غیر منقسم ہندوستان میں تعلیم نسواں کے حوالہ سے جب بھی تاریخی تناظر میں چرچہ کی جاتی ہے بر صغیر میں مسلمانوں کی تعلیم کے مسیحا سر سید احمد خان کے نامور رفیق شیخ محمد عبداللہ کانام زباں پر آجاتا ہے۔ وہ دور جبکہ تعلیم نسواں کا ذکر کرنا بھی جرم کے مترادف تصور کیا جاتا تھا اس دورمیں ’پاپا میاں ـ‘کے لقب سے مشہور شیخ محمد عبداللہ نے ہندوستان کی تاریخ میںایک نئے باب کا اضافہ کیا ۔سخت مخالفت اور شدید مشکلات کے باوجود انھوں نے مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک ایسی تحریک چلائی جس نے اس وقت کے معاشرہ کی سمت و رفتار کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔انھوں لڑکیوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آوازاٹھائی اور ان کی حالت بدلنے کی کوشش کی۔وہ چاہتے تھے کہ اسلام نے جو برابری کے حقوق مرد و خواتین کے لئے عطا کئے ہیں وہ ان کو ملنے چاہئیں اور اس میں خواتین کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونی چاہیے ۔مشاہدہ نے انھیں سمجھایا کہ تعلیم کے ذریعہ خواتین کی حالت کوبہترکیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی نظام نہیں تھا اور لڑکیوں کو پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ایسے منفی معاشرہ میںشیخ عبداللہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جو نہ صرف تعلیم گاہ تھی بلکہ اس میں تربیت پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ علی گڑھ کے محلہ بالائے قلعہ میں ۱۹۰۶ میں شروع ہونے اس زنانہ مدرسہ نے ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے راہ ہموار کی۔شیخ عبداللہ کی تحریک تعلیم نسواں نے قوم کی لڑکیوں کے مستقبل کو تابناک بنا دیا ۔
سر سید نے مدرسہۃالعلوم کے قیام اور اس کے ایم اے او کالج میں تبدیل ہوجانے تک اس بات پر خاص توجہ مرکوز کی کہ طلبا کی تربیت بہت ضروری ہے اسکے لئے انھوں نے کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کی طرح اکامتی نظام متعارف کرایا۔سر سید تحریک کے سرگرم رکن شیخ عبداللہ نے اکامتی نظام کا خود بھی تجربہ حاصل کیا تھا اس لئے انھوں نے بھی تربیت کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کا منصوبہ بنایا اور پہلے بورڈنگ ہائوس تعمیر کرایا۔اس دورمیں لڑکیوں کے اکامتی نظام کی بات سوچنا بھی مشکل تھالیکن سر سید کے خاص شاگرد نے مشکلوں سے ٹکرانا ہی تو سیکھا تھا ۔اس لئے وہ ہوا کے خلاف حالات کے دھارے کو موڑنے میں کامیاب رہے۔
لاہور سے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد شیخ عبداللہ اپنے پیر و مرشد حکیم نور الدین کے مشورہ سے ۱۸۹۱ میں جموں کے پونچھ ضلع کے بھان تنی گائوں کو چھوڑ کر علی گڑھ آئے ۔ایم اے او کالج میں داخلہ ملنے کے بعد انھوں نے یہاں کے ماحول میں خود کو ایسے ڈھال لیا کہ گھر چھوڑنے کا غم رفتہ رفتہ جاتارہا۔انھوں نے بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگڑی حاصل کرنے کے بعد علیگڑھ میں وکالت شروع کی اور بہت جلد ان کا شمار معروف وکلاء میں ہونے لگا۔
سر سید نے شیخ عبداللہ کی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیںدوران تعلیم ہی اپنی تحریک سے وابستہ کر لیاتھا۔سر سید کی محفلوں میں شمولیت سے انھیں یہ فائدہ ہوا کہ ان کی نظر میں وسعت اور گیرائی پیدا ہوئی۔ انھوں نے انتظامی امور کو بحسن و خوبی مکمل کرنے کے ہربے سر سید سے ہی سیکھے۔وہ ایم اے او کالج کے ٹرسٹی رہے اور اے ایم یو کے ٹریزرار بھی رہے۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں میں ان کی سرگرم شمولیت سے سر سید کو بہت سہارا ملتا تھا۔سر سید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیم نسواں کے بہت خلاف تھے لیکن ان کے خاص شاگرد شیخ عبداللہ تعلیم نسواں کے سخت حامی تھے۔۱۸۹۶میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں ایک نیا شعبہ تعلیم نسواں کا کھولا گیا ۔