آپ کا کیا خیال ہے مصر کے ظالم بادشاہ نے، جو خدائی کا دعویدار تھا، بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مارنے اور لڑکیوں کو چھوڑنے کا پروگرام بنایا تو اس پروگرام کی کامیابی کے لئے کسے مامور کیا تھا؟
اور جب اہرامِ مصر بن رہے تھے اور ہزاروں، لاکھوں غلام اس مشقت میں لگے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں مسلسل پیاز کھلائے جاتے تھے، تو اتنی بڑی بیگار فورس کو کنٹرول کرنے کے لئے اور ان کی سرینوں پر لاٹھیاں برسانے کے لئے کس کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی؟
اور چنگیز خان جب شہر اور بستیاں جلاتا آگے بڑھ رہا تھا تو مفتوحہ علاقوں میں اُن لوگوں کو کیسے تلاش کر لیتا تھا جنہوں نے تاتاریوں کے خلاف لڑنے کے لئے مقامی آبادیوں کو ابھارا تھا؟
اور روم کے کلوسیم میں جب انسانوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈالا جاتا تھا تو اِس وحشیانہ کھیل کا انتظام کس کے سپرد تھا؟
اور جب شیر نے جنگل میں ایک شخص کو کھانے کا ارادہ کیا اور اُس شخص نے شیر کے کان میں سرگوشی کی اور سرگوشی سن کر شیر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا تو اُس نے شیر کے کان میں کیا کہا تھا؟
آپ کو ان سوالوں کے جواب اچھی طرح معلوم ہیں لیکن آپ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آپ کا رنگ زرد پڑ رہا ہے۔ آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آپ کے گھر میں مائیں بہنیں ہیں۔ آپ ایک عزت دار شہری ہیں۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ پنجاب پولیس کا نام لیں! آپ کو یہ بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ اس شخص نے شیر کے کان میں کہا تھا کہ یہ علاقہ پنجاب پولیس کا ہے اور اگر تم نے مجھے کھایا تو تمہیں مستقل نذرانہ دینا پڑے گا اور اس کے علاوہ جو شکار بھی کرو گے اس کا سر، دھڑ، رانیں، پنڈلیاں، بازو اور کلیجی نزدیک ترین تھانے میں جمع کرانا ہو گا اور تمہیں صرف انتڑیاں، اوجھڑی اور ناقابلِ بیان حصے ملیں گے!
روبینہ بی بی کہتی ہے کہ اس کا تیرہ سالہ بیٹا قصور سکینڈل کے ناقابلِ بیان ظلم کا شکار ہوا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل وہ تھانے میں گئی تھی۔ ڈیوٹی پر متعین پولیس اہلکار نے اُسے کہا کہ وہ دفان ہو جائے۔ اسے تھانے سے باہر نکال دیا گیا۔ پھر وہ بتاتی ہے کہ اس کے بیٹے کی وڈیو بنائی گئی مگر پولیس والے اسی سے مجرموں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ شکیلہ بی بی کہتی ہے کہ وہ فریاد کرنے پولیس سٹیشن گئی مگر الٹا اسی کے مظلوم بیٹے کو پکڑ لیا گیا۔ اس کا پندرہ سالہ بیٹا ابھی تک جیل میں ہے۔ گاؤں کے امام مسجد کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا کہ زیادتی کیس میں احتجاج کرنے اور انصاف لینے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعلیٰ کے پاس جانے کا اعلان کرو۔ اس کے بعد پولیس والے جوتوں سمیت مسجد میں گُھس آئے، اسے گریبان سے پکڑ کر نیچے گرایا اور داڑھی سے پکڑ کر پوچھا کہ یہ اعلان کیوں کیا؟ پھر اسے مارتے ہوئے چوکی لے گئے، اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ڈاکوؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس پولیس والے نے اُسے دھمکی دی کہ وہ (یعنی پولیس والا) اُسے (یعنی امام مسجد کو) ’’مقابلے‘‘ میں مار دے گا، اُس پولیس والے کا نام بھی امام نے پریس کو بتایا ہے۔
