فیصل آباد سے متعلق’ یَگانَۂ روزگار سفر نامہ نگار اور جری صحافی ۔۔۔۔۔
شہر یار صحافت محمّد ظہیر قریشی
زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
(ناصر کاظمی)
اجل کے بے رحم ہاتھوں سے اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک اور سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ اُردو شاعری،کالم نگاری، صحافت ، اور علم بشریات کا ایک آسمان ہمیشہ کے لیے فیصل آباد کی زمین میں نہاں ہو گیا۔ میرے شہر فیصل آباد کے دبنگ صحافی محمّد ظہیر قریشی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا۔ فنون لطیفہ ،تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی پر قادر جری صحافی دائمی مفارقت دے گیا۔ شاندار صحافت کا میرِ کارواں چپکے سے ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔
علم و ادب اور صحافت کا وہ آفتاب جو یکم اپریل 1943ءمیں ممتاز صحافی اور نعت گو شاعر جناب غلام رسول خلیق قریشی کے علمی اور ادبی گھر میں طلوع ہوا وہ 9 جولائی 1997ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔پاکستانی ادبیات کو اپنے وطن میں معزز و مفتخر کرنے والا بے لوث ادبی سفیر لوحِ جہاں پر اپنے دوام کے انمٹ نقوش چھوڑ کر ردائے خاک اوڑھ کر سو گیا۔وہ یگانۂ روزگار فاضل اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ، جس نے تخلیقی فعالیت کو ایسی ڈھال سے تعبیر کیا جو ہوس ِ زر،جلب ِ منفعت ،ذاتی مفادات اور دہشت گردی کے تیرِ ستم روکنے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ محمّد ظہیر قریشی کی وفات سے قومی اور مقامی سطح پر صحافت کے فروغ کی مساعی کو شدید دھچکا لگا ہے اور ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔تخلیقی فعالیت اور صحافت کے دوران مواد اور ہئیت کے نئے تجربات کو زادِ راہ بنانے پر اصرار کرنے والے اِس زیرک ،فعال ،مستعد اور جری تخلیق کار کی رحلت نے اُردو زبان وادب اور صحافت کو تخلیقِ فن میں جدت،تنوع اور ندرت کے اعتبار سے تہی دامن اور مفلس و قلاش کر دیا ۔ہماری بے تاب نگاہیں ایسے نابغۂ روزگار کو تلاش کرتے کرتے پتھرا جائیں گی جسے محمّد ظہیر قریشی جیسا کہا جا سکے ۔ رخشِ حیات کی جانب فرشتۂ اجل کی پیش قدمی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔ موت کے جان لیوا صدمات کا قہر دِلوں کے ہنستے بستے شہر اس بے دردی سے اُجاڑ کر رکھ دیتا ہے کہ الم نصیبوں کے حافظے سے وقتی طور پر گزر گاہوں کی پہچان،اقامت گاہوں کے نام، احباب کے ربط باہمی کی داستان،تخلیقی فعالیت کا انجذاب اور تاریخ کے مسلسل عمل کا نصاب سب کچھ محو ہو جاتا ہے ۔ موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے؟ آج وہ اپنی باری بھر چلے اور کل ہمیں اپنی باری کا انتظار ہے ۔راہِ رفتگاں کا ہر مسافر جب عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتا ہے تو ہر آہٹ پر یہ گمان ہوتا ہے کہ موت دبے پاؤں تیزی سے ہماری جانب قدم بڑھا رہی ہے ،ان حالات کو جانتے ہوئے بھی یہ امر لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ دنیا کے سرابوں اور بتان ِ وہم و گماں کے عذابوں میں اُلجھ کر ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے ہیں ۔
