وطن عزیز کی سیاست پر تبصرہ کرنا ہمیشہ سے مشکل ہی رہا ہے۔یہاں پر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانےکے اور ہوتے ہیں۔ جو کچھ کہا جارہا ہوتا ہے اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور جو نہیں کہا جاتا وہی حقیقت میں ہورہا ہوتا ہے۔ سیاست کے طالب علموں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں پر سیاست دان کی کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ کون سا سیاست دان کب اور کس وقت اپنے بیان سے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں منحرف ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور نا ہی اس کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک وسیع تر ملکی مفاد کی بات ہے تو اس کی تشریح بھی کم وبیش ناممکن ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایک ادھ بار ہی این آر او کی ضرورت پیش آتی ہے مگر ہم وہ لوگ ہیں جن کو ہر دس سال بعد این آر او کی ضرورت پڑتی ہے۔قومی مفاد کی خاطر مفاہمت بنیادی طور پر مل بیٹھ کر کھانے کا فارمولہ ہو ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسہ میں میاں نوازشریف کی تقریر نے ملکی سیاست میں گویا بھونچال برپا کردیا۔ تین بار وزیراعظم رہنے والی شخصیت نے ببانگ دہل کچھ ایسے نام لے کر الزامات لگائے جن کی کوئی توقع نہیں کررہا تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے آئندہ کچھ جلسوں میں وہ تواتر کے ساتھ ان الزامات کو دہراتے رہے۔ آئین شکنی کرنے والوں کے نام لے کر ان کا کہنا تھا کہ اب ان کو جواب دینا ہوگا۔ مسلم لیگ ن جس پر پرواسٹیبلشمنٹ کا الزام تھا ایک دم اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت بن کر سامنے آگئی۔ میاں نوازشریف کے بیانیے کو لے کر ن لیگ نے اتنا شور مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
اس سارے شور میں ایک شخص خاموش تھا اور وہ تھا میاں شہبازشریف۔ سب منتظر رہے کہ وہ کچھ بولے مگر وہ شخص نہیں بولا۔ مزاج آشنا سیاست دانوں کا جن میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار دوست محمد خان کھوسہ شامل تھے کا موقف تھا کہ میاں شہبازشریف مناسب وقت پر بات کریں گے اور مفاہمت کی ہی بات کریں گے۔ اور وہ اپنے بڑے بھائی کو بھی راضی کرلیں گے۔ مگر اس سب کے باوجود انتظار ختم نہیں ہوا اور پھرخدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور بالآخر ایک طویل خاموشی کے بعد ن لیگ کے صدر شہبازشریف نے ایک پروگرام میں دل کھول کررکھ دیا اور ہر موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے۔سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کا جو بیانیہ تھا اس کے متعلق شہباز شریف کیا سوچتے ہیں۔کیا وہ اپنے قائد کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو لے کرچلیں گے
تو ایک سوال کے جواب میں میاں شہبازشریف نے اپنے قائد کے بیانیے کے برعکس بات کی اور کہا کہ ہم نے الجھاو کی طرف نہیں جانا اور مشاورت کے ساتھ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے۔میاں شہبازشریف نے پی ڈی ایم اور مریم نواز کے استعفوں کے برعکس کہا کہ مشاورت کے لیے سب سے بہترین فورم اسمبلی ہے جہاں پر ان مسائل کو ڈسکس کرکے ان کا حل نکالنا چاہیے یہ وہی بات ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی کررہی تھی اور اس بات پر پی پی پی کو شوکاز نوٹس دیا گیا اور پی ڈی ایم سے رکنیت بھی ختم کی گئی۔سوال تو بنتا ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس پی پی کو دئیے جانے والے شوکاز نوٹس کا جواز کیا رہ گیا ہے جب وہی بات ن لیگ کے صدر کررہے ہیں۔اور شائد یہی وجہ تھی کہ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مریم نواز کی بات نہیں ن لیگ کے صدر شہبازشریف ہیں ہم ان کی بات کو اہمیت دیں گے۔
ن لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے موجودہ سیاسی بحران کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ اگر اہم ایک ریکنسیلیشن اور نیا عمرانی معاہدہ کریں، فری اینڈ فیئر الیکشن ہو اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، تو تمام متعقلہ اداروں کے ساتھ مل کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے روڈ میپ طے کر سکتے ہیں۔ اور نواز شریف اس کے لیے تیار ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف ایک سٹیٹسمین ہیں اور وہ نیشن بلڈنگ کے لیے راضی ہوں گے اور اگر ان کو اعتراض ہوا تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ میں ان کے پاوں پکڑ کر ان کو راضی کرلوں گا
اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں نوازشریف راضی ہوجائیں گے تو اس کاجواب یہ ہے کہ بالکل راضی ہوجائیں گے۔ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ اپنی شرائط پر ضرور راضی ہوں گے ۔کیونکہ بہت سے معاملات پہلے ہی نیم رضامندی کے ساتھ بہتری کی طرف جارہے ہیں اس لیئے تو زبیر عمر اور شاہد خاقان عباسی کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ ہمارا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا۔اور ان تین سالوں میں جو فاصلے پیدا ہوئے تھے وہ قومی مفاہمت کے نام پر سکڑ جائیں گے اور پھر وہی قربتوں کے دن رات ہوں گے۔
رہی بات چوہدری نثار کی تو شہبازشریف نے ان کے متعلق نیک خواہشات کا اظہار کیا مگر غورکریں تو چکری کے چوہدری نے بھی اسمبلی کے سامنے شہبازشریف والی قومی مفاہمت کی بات کی تھی۔اب ہوگا یہ کہ ساری جنگ اسمبلی کے فورم پر جمہوری و آئینی انداز میں لڑی جائے گی ۔قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت استعفوں ، لانگ مارچ اور دھرنوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔گارنٹی اس بات کی ہے کہ آئندہ الیکشن فری اینڈ فئیر ہوگا۔جو جتنی سیٹیں جیتے گا اسی حساب سے اقتدار میں ہوگا۔بس یاد رہے میاں نوازشریف کے راضی ہونے کی صورت میں 2023 کے الیکشن کے بعد کوئی جماعت اپوزیشن میں نہیں ہوگی سب ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار میں ہوں گے ۔آخری بات کہ اپوزیشن کو احتجاجی جلسوں سے کیا حاصل ہوا تو ان کی فتح یہ ہے کہ عمران خان کا دس سالہ حکمرانی کا منصوبہ ملک کے وسیع تر مفاد میں پانچ سال کا ہوجائے گا۔اور اس کا حال بھی ہمارے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں سے مختلف نہیں ہوگا۔