شہروں کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے۔ اور ہم جب کسی شہر میں قدم رکھتے ہیں تو ان شہروں کا سلوک آپ کے پہلے قدم کے ساتھ سامنے آنے لگتا ہے۔ یہ مزاج بدلتا بھی رہتا یے ۔ کبھی مشتعل ہو کر اور کہیں مسکرا کر آپ کو اپنی آغوش میں لے کر خوش آمدید کہتے ہوئے یہ شہر نو واردوں کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔ مگر بدلتے ہوئے تیوروں کے ساتھ میزبان شہر کا مزاج چند ہی دنوں میں اپ پر ایک مجموعی تاثر قائم کرتا ہے۔
دلی کی گرمی اور بھاگ دوڑ والی زندگی سے ممبئ جاکر مجھے امید نہیں تھی کہ موسم کے علاوہ کچھ زیادہ تبدیلی محسوس ہوگی۔ مگر چند دن میں ہی اس شہر کے مزاج نے دھیرے دھیرے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ۔بھاگ دوڑ دلی کی طرح وہاں بھی ہیں ۔ مفلسی اور عمارت کا فرق وہاں بھی ہے۔ بڑے بڑےشاپنگ مال میں گم ہوتی ہوئ تہذیب وہاں بھی ہے۔ مگر ان سب یکسانیت کے ساتھ کچھ ایسا بھی تھا جو دلی سے بہت الگ تھا۔ چند دن تو میں تبدیلی موسم کا اثر سمجھتی رہی۔ یہاں برسات کی آنکھ مچولی بہت مزیدار لگی ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ باہر نکلیں اور بارش نہ ہو مگر یہ بھی یقین رہتا ہے کہ ہم بھیگ کر واپس نہیں ائنگے۔ کیونکہ وہاں کی بارش آپ کو مہلت دیتی ہے خود کو بچانے کی۔ آپ کو وہ جیسے ہی پکڑنے کی کوشش کریگی آپ کہیں بھاگ کر لوکل میں چڑھ جائینگے یا آٹو کر لینگے اگلی منزل تک بارش کہیں چھپ جائیگی پھر آپ اتر کر چہل قدمی کرتے ہوئے ۔ بادل اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیتے ہوئے گھومنے لگیں تو اچانک نہ جانے کہاں سے بارش کی تیز پھوار آپ کو گدگدانے آ جائیگی۔ بہر کیف گھومتے گھماتے میں نے ممبئ اور دلی کے اس فرق کو ڈھونڈھ نکالا ۔ اور وہ فرق ہے ممبئ شہر کی سڑکوں ۔ بلند و بالا نئ اور پرانی عمارتوں ، چوراہوں، اسٹیشن یا ہوٹلوں کے آس پاس ہر جگہ ہر طرف درختوں سے انکی دوستی اور محبت ۔
جی ہاں عمارت ہو یا چوراہا نیا ہو یا پرانا درختوں کو بچانے کی کوشش نظر آئ اسے اپنی جگہ پر قائم رکھنے کی شعوری کوشش کی گئ ہے ۔ بہت قدیم درخت اپنے پورے پھیلاو کے ساتھ قائم تھے ایک موڑ پر تو پندرہ بائ بیس فٹ کے گھیراو میں پھیلا ایک درخت بیچ چوراہے پر موجود وہاں کی سڑکوں کو تنگ کر رہا تھا جس پر ہر طرف سے ٹریفک کا ازدہام تھا۔ کئ جگہ پرندوں سے محبت کی نشانیاں بھی ملیں ۔ مگر اس کے علاوہ بھی بہت سی قابل ذکر باتیں نظر آئیں ۔ جن کا ذکر پھر کبھی ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ہر جگہ سے اتنی روانی سے گزری کہ ان کی تصویر نہ لے سکی مگر جہاں آرام سے چہل قدمی کی وہاں کے عکس ضرور اتار لئے ۔ درختوں کی اس کثرت کی ایک جھلک آپ بھی دیکھیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“