یہ سب کچھ کسی خفیہ تفتیش کا نتیجہ نہیں، نہ ہی سکاٹ لینڈ یارڈ نے یہ سربستہ ’’راز‘‘ کھولے ہیں۔ سب کچھ میڈیا میں چھپ چکا ہے اور کہا جا چکا ہے۔ متاثرین کا وکیل ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور کروڑوں ناظرین کو اس نے بتایا کہ ملزمان کو گزشتہ پندرہ سال سے حلقے میں جیتنے والی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ وکیل کو ایک عورت نے بتایا کہ وہ پانچ بھائیوں کا جنسی تشدد پچیس برسوں سے برداشت کر رہی ہے۔ اب ان لوگوں کے بچے اس کے بچے کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں۔ وکیل نے عورت سے پوچھا کہ کیا تم تھانیدار کے پاس گئیں؟ عورت نے جواب دیا کہ وہ گئی تھی۔ اس کی موجودگی میں تھانیدار نے ملزموں کو بلا لیا۔ ایک ملزم نے (اس کا نام بھی عورت نے بتایا) تھانیدار کے سامنے اُسے بالوں سے پکڑا، تھپڑ مارے اور پوچھا کہ پچیس برسوں سے تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تمہارے بچے کے ساتھ ہو گیا تو کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے؟ وکیل نے ٹی وی پر بتایا کہ فحاشی کے خلاف تقریر کرنے والے مولوی کو چوکی کے انچارج نے (اس انچارج کا نام وکیل نے ٹیلی ویژن پر بتایا) مسجد سے نکالا اور تشدد کر کے اس کا بازو توڑ دیا۔ جب مظلوم شکایت کنندگان فریاد کرنے تھانے گئے تو ایس ایچ او نے ان کی وڈیو بنائی اور ملزمان کو بھیج دی۔ جب یہ بے کس اور بے بس لوگ واپس گاؤں پہنچے تو ملزموں نے انہیں مارا۔ ڈی ایس پی نے سماجی کارکن مبین غزنوی پر ڈی پی او کے سامنے تشدد کیا اور اسے کہا کہ فلاں ایم پی اے کو (وکیل نے اس ایم پی اے کا نام ٹیلی ویژن پر بتایا) فون کرو۔ اگر وہ کہیں گے تو تمہیں (یعنی مبین غزنوی کو) چھوڑ دیا جائے گا!
دو ہی امکانات ہیں! یہ سب کچھ… جو پریس میں چھپا ہے اور ٹیلی ویژن پر عوام اور خواص نے سنا ہے… جھوٹ ہے یا سچ ہے۔ اگر جھوٹ ہے تو پولیس والے اور حکومت وضاحت کیوں نہیں کرتے۔ روبینہ بی بی بھی موجود ہے، شکیلہ بی بی بھی، اس کا بیٹا بھی۔ امام مسجد بھی۔ امام مسجد کو ’’مقابلے‘‘ میں مارنے کی دھمکی دینے والا پولیس مین بھی! جس عورت کو تھانے میں تھپڑ مارے گئے، وہ بھی زندہ ہے، جن پانچ بھائیوں کا وکیل نے ذکر کیا، وہ بھی اسی ملک میں ہیں۔ اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پریس والوں پر اور وکیل پر اور الیکٹرانک میڈیا والوں پر مقدمہ کیوں نہیں دائر کیا جاتا؟ انہیں اس جھوٹ پر معافی مانگنے کے لئے کیوں نہیں کہا جاتا؟ آخر وہ ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں! اور اگر یہ سب سچ ہے تو حکومت نے کیا ایکشن لیا ہے؟ پولیس والے شکایت کرنے والوں کی وڈیو بناتے ہیں، امام مسجد کو داڑھی سے پکڑ کر اس کا بازو توڑ دیتے ہیں، سماجی کارکن کو مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایم پی اے سے فون کرواؤ… اور حکومت کچھ بھی نہیں کرتی۔ یہ وہی حکومت ہے جو حکمرانِ اعلیٰ کے پروٹوکول قافلے میں ذرا سی گڑبڑ ہو جانے پر ایس پی سطح کے افسر کو معطل کر دیتی ہے!
