھوٹی پرانی گاڑی میں بچے کھچے پیسوں سے سی این جی ڈلوائی اور لاہور کی طرف چل پڑا۔ اس دن بھی شاہراہوں پر غلاموں کو روکا گیا تھا جہاں بھی وہ تھے اور جس حال میں بھی وہ تھے، خواہ وہ ہسپتال کی طرف دم توڑتے مریضوں کو لے جا رہے تھے یا ٹرینوں اور جہازوں کو پکڑنے کیلئے دوڑ رہے تھے یا اپنے بیمار بچوں کو دوا جلد پہنچانے کیلئے بے تاب تھے۔ وہ جہاں بھی تھے اور جس حال میں بھی تھے، انہیں بندوقیں دکھا کر روک لیا گیا تھا۔ آقاؤں کی سواریاں گزرنے والی تھیں اور جب آقاؤں کی سواریاں گزرنے والی ہوں تو داروغے کسی بیمار کسی بچے کسی مسافر کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ رات دس بجے لاہور پہنچا۔ کچھ دوستوں کو ملا، کچھ تھکاوٹ اتاری، کچھ زادِ راہ لیا اور رات گیارہ بجے… جب جولائی کا گیارہواں دن شروع ہونے میں ایک گھنٹہ رہتا تھا، لاہور سے آگے نکل پڑا۔ اس نے بیوی اور بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ وہ تیار رہیں۔ وہ انہیں اسلام آباد واپس لانے کیلئے آئے گا۔ ٹھوکر نیازبیگ کے قریب پولیس کے ایک داروغے نے اس سے لفٹ لی اور تھوڑی دیر کے بعد اُتر گیا۔ گاڑی پُراسرار خاموشی سے بھر گئی۔ کیا داروغے نے نوٹ کر لیا تھا کہ مسافر اکیلا ہے؟ پانچ ڈاکوؤں اور حکومتِ پاکستان کے ایک افسر پر مشتمل یہ قافلہ لاہور کی طرف رواں تھا۔ مطالبہ بالکل سادہ تھا۔ ایک لاکھ روپے درکار تھے اور اسی وقت درکار تھے۔ شکیل جاذب نے ڈاکوؤں کو بتایا کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے اور اس میں سے جو کچھ بھی اے ٹی ایم کے ذریعے اس وقت نکلوایا جا سکتا ہے۔ وہ انہیں پیش کرنے کیلئے تیار ہے لیکن انہوں نے ایک لاکھ روپے سے کم کسی صورت میں قبول نہ کرنے کا اعلان کیا اور ریوالور کی ٹھنڈی فولادی نالی اس کے چہرے سے لگائی اور پھر اسے زور سے دبایا اور حکم دیا کہ اپنے دوستوں سے کسی ایمرجنسی کا بہانہ کرکے رقم منگواؤ اور صبح سے پہلے منگواؤ۔ اس دن بھی لاہور کے اردگرد ناکوں کا جال بچھا تھا جس پر پولیس کے سینکڑوں داروغے ٹارچیں اور بندوقیں اور ریوالور اور ڈھالیں لئے کھڑے تھے۔ تصوف کا یہ باریک نکتہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جن دو گاڑیوں کا قافلہ پانچ ڈاکوؤں پر مشتمل تھا، اسے کسی ناکے پر نہیں روکا گیا۔ کسی ٹارچ نے گاڑی کے اندر پچھلی سیٹ پر لٹائے گئے شکیل جاذب پر روشنی نہیں پھینکی۔ کسی پولیس والے نے نہیں پوچھا کہ رات کے دو بجے تم لوگ کہاں سے آ رہے ہو؟ پچھلی سیٹ پر کون لیٹا ہوا ہے؟ کہاں جا رہے ہو؟ کیا کرتے ہو؟اس دن بھی پولیس کے افسروں کے گھروں کے باہر نصب خیموں میں پولیس کے پہریداروں کی شفٹیں بدلی تھیں۔ ٹیکس ادا کرنیوالے غلاموں کے خون پسینے کی کمائی سے رکھے گئے یہ پولیس کے جوان اپنے افسروں کے گھروں کی حفاظت پر مامور تھے۔ انہی خیموں میں اس رات بھی انہوںنے کھانا کھایا، پیڈسٹل پنکھوں کی ہوا میں سوئے اور سوچا کہ ہماری زندگی خیموں میں گزر رہی ہے اور ہم اپنے افسروں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ حالانکہ ہمارے افسر عوام کی حفاظت پر مامور کئے گئے تھے۔ رمضان کی ستائیسویں رات کو حاصل کئے گئے اس ملک میں اس دن بھی سیاستدانوں اور اسمبلیوں کے ارکان اور وزیروں اور امیروں نے تھانیداروں کو فون کئے تھے اور اپنی ترجیحات واضح کی تھیں اور اپنے دشمنوں کے نام لکھائے تھے اور اپنے دوستوں کے پتے بتلائے تھے۔ ٹھوکر نیازبیگ سے وہ ملتان روڈ پر چڑھا۔ رات نصف اس طرف تھی اور نصف اس طرف تھی جب مانگامنڈی کے قریب وزارتِ خارجہ کے اس لائق اور دیانت دار افسر کو ایک گاڑی نے روکا۔ اس گاڑی سے پانچ افراد نکلے۔ انہوں نے اسے اپنی کار سے باہر آنے کا حکم دیا۔ اسے دوسری کار کی پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ اس کے اوپر کپڑا دیا یہاں تک کہ اس کا منہ اور سر اور جسم پیروں تک سارا چھپ گیا۔ ایک شخص اس کی گاڑی میں ڈرائیور کی نشست پر بیٹھ گیا اور یوں یہ قافلہ جو پانچ ڈاکوؤں، حکومتِ پاکستان کے ایک افسر اور دو کاروں پر مشتمل تھا۔ مانگا منڈی سے واپس لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ اس دن بھی پنجاب کے اَن تھک وزیراعلیٰ نے اپنے آپ کو خادمِ پنجاب لکھا اور لکھوایا تھا۔ پولیس کے ریٹائرڈ افسروں نے اس دن بھی حکمرانی کی تھی۔ پورے صوبے کیلئے مختص بجٹ کا بیشتر حصہ اس دن بھی صوبائی دارالحکومت پر خرچ کیا گیا تھا اور اس دن بھی پنجاب کے دُور افتادہ اضلاع کمزور نظروالوں کو نظر نہیں آئے تھے! ان گاڑیوں کے مالک کون ہیں اور کہاں ہیں؟ شاید اس راز سے وہ ریٹائرڈ افسر پردہ اٹھا سکیں جنہیں منفعت اندوز عہدوں پر بغیر کسی CRITERIONکے لگایا گیا ہے۔ ٹھوکر نیازبیگ سے لفٹ لینے والا داروغہ کون تھا؟ اور کیا ان پانچ ’’افراد‘‘ کو ناکوں پر مامور پولیس کے داروغے پہچانتے تھے؟ آخر ان کیلئے کوئی رکاوٹ بھی رکاوٹ کیوں نہیں تھی؟ نوجوان افسر، شکیل جاذب کے دوستوں نے رات چار بجے ایک لاکھ روپے پہنچائے۔ پانچ ’’معزز افراد‘‘ اس کی اکلوتی کار بھی لے گئے۔ جونفسیاتی دھچکا اسے، اس کی اہلیہ اور اس کے ننھے بچوں کو لگا ہے شاید حاکم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محلات رائیونڈ میں ہوں یا جدہ میں، دبئی میں ہوں یا لندن میں، لاہور میں ہوں یا اسلام آباد میں، ملتان میں ہوں یا کہیں اور… ان کے مکین ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان سب کے درمیان ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور باہر کی دنیا سے بے خبر اور بے نیاز رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھڑی پہنچ جاتی ہے جب وہ پکار اٹھتے ہیں (ترجمہ) کچھ کام نہ آیا میرے میرا مال۔ چھن گیا مجھ سے میرا اقتدار! شکیل جاذب! شیر شاہ سوری ایک ہی تھا اور اسے رخصت ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ برطانوی راج ہوتا تب بھی شاید تمہارے آنسو پونچھے جاتے لیکن خدا کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں تم کسی خوش فہمی میں نہ رہنا!
http://columns.izharulhaq.net/2009_08_01_archive.html
“