شہریار صحافت اور منفرد سفر نامہ نگار جناب محمّد ظہیر قریشی کی بزم ادب اور بزمِ جہاں سے اُٹھنے کی خبر سُن کر دِل بیٹھ گیا ۔اپنی زندگی کے اصولوں کی طرف داری میں مستحکم اور معتبر روّیوں کی مدافعت میں ثابت قدم رہنے والا ادیب دائمی مفارقت دے گیا ۔ پاکستانی تہذیب و ثقافت ، اردو زبان و ادب اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے مصروف عمل رہنے والے ایک مستعد تخلیق کار کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِلی صدمہ ہوا۔اپنی شخصیت اور گفتگو سے ہر ملاقاتی کو اسیرِقیاس کرنے والا اصول پسند صحافی اور سفر نامہ نگار دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا اور اجل کی اس بے دردی کو ادبی دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ اردو زبان و ادب کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والا یہ تخلیق کار زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہا ۔ایک ایسا ادیب رخصت ہو گیا جو معاشرتی زندگی کے تضادات ، ناقابل ِ برداشت ارتعاشات ،بے اعتدالیوں اورشقاوت آمیز ناانصافیوں کے خلاف ایک شعلۂ جوالا ثابت ہوا ۔ فرشتہ ٔ اجل نے اس بے خوف صحافی اور تخلیق کار سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ نصف صدی کے عرصے میں اُردو ادب اور صحافت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔اپنے من کے غواصی کر کے زندگی کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کرنے والے اس شوخ ،زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اردو ادب کی ثروت میں جو قابل قدر اضافہ کیاوہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے صحافت کے شعبہ میں اپنی انفرادیت کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی جدت پسندی نے صحافت میں نئی نئی راہیں تلاش کیں۔ وہ خودساز شخصیت تھے۔ ان کا شمار قلم کے مزدوروں اور صحافت کے محنت کشوں میں ہوتا تھا۔
جناب محمد ظہیر قریشی نے عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اُردو ادب اور صحافت کا وہ آفتاب جو یکم اپریل 1943ء میں لائل پور (فیصل آباد) پاکستان سے طلوع ہوا وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔اُردو شاعری ، سفر نامہ نگاری اور صحافت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ۔ گلستان کالونی فیصل آباد کے شہر خموشاں کی زمین نے اُردو ادب کے اِس خورشید جہاں تاب کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اِس شہر خموشاں کی زمین نے اُردو زبان و ادب اور فیصل آباد کی درخشندہ صحافت کے اُس آسمان کو نِگل لیا جو گزشتہ پانچ عشروں سے علم و ادب اور صحافت سے وابستہ افراد کے سر پر سایہ فِگن تھا ۔حریت فکر کے اِس مجاہد کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ بُقعہ ء نور بن گیا۔ جناب محمد ظہیر قریشی ایک دبستان علم و ادب کا نام ہے ،وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی تھے ۔ان کی وفات سے اردو ادب اور اردو صحافت کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے، ایسی نابغہء روزگار ہستیاں اور یگانہء روزگار فاضل کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔
