فرید الدین عطار، 1145ء یا 1146ء میں ایران کے شہر نیشابور میں پیدا ہوئے اور 1221ء میں وفات پائی۔ آپ کا اصل نام ابوحمید ابن ابوبکر ابراہیم ہے لیکن قلمی نام فرید الدین اور شیخ فرید الدین عطار کے نام سے معروف ہوئے۔
پیشہ کے اعتبار سے ادویات کے ماہر تھے اس لئے عطار آپ کے نام کا حصہ ٹھہرا۔
آپ فارسی نژاد مسلمان شاعر، صوفی بزرگ اور ماہر علوم ِباطنی ہیں۔ آپ کا علمی خاصہ اور اثر آج بھی فارسی شاعری اور صوفیانہ رنگ میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
ابتدائی حالاتِ زندگی:
شیخ صاحب محترم کے بارے زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ ان کے ہم عصر حضرات اوافی اور طوسی کے مطابق یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ شیخ فرید الدین عطار کا تعلق نیشا بور سے تھا، جو عظیم ترخراسان کا ایک بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔آج کل یہ علاقہ ایران کے شمال مشرقی علاقے میں شامل ہے۔
حالاتِ زندگی:
اوافی کے مطابق، فرید الدین عطار کا تعلق عظیم سلجوک سلطنت کے زمانے سے ہے۔ لگتا ہے کہ شیخ فرید الدین عطار اپنی زندگی میں بطور شاعر زیادہ معروف نہیں ہوئے نہ ہی اُن کی تصانیف، شاعری، نظریات اور حکمت و دانش کو پندرہویں صدی تک کوئی پزیرائی حاصل ہوئی۔
عطار کے والداپنے دور کے بہترین کیمیادان تھے جن سے عطار نے کئی مضامین پڑھے۔چنانچہ انہوں نے ادویات سازی کا پیشہ اپنایا اور ان کے مطب کی دور دور تک مشہوری تھی۔
کہا جاتا ہے کہ شیخ فرید الدین عطار کے مریض انہیں اپنی مشکلات، مصیبتوں اور درپیش جسمانی و روحانی تکالیف سے آگاہ رکھتے جس کا ان کی سوچ پر اس قدر گہرا اثر مرتب ہوا کہ انہوں نے مطب بند کر دور دراز کے مقامات جیسے بغداد، بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ، دمشق، خوارزم، ترکستان اور بھارت تک کا سفر کیا اور صوفیائے کرام سے ملاقاتیں کیں۔ ان ا سفار کے نتیجہ میں ان کی سوچ اور نظریات پر ایک مکمل انقلاب آ گیا اور وہ صوف میں لپٹ گئے۔
شیخ فرید الدین عطار کا صوفیانہ نظریہ ایک لمبے غوروخوض اور فکر و تدبر کا نتیجہ اور پختہ ذہنی ساخت کا ثمرہ دکھائی دیتا ہے۔
عطار کے اساتذہ میں مجدد الدین بغدادی واحد ایسی شخصیت ہیں جن کے صوفی نظریات اور خیالات کی جھلک عطار کی سوچ اور صوفیانہ نظریات سے جھلکتی ہے۔
شیخ فرید الدین کا انتقال اپریل 1221ء میں ہوا۔ان کا مزار نیشابور میں واقع ہے اور اس کو سولہویں صدی میں علی شیر نوائی نے تعمیر کروایا۔
آخری ایام حیات:
شیخ فرید الدین عطار کی موت کے بارے مشہور ہے کہ
نیشابور پر منگولوں کے حملے کے دوران شیخ فرید الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ جلد ہی کسی نے منگولوں کو ایک ہزار چاندی کے سکے بطور تاوان پیش کیے۔ عطار نے منگولوں سے کہا کہ اس قدر کم قیمت پر اسے نہ فروخت کریں ۔ منگولوں نے خیال کیا کہ شاید انہیں اس سے بھی بہتر تاوان مل سکے، سو انہوں نے چاندی کے سکوں کی پیشکش مسترد کر دی۔ بعد ازاں کسی نے عطار کو منگولوں سے بھوسے کی ایک بوری کے عوض خریدنے کی پیشکش کی تو عطار نے منگولوں سے کہا کہ انہیں اس قیمت کے عوض فروخت کر دیا جائے کیونکہ ان کی قیمت اتنی سی ہی ہے۔ منگول جرنیل کو بہت غصہ آیا تو اس نے عطار کا سر قلم کر دیا۔ یوں ستر سال کی عمر میں عطار کا انتقال پُرملال ہوا۔
علمی خدمات:
میسر معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ عطار کو بچپن سے ہی صوفیانہ طرزِ حیات پسند تھی اور ان نظریات کو پروان چڑھانے میں انہیں اپنے والد کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ شیخ فریدالدین کے مطابق انہیں صوفیائے کرام کے احوال زندگی سے انتہائی لگاؤ تھا اور وہ اپنی زندگی ان صوفیائے کرام کے طرزِ زندگی کے عین مطابق گزارنے کے خواہاں رہے اور یہی صوفیائے کرام زندگی میں ہر موڑ پر ان کی رہنمائی اپنے فرمودات اور نظریات سے کرتے رہے۔
علمی وراثت:
• تذکرۃ الاولیا
• دیوان
• اسرار نامہ
• مقامات الطیور یا منطق الطیر
• مصیبت نامہ
• الہی نامہ
• جواہر نامہ
• شرح القلب