ناقابلِ بیان زیادتی بچوں کے ساتھ سالہاسال سے ہو رہی ہے۔ وڈیو پھیلائی جاتی رہیں، اگر کوئی کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ پولیس والوں کو اس سب کچھ کا علم نہیں تھا تو وہ بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے! پولیس کی رضامندی کے بغیر شاید ہی کوئی جرم پنپ سکتا ہو! یہ وہی پولیس ہے جس کے بل بوتے پر انگریزوں نے ایک صدی تک صوبے پر حکومت کی۔ پولیس مجرموں کو پکڑنے میں، سراغ رسانی میں، انتظامی معاملات میں دنیا کی کسی بھی پولیس سے پیچھے نہیں۔ جاپان سے لے کر کینیڈا تک اور امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک کسی پولیس فورس سے اس کا مقابلہ کرا کے دیکھ لیں۔ اس پولیس کا المیہ یہ ہے کہ سیاست دان اور حکمران طبقات اسے قومی فورس نہیں، خاندانی نوکر سمجھتے ہیں! اس سے جرائم کرائے جاتے ہیں، مخالفین کا ناطقہ بند کرایا جاتا ہے، بچوں اور بیگمات اور ان کے دوستوں اور سہیلیوں کی خدمت کرائی جاتی ہے۔ گھروں پر پہرے دلوائے جاتے ہیں۔ گھنٹوں شاہراہوں پر کھڑا رکھا جاتا ہے تاکہ شاہی سواریاں اور خاندانی بگھیاں گزریں تو شان و شوکت کا اور تزک و احتشام کا مظاہرہ ہو اور حکمرانی کی تیز و تند روشنی سے عوام کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں!
یہ سب کچھ پولیس کرے تو بدلے میں وہ آزادی مانگتی ہے۔ دنیا میں فری لنچ کہیں نہیں ہوتا، پولیس بھی یہ سب کچھ مفت میں نہیں کرتی۔ غیر اعلانیہ معاہدہ یہ ہے کہ پولیس حکمران خاندانوں کی حفاظت کرے‘ اپنے آپ کو ان کا ذاتی ملازم سمجھے، اہلِ اقتدار کے اقتدار کی پاسبانی کرے اور بدلے میں اُسے کھلی چھٹی ہے عوام کے ساتھ جو چاہے کرے! چاہے تو ملزموں کو چھوڑ دے‘ مظلوموں کی ہڈیاں توڑ دے‘ چاہے تو بے یار و مددگار ملزموں کو تشدد سے ہلاک کر دے‘ چاہے تو غنڈوں، بدمعاشوں اور بلیک میلروں سے دوستیاں نبھائے۔
کیا کسی کو معلوم ہے گزشتہ پانچ یا دس یا پندرہ یا بیس برسوں کے دوران پولیس کے کتنے ریٹائرڈ افسروں کو اعلیٰ ملازمتوں سے نوازا گیا ہے؟ اگر اعداد و شمار میسر ہوں تو نتیجہ حیرت انگیز نکلے گا۔ اس لئے کہ جس طرح جاگیرداروں کی جان پٹواریوں اور تحصیلداروں میں ہے، اسی طرح شہروں سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندانوں کی ’’سیاسی‘‘ بقا کا انحصار پولیس افسروں کے ساتھ ذاتی دوستیوں پر ہے! اِس صورتِ حال میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہماری پولیس کا کام جرائم کی بیخ کنی ہے تو اُسے ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہئے!
اگر ہمارے حکمران تاریخ سے آشنا ہوتے، اگر وہ کتابیں پڑھتے، اگر ان کی پرورش، ان کے ماحول اور ان کے گھروں میں علم کا اور لائبریریوں کا عمل دخل ہوتا، اگر ان کے ارد گرد لطیفہ گو مسخروں کے بجائے بے لوث اہلِ علم ہوتے تو حکمرانوں کو معلوم ہوتا کہ کامیاب حکمرانی کی بنیاد صرف اور صرف امن و امان ہے! اگر تاجر اور ڈاکٹر اغوا برائے تاوان کی نذر ہو جائیں، اگر موبائل فونوں کو بچاتے ہوئے عام شہری ڈاکوؤں کی گولیوں کی نذر ہو جائیں، اگر بچے اور ان کے والدین بلیک میلنگ کے ڈر سے گھروں میں چھپ جائیں، اگر دکاندار بھتہ خوروں کے جبڑوں میں پھنسے ہوں تو میٹرو بسوں اور ٹرینوں پر کون سوار ہو گا؟ چور، ڈاکو، اغواکار، بھتہ خور، موبائل فون اور پرس چھیننے والے اور ہاں پولیس والے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