لائل پور (فیصل آباد) میں ایک مسافر جو گجرات سے ہجرت کرنے والے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہے’ بڑی تیزی سے ایک پورے سیاح کی صورت میں اس سرزمین میں ابھرا ہے ۔جو اس زمانے کے گریجویٹ باب غلام رسول خلیق قریشی کا بیٹا ظہیر قریشی ہے۔اس نے اپنے والد کی اصل جاگیر روزنامہ “عوام” فیصل آباد کو نہ صرف سنبھالا دیا بلکہ اسے اپنے والد کی نسبت کہیں زیادہ بااعتماد اور باوقار بنایا۔
جناب ظہیر قریشی نے صحافت میں مہینوں اور سالوں کا سفر دنوں اور ہفتوں میں طے کیا اور اس کا اخبار “عوام ” فیصل آباد کے عوام کی آواز بن گیا۔ اس نے ساری دنیا سے قطع تعلق کرلیا۔ وہ اور اس کا اخبار فیصل آباد کے ہوکر رہ گئے، اور اپنی اخبار کو مقامی اخبارات میں سب سے نمایاں مقام تک پہنچا دیا ۔ جس مثالی اور معیاری زبان کا استعمال روزنامہ “عوام” میں کیا گیا، وہ صحیح معنوں میں روز مرّہ استعمال میں آنے والی یا ہماری مانوس ترین آسان زبان ہی رہی ہے جو استدلال سے پر اور توازن کی حامل رہی ہے۔ واقعہ یا خبر سے متعلق معلومات پوری بصیرت کے ساتھ بغیر کسی ذہنی الجھن کے ذہن میں سماجاتی تھی ۔ فیصل آباد (لائل پور) کو رابطہ عامہ کے لیے ایسی ہی سادہ و آسان زبان کی سخت ضرورت تھی۔ انہوں نے مقامی صحافت کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے ایک نئی تازگی سے آشنا کیا۔ مہذب اور تعلیم یافتہ اردو داں طبقے کے ہاتھ میں ایک ایسا صحافتی مرقع پیش کر دیا جس کے لیے دنیا ہمیشہ ہی ان کی احسان مند رہے گی۔ ظہیر قریشی نے محض رواداری میں یا جدت طرازی کے نمونے دکھانے کی دھن میں یہ اختراعی کوشش نہیں کی بلکہ سوچ سمجھ کر پورے شعور و فکر کے ساتھ اسے اختیار کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوۓ۔ فیصل آباد (لائل پور) کے تقریبا تمام ادبا ،شعرا ، اہل قلم نے اسی مقامی اخبار “عوام” سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا۔آج جتنے بھی بڑے بڑے اہل قلم شہرت کی بلندیوں پر مثل آفتاب چمک رہے ہیں۔وہ اسی نرسری کے تربیت و فیض یافتہ ہیں ۔
ظہیر قریشی نے صحافت کے ساتھ ساتھ سفر نامہ نگاری میں بھی خوب نام کمایا۔
ظہیر قریشی نے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں یکے بعد دیگرے دو طویل سفر کیے،پہلا سفر (1983ء) “تیری وادی وادی گھوموں” اور دوسرا سفر (اپریل 1985ء) “سبز پوش وادیوں میں” کے مشاہدات کو بڑے احسن انداز میں قلم بند کیا ہے۔۔
ظہیر قریشی کا پہلا سفر زیادہ تر سلسلہ قراقرم اور تھوڑا سا ہمالیہ سے متعلق رہا۔جب کہ دوسرا سفر قریبا تمام تر سلسلہ ہمالیہ سے منسلک علاقوں سے تعلق رکھتا ہے۔جغرافیائی طور پر یہ دونوں سفر نامے دراصل ایک ہی سفر کے دو حصے ہیں جب کہ ادبی رخ سے دیکھا جائے تو دوسرا سفرنامہ “سبز پوش وادیوں میں” کا اسلوب اور بیان کے لحاظ سے پہلے سفرنامہ “تیری وادی وادی گھوموں” سے علاحدہ تو نہیں البتہ اس کی اگلی ارتقائی منزل کی نشاندہی بخوبی کرتا ہے ۔اس لئے اس جائزے میں ان دونوں سفر ناموں کا مشترکہ ذکر ناگزیر ہے۔
پہلے “تیری وادی وادی گھوموں” کی وجہ وقوع ویسے ہی اچانک ڈرامائی ہے،اس اچانک اور ڈرامائی سفر کے پیچھے جو
اعلی قومی جذبہ مسلسل ہر دو سفروں میں کار فرما ہے وہ کسی ایک لمحے کی پیداوار نہیں وہ برسوں کی سوچ اور فکر سے پروان چڑھتا ہے۔وہ جذبہ بقول ظہیر قریشی کچھ یوں ہے۔