۱۹۰۲ میں شیخ عبداللہ کو اس شعبہ کا سکریٹری مقرر کیا گیا۔یہیں سے انھوں نے خواتین کے مسائل کے حل کے لئے کوششیں شروع کیں۔انھوں نے۲،فروری ۱۹۰۲ کو وحید جہاں بیگم کے ساتھ شادی کی اور یہی وہ دن ہے جس کواے ایم یو کے ویمنس کالج میں ’’فائونڈرس ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس روز شیخ عبداللہ اور وحید جہاں بیگم کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اوران کی تعلیم نسواں کے لئے کی گئی گراں قدر خدمات کو یاد کیا جاتا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت ہند نے بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں ’پدم بھوشن‘(۱۹۶۴)ایوارڈ سے نوازا ہے۔
شیخ عبداللہ بچپن سے ہی خواتین پر توڑے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج درج کراتے رہے تھے۔انھیں لگتا تھا کہ ان مظالم کو روکنے کے لئے خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔اس لئے انھوں نے اپنی اہلیہ وحید جہاں بیگم کی مدد سے ایک مہم کاآغاز کیا۔لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مخالف حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۶ میں ایک گرلس اسکول قائم کر دیا۔۷ نومبر ۱۹۱۱ میںنئی عمارت تعمیر کرانے کے لئے قائم مقام لفٹیننٹ گورنر یو پی کی اہلیہ لیڈی پوٹر نے سنگ بنیاد رکھاجبکہ یکم مارچ ۱۹۱۴ کو بیگم بھوپال نواب سلطان جہاں نے گرلس اسکول کا افتتاح ایک شاندار تقریب میں کیا تھا۔ابتدا میں نو لڑکیوں سے شروع ہوا یہ زنانہ مدرسہ تعلیم نسواں کے فروغ میں میل کا پتھر بن گیا۔یہ ادارہ آگے بڑھتا رہا اور لڑکیوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ اس کے مدارج میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔شیخ عبداللہ اور وحید جہاں بیگم کی بے لوث خدمات کا یہ ثمرہ ہے کہ یہ گرلس اسکول پہلے ہائی اسکول(۱۹۲۱)ہوا اور بعد میں انٹر میڈیٹ (۱۹۲۹)کی حیثیت سے مسلم یونیورسٹی سے ملحق ہو گیا۔۱۹۳۷ میں اس میں بی اے کی کلاسیز شروع ہوئیں۔تعلیم نسواں کی تحریک کے فروغ کی عظیم نشانی ویمنس کالج ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آج بے حد سایہ دار درخت بن چکا ہے۔اس میں اب بی اے،بی ایس سی،بی کام کی تین ہزار سے زائد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ۔عبداللہ ہال( جس کی شہرت دنیا بھر میں ہے) میںتیرہ سو سے زائد لڑکیوں کی رہائش سے لے کر تربیت تک کا بہترین انتظام ہے۔سو سے زائد طالبات تاجکستان،تھائی لینڈ،انڈو نیشیا،مریشس،یمن وغیرہ ممالک سے آکر یہاں تعلیم حاصل کر تی ہیں۔
شیخ عبداللہ خوش قسمت تھے کہ انھیں وحید جہاں بیگم جیسا رفیق کار میسر آیا۔وحید جہاں بیگم نے شیخ عبداللہ کی تحریک کو فروغ دینے میں بے لوث خدمات انجام دیں۔انھوں نے اپنی اولاد کی پرورش پر کم اور اسکول کی طالبات کی تربیت پر زیادہ توجہ دی۔دونوں کے درمیان ایسا مضبوط رشتہ تھا جس نے لڑکیوں کی قسمت سنوارنے میں نمایاں کارنامے انجام دلائے۔ان کی زندگی کو بہتر بنانے اور معاشرہ میں باوقار مقام دلانے کی کوشش کی۔
تمام کوششوں کے باوجود آج بھی ہندوستانی معاشرہ میں خواتین کی صورت حال بہت بہتر نہیں ہو پائی ہے۔مسلم لڑکیوں کو اب بھی تعلیم حاصل کرنے میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسے میں شیخ عبداللہ کی تحریک کے احیا کی سخت ضرورت ہے۔۲ فروری شیخ عبداللہ اور وحید جہاں بیگم کی شادی کی سالگرہ کا ہی موقع نہیں ہے بلکہ یہ موقع ہے محاسبے کا ۔مسلم قوم کی لڑکیوں کو تعلیم کی طرف سو فیصد رجوع کرانے کے لئے شیخ عبداللہ اور وحید جہاں جیسے خلوص اور جذبہ کی ضرورت ہے۔اس مبارک موقع پر بانیان تعلیم نسواں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ امید کرنا بے معنی نہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں لڑکیوں کی تعلیم کو عام کیا جا سکے گا ۔
“