” ۔۔۔۔۔۔۔بس ارادہ باندھا اور چل نکلا ۔۔۔۔۔۔میرے سامنے ایک ایسا سفر ہے جس میں اسرار ہیں اسرار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاک وطن کی وسعتوں کو اپنی نگاہوں میں سجانے کا عزم پیش نظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔فورا خیال آیا اس مہلت کا جی بھر کر فائدہ اٹھا لوں اور اپنے پیارے وطن کو تو دیکھ لوں ، اس وطن کو جسے حاصل کرنے میں کام آنے والے شہیدوں کا شمار ہی ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس پاک وطن کے ذرے ذرے کو چومنا چاہتا ہوں کہ یہ ذرے گواہ ہیں کہ ہمیں باوقار زندگی گزارنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔۔”
“تیری وادی وادی گھوموں”” تیرا کونا کونا چوموں” کا یہ سفر بہت بڑے ادبی محقق یا دانشور کا سفر نہیں لیکن محض وطن پرستی کے مجرد بنیادی جذبے کے تحت پاکستان کے کسی بڑے سے بڑے ادیب ،محقق یا دانشور نے شاید ہی ایسا سفر کیا ہو البتہ رحیم گل نے قراقرم کے اسی علاقوں میں ایک سفر کیا،ناول نما سفرنامہ “جنت کی تلاش میں” لکھا۔
ظہیر قریشی اپنے پہلے سفر میں براستہ بشام شاہراہ قراقرم انیس گھنٹے میں گلگت پہنچا۔وہاں سے پاک چین سرحد خجراب کے شوق میں فور آگے کی منزل ہنزہ سفر کر گیا۔ہنزہ کی ہنزہ کئی دن کے قیام کے باوجود واپس گلگت اور پھر سکردو پہنچا۔سکردو سے پھر گلگت اور شاہراہ قراقرم پر واپسی سفر میں شام سے سوات کی طرف مڑ گیا ۔سوات سے کلام سیاحی کے بعد دیر ، دیر سے چترال اور چترال سے تھوڑی سی وادی کلاش کی سیاحت کرتے ہوئے وہ ۔۔۔۔۔۔”میں اپنے وطن سے وطن میں واپس آگیا”۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا مقامات پر ظہیر قریشی کے تاثرات اور مشاہدات کا کچھ ذکر دوسرے سفر کے جائزے میں کہیں کہیں شامل کیا گیا ہے۔ ظہیر قریشی کی اس آتش شوق کی تحلیل کے لئے جو اسے دوسرے سفرناموں سے ممیز کرتی ہے اور جس کی بنا پر دونوں سفر نامے محض روزمرہ کے دو تفریحی سفر نامے نہیں رہتے جیسے روزانہ اخبارات کے خصوصی اڈیشنوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ظہیر قریشی کا پہلا سفر نامہ زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے سادہ اور سیدھا ہے۔بدلتے ہوئے مقامات پر متعلقہ واقعات مشاہدات اور تاثرات سیدھے براہ راست بیان میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ہر چیز بے ساختگی کی مظہر ہے
نہ کسی بناؤ سنگار کی زبان و بیان میں کوشش نظر اتی ہے اور نہ کہیں کسی اسلوب کا کوئی تجربہ کسی جگہ جھلکتا ہے ۔لیکن ان کا دوسرا سفر نامہ “سبز پوش وادیوں میں” پہلے سے کافی مختلف ہے ۔پہلے میں انداز بیان ہلکا پھلکا سبک سبک کلام، سبک سبک جملات ، پھر یہ سارا انداز دوسرے سفرنامہ میں بھی موجود ہے البتہ مشاہدات میں گہرائی اور گیرائی کی ڈگری بڑھ گئی ہے بلکہ سیدھا سادہ ،کلاسیکی، سیاح میں ڈھلنے کی ایک لاشعوری خواہش کے زیر اثر ہے ۔زبان میں بھی کچھ کچھ اہتمام پایا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے اندازے بیان کہیں کہیں نسبتا بھاری بھاری سا ہے ۔چشم نظارہ بین اتنی تیزی سے متحرک ہے جیسے گاڑی میں کہ جو سامنے سے گزرے بیان ہوتا جائے ۔۔۔۔بلکہ یہاں کئی مقامات پر باقاعدہ کیمرہ فٹ کر کے منظر کشی یا تصویر کشی کا اہتمام موجود ہے بلکہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ پہلے سفر نگار نے اب ادبی رخ پر دوسرے سفر نگاروں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور اس مطالعہ کی جھلک اگر باریک بینی سے دیکھی جائے تو نظر بھی آتی ہے۔۔ مختصرا کہا جا سکتا ہے کہ دوسرا سفر نامہ “سبز پوش وادیوں میں” واضح طور پر کئی جہتوں میں مائل بہ ارتقا نظر آتا ہے ۔۔لکھتے ہیں ۔
“ایک نو بیاہتا جوڑا بھی یہاں سے گزرا تھا دونوں کو چہروں پر خوشیوں نے گلال کھلا رکھے تھے یہ نوجوان جوڑا یوں خوش خوش آگے بڑھ رہا تھا جیسے روشن مستقبل انتظار میں کھڑا ہو ایک بڑھیا لکڑی کی چھوٹی چھوٹی گیلیاں سنبھالے گزر رہی تھی جس کے چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں بیتے زمانے کی تکان کو بھی ساتھ لیے زندگی کی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے آگے بڑھ رہی تھی۔”
سفرنامہ “سبز پوش وادیوں میں” آزاد کشمیر کی سیاحت سے تعلق رکھتا ہے۔ قدرتی طور پر یہ خطہ سلسلہ ہمالیہ کے مون سون منطقہ میں شامل ہے ۔سبزہ چھوٹے بڑے جنگلات کے سلسلے ندی نہ اور نالے دریائے جہلم اور دریائے نیل کے دل پر پیچ و خم رواں دواں راستے شاداب بستیاں سیم آب جھیلیں، مہمان نواز ملن سار مکین ،آباد مکان ،، زرخیز کھیتیاں اسکول و کالج ۔۔۔۔۔یہ تمام ہما ہمی ظہیر قریشی کے سفرنامے میں جھلکتی ہیں ۔۔
وہ انہیں سفر کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ ظہیر قریشی ہر صبح وارفتگی سے ہر دن جستجو اور تجسس سے اور ہر شام سلگتی سلگتی سوچ سے مملو ملتی ہے ۔دن کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے اس وقت وہ اپنی ادبی یا سفری کم عمری کے لحاظ سے اپنی منی سائز میں کبھی البرونی یا ابن بطوطہ کبھی ابن انشاء یا پھر کبھی تارڑ کی پیروی میں جستجو اور تجسس کے عالم میں ہوتا ہے لیکن یونہی شام کے سائے ڈلتے ہیں وہ ماضی کے میر اور نئے ناصر کاظمی کی سلگتی ہوئی سوچوں میں سلگنا شروع کر دیتا ہے ۔وہ کسی ریسٹ ہاؤس کے لان میں اکیلا بیٹھا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شام چکار کے ریسٹ ہاؤس کے لان میں اتری ہو ۔۔” چکار ریسٹ ہاؤس میں دور دور بنے ہوئے ایک ایک مکان کے لیے کئی کئی پول لگائے گئے اور رات کو چکار پر روشنی کی بارات اتر ائی ہے دور دور تک جگمگ جگمگ کا سماں ہوتا ہے ۔
جہلم کے کنارے کے اریسٹ ہاؤس میں:
شام کے سائے چناری پر اتر رہے تھے ۔چناروں کے سائے بڑے اور آپس میں ملے اور پھر گھل مل گئے ۔” شام “دن اور رات کے درمیان بڑے رومان انگیز منظر کا نام ہے ۔۔میں چناروں میں بیٹھا تھا اس لیے کہ یہاں جس جگہ چنار نہیں وہ ریسٹ ہاؤس ہے۔ ریسٹ ہاؤس کا ہرا کچور لان ہے سڑک اور دکانیں ہیں گلیاں اور مکان ہیں یا دریائے جہلم ہے۔ پہاڑ کی ڈلوانیں چناروں سے اٹی پڑی ہیں ۔
یا سبھری جھیل کے کنارے بنے ہوئے ریسٹ ہاؤس کے لان میں اتر رہی ہو
“سبھری جھیل کے کنارے بنے ہوئے ریسٹ ہاؤس کے سر سبز لان میں میری خوش نصیبی سراپا مجسم موجود تھی ۔”
مورخ اور ادیب ہمیشہ راستوں سے گزرتے ہوئے بڑی تنقیدی اور گہری نگاہ سے ہر چیز کو دیکھتے ہیں اور ان کا مشاہدہ عام سیاحوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ ظہیر قریشی صاحب بھی اپنے سفر میں جس گاؤں قصبے اور شہر سے گزرے ہیں، انھوں نے وہاں بسنے والے ادیبوں، شاعروں اور تہذیب و تمدن اور بودوباش کا ذکر اس سفرنامے میں کیا ہے۔۔۔۔
1993 میں محترم ظہیر قریشی صاحب اپنے گھر میں ہی اگ کے ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے جس سے ان کے جسم کا 60 فیصد سے زائد حصہ اگ سے متاثر ہوا تھا ۔یہ لمحات بہت کرم ناک اور تکلیف دہ تھے ۔تقریبا چار ماہ 25 دن وہ ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب تو ہو گئے لیکن مستقل عارضہ قلم میں مبتلا ہو گئے پھر اسی دل نے ان کا کہنا ماننا چھوڑ دیا ۔۔۔۔
جناب محمد ظہیر قریشی کے فرزند ارجمند’ احمد ثبات قریشی اپنے والد گرامی کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں
“والد صاحب (مرحوم) جنابِ محمد ظہیر قریشی کو پاکستان سے جنون کی حد تک عشق تھا محبت کا یہ عالم تھا کہ جب 1997ء میں حکومتِ پاکستان نے ملک کو قرض سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور “قرض اتارو ملک سنوارو سکیم” کا اجراء کیا تو انھوں اپنا تمام ذاتی اکاؤنٹ ادارہ روزنامہ “عوام” کا تمام بنک اکاؤنٹ، ہم بچوں کے اکاؤنٹ اور میری والدہ کا تمام زیور اس اسکیم میں دینے کا فیصلہ کیا۔ والدہ(مرحومہ) نے کہا کہ کچھ اپنے لیئے بھی رکھ لیں تو انھوں نے فوری کہا کہ اس ملک سے کمایا تھا آج ملک کو ضرورت ہے تو مجھ پر یہ لازم ہے کہ جو یہاں سے کمایا اس پر نثار کردوں۔
پاکستان سے محبت کا عالم یہ تھا کہ ان کے دفتر میں ان کی کرسی کے عین اوپر جلی تحریر فریم ہوئی ٹنگی ہوتی تھی جس پر لکھا تھا کہ “پاکستان سے محبت جزوِ ایمان ہے”۔اسی طرح ہر وقت پاکستانی پرچم کا بیج اپنے سینے پر سجائے رکھتے تھے اور جو کوئی بھی ملاقات کی غرض سے ان کے دفتر آتا تو اس کے سینے پر بھی بیج سجاتے اور خوشی محسوس کرتے۔اسی بناء پر لوگ انہیں “جھنڈے والا صحافی” کہتے تھے۔”
حریت ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والے اس جری تخلیق کار نے قوم کو جو ولولۂ تازہ عطا کیا اس کے بارِ احسان سے ہر پاکستانی کی گردن خم رہے گی۔
نئے زمانے اور نئی صبح و شام دیکھنے کے آرزو مند ظہیر قریشی نے ادب برائے تبدیلی ، نئے خیالات، متنوع تجربات اور نئے مضامین کے انتخاب سے اپنے منفرد اسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا۔ ان کی تخلیقات میں نئی تراکیب،حسین پیرایۂ اظہار،دل کش استعارات،گہری معنویت کی حامل تلمیحات، حسین تشبیہات اور حسن و خوبی کے مظہر تکلم کے سلسلے بیان کے اسلوب کو زر نگار بنا دیا ہے ۔ان کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات تاریخ ِادب اور صحافت میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کے اصلاحی اقدامات کی بنا پر ہر پاکستانی ان کا ممنون و مقروض رہے گا ۔ انسانی کردار اور عظمت کا پیکر یہ شریف ،مخلص ،درد آشنا اور وضع دار انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے ۔ایسے نایاب اور وضع دار لوگ مُلکوں مُلکو ں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے۔
وضع داری کی بہت قدر کرو ایسے لوگ
آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